بخاری شریف کی تکمیل کی تقریبات کا سلسلہ ابھی چل رہا ہے اور مختلف پہلوؤں پر متنوع گفتگو کا موقع مل رہا ہے۔ بعض احباب نے تقاضا ہے کہ اس بات چیت کو مربوط شکل دی جائے جو سر دست میرے لیے مشکل ہے، ارادہ ہے کہ رمضان المبارک کے دوران فرصت کے لمحات میسر آنے پر اس کی کوشش کروں گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ سرِ دست چند پہلو تحریری صورت میں قارئین کی نذر کیے جا رہے ہیں۔
امام بخاریؒ کا ذوق یہ ہے کہ وہ ’’الجامع الصحیح‘‘ میں صرف احادیث بیان نہیں کرتے بلکہ ان سے مستنبط ہونے والے احکام و مسائل کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ بلکہ پہلے وہ مسئلہ بیان کرتے ہیں جو ان کے نزدیک اس حدیث سے قائم ہو رہا ہے اور مسئلہ بیان کرنے کے بعد اس سے متعلقہ حدیث بیان کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ جو مسئلہ وہ قائم کرتے ہیں اس کے بارے میں اکثر مقامات پر پوری حدیث بھی ذکر نہیں کرتے بلکہ حدیث کا صرف اتنا حصہ بیان کر دیتے ہیں جو اس مسئلہ کی وضاحت کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ ’’فقہ البخاری فی تراجمہ‘‘ امام بخاریؒ کا تفقہ اور ان کی فقہ ان ابواب اور عنوانات میں موجود ہے جو انہوں نے احادیث پر قائم کیے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی مد نظر رہے کہ تراجم ابواب کی تعداد ساڑھے چھ ہزار سے زیادہ ہے جبکہ تکرار حذف کر کے احادیث کی تعداد ساڑھے چار ہزار کے لگ بھگ رہ جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بخاری شریف میں احکام و مسائل کی تعداد زیادہ ہے اور احادیث کی تعداد ان سے بہت کم ہے۔ یہ ساری علامات فقہی ترتیب کی ہیں اس لیے میں ایک طالب علمانہ بات یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ بخاری شریف صرف حدیث کی کتاب نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فقہ کی کتاب بھی ہے جس میں امام بخاریؒ نے ایک فقیہ اور مجتہد کے طور پر اپنی ساری فقہ سمو دی ہے۔
حدیث و فقہ الگ الگ علوم نہیں ہیں بلکہ ایک ہی ماخذ کے مختلف اظہار ہیں اور آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ حدیث کو سند اور متن کے ساتھ بیان کرنا روایت اور حدیث کہلاتا ہے۔ جبکہ اس میں مسائل و احکام کا استنباط کرنا فقہ شمار ہوتا ہے۔ جہاں حدیث ہوگی وہاں ظاہر بات ہے کہ فقہ بھی ہوگی، اور جہاں فقہ ہوگی یقیناً اس کی پشت پر کوئی نہ کوئی حدیث بھی ہوگی۔ ان کا باہمی تعلق اسی طرح کا ہے جو دودھ اور مکھن کا ہے۔ دودھ اپنی اصل حالت میں دودھ کہلاتا ہے ، جبکہ اس میں سے گھی نکلتا ہے، مکھن بنتا ہے، پنیر اور کھویا نکلتا ہے، ملائی اور کریم نکالی جاتی ہے اور برفی بھی اسی سے بنتی ہے۔ اب یہ ساری چیزیں بظاہر الگ الگ نظر آنے کے باوجود دودھ سے الگ نہیں ہیں بلکہ اسی کا حصہ اور ثمرہ ہیں۔ اس لیے حدیث اور فقہ الگ الگ علوم نہیں ہیں بلکہ ایک ہی علم کی مختلف صورتیں ہیں۔ فقہ کا یہی تعلق قرآن کریم کے ساتھ ہے۔ قرآن کریم کی آیت پڑھی جائے تو یہ تلاوت و قراءت ہے لیکن اس میں سے مسائل و احکام کا استنباط کیا جائے تو وہ فقہ بن جاتا ہے اور وہ فقہی احکام و مسائل قرآن کریم کا حصہ ہی ہوتے ہیں۔
امام بخاریؒ کے ذوق اور ان کی عظمت کے بیسیوں پہلو بیان کیے جاتے ہیں جن میں سے ان کی علمی دیانت کے حوالہ سے ایک پہلو ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کی طرف آج کے دور میں علماء کرام اور فضلاء کرام کو زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ امام بخاریؒ کے حوصلہ اور علمی دیانت کا یہ پہلو ہم سب کے لیے لائق تقلید ہے کہ ان کے اساتذہ میں امام محمد بن یحییٰ ذہلیؒ ایک بڑے محدث تھے جن کی مسند حدیث نیشاپور میں تھی۔ اور امام بخاریؒ نے ان سے استفادہ کے بعد نیشاپور میں ہی اپنی مجلس قائم کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ مگر استاذ محترم سے ایک علمی مسئلہ پر اختلاف ہوگیا۔ امام ذہلیؒ حنابلہ کے امام تھے اور خلق قرآن کے مسئلہ پر اس دور میں اس حد تک شدت آگئی تھی کہ ’’قرآن کریم مخلوق نہیں ہے‘‘ کا اطلاق ظاہری الفاظ اور قرآن کریم سے متعلقہ ہر چیز پر کیا جانے لگا تھا۔ اس کو متوازن کرنے کے لیے امام بخاریؒ نے فرمایا کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام اور غیر مخلوق ہے، لیکن جو الفاظ میری زبان پر جاری ہوتے ہیں یہ مخلوق ہیں۔ انہوں نے جب یہ کہا کہ ’’لفظی بالقرآن مخلوق‘‘ تو ان کے استاذ محترم امام ذہلیؒ نے ان پر ’’ضال و مضل‘‘ ہونے کا فتویٰ صادر کر دیا اور حدیث کے طلبہ کو منع کر دیا کہ وہ امام بخاریؒ کی مجلس کا بائیکاٹ کریں۔ حتیٰ کہ یہاں تک کہہ دیا کہ جو بخاریؒ کی مجلس میں جائے گا وہ میری مجلس میں نہ آئے۔ اس پر علمی حلقوں میں رد عمل کا اظہار ہوا۔ امام ابوزرعہؒ اور ابوحاتمؒ نے امام بخاریؒ کی روایات کا بائیکاٹ کر دیا۔ امام مسلمؒ نے جو امام ذہلیؒ اور امام بخاریؒ دونوں کے شاگرد تھے، اپنی کتاب میں دونوں سے کسی کی روایت نہیں لی۔ امام بخاریؒ کو استاذ محترم کے فتویٰ کے بعد نیشاپور چھوڑنا پڑا اور اس فتویٰ نے علمی حلقوں میں خاصی گہماگہمی پیدا کر دی۔ مگر امام بخاریؒ کی یہ عظمت ہے کہ انہوں نے امام ذہلیؒ کے فتویٰ کو قبول نہیں کیا اور اس کا مقابلہ بھی نہیں کیا، جبکہ اختلاف کے باوجود ان کے احترام میں بھی کوئی فرق ظاہر نہیں ہونے دیا۔ حتیٰ کہ امام ذہلیؒ کی طرف سے اپنے گمراہ ہونے کے فتویٰ کے باوجود انہوں نے بخاری شریف میں اپنے اسی استاذ محترم سے تیس کے لگ بھگ روایات لی ہیں جو آج بھی بخاری شریف کا حصہ ہیں۔ ہمارے استاذ محترم الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃ رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیل حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کی عظیم تصنیف ’’اعلاء السنن‘‘ کے مقدمہ کے حاشیہ میں تحریر کی ہے جو ہر صاحب علم کو پڑھنی چاہیے۔
امام بخاریؒ کی عظیم تصنیف ’’الجامع الصحیح‘‘ پڑھتے اور پڑھاتے ہوئے اساتذہ اور طلبہ کو امام بخاریؒ کے ذوق و اسلوب اور بخاری شریف کی ان خصوصیات و امتیازات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے تاکہ اس سے صحیح استفادہ کیا جا سکے۔