۲۹ مئی
پشاور سے آنے والی بارہ ڈاؤن چناب ایکسپریس پر آج ربوہ ریلوے اسٹیشن پر قادیانی فرقہ کے تقریباً پانچ ہزار افراد نے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اس بوگی پر کیا گیا جس میں نشتر میڈیکل کالج ملتان کے ۱۶۰ طالب علم سوار تھے۔ حملہ آور خنجروں، ہاکیوں، تلواروں اور لاٹھیوں سے مسلح تھے۔ اس حملہ میں ۳۰ طالب علم شدید زخمی ہو گئے۔
۳۰ مئی
ربوہ کے المناک حادثہ کے بعد ملک بھر میں غیظ و غضب کی آگ بھڑک اٹھی۔ ملک کے بڑے بڑے شہروں میں غضبناک احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
حکومتِ پنجاب نے اس حادثہ کی تحقیقات کے لیے ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس کے ایم اے صمدانی کو تحقیقاتی افسر مقرر کر دیا۔ ملزموں کی گرفتاری کے لیے پولیس نے ربوہ میں کئی بار چھاپے مارے۔ سٹیشن ماسٹر ربوہ سمیت ۷۲ افراد گرفتار کر لیے گئے۔
پنجاب اسمبلی میں ربوہ کے حادثہ پر بحث کے دوران حزبِ اختلاف کے قائد علامہ رحمت اللہ ارشد اور دوسرے ارکان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے، اور انہیں تمام کلیدی آسامیوں سے الگ کر کے اور ربوہ کے واقعہ کی جلد از جلد تحقیقات کرا کے ذمہ دار افراد کو سخت ترین سزا دے۔
سرگودھا، لائلپور، چک جھمرہ، جڑانوالہ، رحیم یار خان، جھنگ، منڈی بہاؤ الدین، کمالیہ، ساہیوال، چنیوٹ اور بیشتر دوسرے شہروں میں احتجاجی جلوس نکالے گئے۔
۳۱ مئی
لائلپور میں سانحہ ربوہ کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران ایک قادیانی نے مسلمانوں کے جلوس پر فائرنگ کی جس سے ایک شخص ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔ اور سرکاری پریس نوٹ کے مطابق ۳۵۵ کو غیر قانونی سرگرمیوں کے الزام گرفتار کر لیا گیا۔
قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود نے ایک بیان میں حکومت کو خبردار کیا کہ اگر قادیانیوں کی اس حرکت کا فوری نوٹس نہ لیا گیا تو ربوہ کی بھڑکائی ہوئی یہ آگ پورے ملک کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ آپ نے کہا قادیانی ملک میں خانہ جنگی کے لیے فضا ہموار کر رہے ہیں۔
قومی اسمبلی میں چوہدری ظہور الٰہی نے تحریکِ التوا پیش کی۔
اس کے علاوہ ملتان، بہاولپور، شاہ کوٹ، گجرات، وزیر آباد، رحیم یار خاں، بھکر، چشتیاں، عارف والا، پسرور، خانیوال، ساہیوال، چنیوٹ، حافظ آباد، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، راولپنڈی، بہاولنگر اور دوسرے شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
جسٹس صمدانی پر مشتمل ایک رکنی ٹربیونل نے ربوہ کے واقعہ کی تحقیقات شروع کر دی۔
یکم جون
سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے ایک ماہ کے لیے فرقہ وارانہ مواد اور ربوہ کے واقعہ کے سلسلہ میں بیانات اور تبصروں کی اشاعت پر پابندی لگا دی۔ سرکاری پریس نوٹ کے مطابق گوجرانوالہ، رحیم یار خاں اور ہارون آباد میں ناخوشگوار واقعات ہوئے اور بڑے شہروں میں شر پسندوں کی گرفتاریاں عمل میں آ رہی ہیں۔
۳ جون
وزیر اعظم بھٹو نے قومی اسمبلی میں واقعہ ربوہ پر بحث کے دوران اعلان کیا کہ حکومت ختمِ نبوت پر مکمل ایمان رکھتی ہے اور ختمِ نبوت کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے آئینی طور پر طے کیا جا چکا ہے۔ آپ نے کہا، میں نے جو حلف اٹھایا تھا اس میں ختمِ نبوت پر ایمان کا اظہار شامل تھا۔
بوریوالہ کے اسسٹنٹ کمشنر اور ڈی ایس پی کو بدنظمی کے سبب سبکدوش کر دیا گیا۔
صوبائی حکومت نے مرزا ناصر احمد کو شاملِ تفتیش کرنے کا حکم دے دیا، اور سانحہ ربوہ کی تفتیش کرائمز برانچ کے سپرد کر دی گئی۔
لاہور کی دینی و سیاسی جماعتوں کے قائدین نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور مسجد وزیر خاں میں جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا۔
۴ جون
لاہور میں ڈی پی آر کے تحت مساجد میں بھی کسی قسم کا جلسہ منعقد کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ مسجد وزیر خاں میں جن رہنماؤں نے جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا ان کو پولیس نے جلسہ سے قبل گرفتار کر لیا۔ حضرت مولانا عبید اللہ انور کو گرفتار نہ کیا جا سکا۔ گرفتار شدگان میں مولانا عبد الستار نیازی، آغا شورش کاشمیری، چوہدری غلام جیلانی، ملک محمد قاسم، علامہ احسان الٰہی ظہیر، حافظ عبد القادر روپڑی اور سید مظفر علی شمسی شامل ہیں۔ ان راہنماؤں کو کچھ دیر ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرا کر رہا کر دیا گیا۔ مسجد وزیر خاں کے باہر عوام کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو لاٹھی چارج اور آنسو گیس استعمال کرنا پڑا۔
قومی اسمبلی میں واقعہ ربوہ کے متعلق ۔۔ التوا کی سات تحریکیں مسترد کر دی گئیں، اور اپوزیشن کے ارکان ختمِ نبوت زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے واک آؤٹ کر گئے۔
لاہور ہائی کورٹ ایسوسی ایشن نے واقعہ ربوہ کے تحقیقاتی کمیشن کی کاروائی میں حصہ لینے کے لیے وکلاء کی ایک رابطہ کمیٹی قائم کر دی۔ جس میں محمد اسماعیل قریشی، چوہدری نذیر احمد خاں، چوہدری غلام باری سلیمی، مسٹر آفتاب فرخ اور رانا عبد الرحیم شامل ہیں۔
۵ جون
پنجاب اسمبلی کے سپیکر نے علماء دین کی گرفتاریوں کے بارے میں التوا کی تحریکیں مسترد کر دیں۔
جسٹس صمدانی نے واقعہ ربوہ کی تحقیقات شروع کر دی اور چناب ایکسپریس کے لگیج گارڈ کا جزوی بیان قلمبند کیا گیا۔
ایک سرکاری اعلان کے مطابق بہاولپور اور حضرو میں پولیس نے جلوسوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی۔ بعض شہروں میں ہڑتال رہی اور سرگودھا میں آتش زنی کی وارداتیں ہوئیں۔ خوشاب میں جلوس پر پولیس کی فائرنگ سے ایک شخص زخمی ہو گیا۔
۶ جون
جمعیۃ علماء اسلام کے قائد مولانا مفتی محمود نے قومی اسمبلی کے کیفے ٹیریا میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ملکی حالات پر غور کے لیے ۹ جون کو لاہور میں علماء و مشائخ کی کانفرنس منعقد ہو گی اور اسی روز اپوزیشن جماعتوں کے سربراہوں کا اجلاس بھی ہو گا۔ آپ نے بتایا کہ گزشتہ رات حزبِ اختلاف کے پارلیمانی گروپ کے اجلاس میں تحریکِ استقلال کے ارکان بھی شریک ہوئے۔ اور کافی غور و خوض کے بعد پانچ مطالبات حکومت کو پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مطالبات مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
(۲) کلیدی عہدوں سے مرزائیوں کو الگ کیا جائے۔
(۳) ربوہ کو کھلا شہر قرار دیا جائے۔
(۴) مساجد میں ڈی پی آر کے تحت عائد کی جانے والی پابندیاں اور اخبارات پر سنسر کی پابندیاں ختم کی جائیں۔
(۵) گرفتار شدہ مسلمانوں کو رہا کیا جائے۔
نوابزادہ نصر اللہ خاں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ نے ربوہ کے واقعہ کی مذمت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔
خلیفہ ربوہ مرزا ناصر نے ہائی کورٹ میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کر دی، جسے سرکاری وکیل کی وضاحت کے بعد غیر مؤثر قرار دے دیا گیا۔
۷ جون
وزیر اعلیٰ پنجاب حنیف رامے نے صوبائی اسمبلی کی عمارت سے ۳۰۰ علماء کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ختمِ نبوت پر عوام سے مکمل اتفاق رکھتے ہوئے بھی لاقانونیت برداشت نہیں کرے گی۔ علماء نے رامے صاحب پر واضح کر دیا کہ مطالبات کی منظوری تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔
قومی اسمبلی کی عمارت کے باہر آج بے شمار مظاہرین جمع ہوئے لیکن پولیس نے انہیں عمارت کے قریب آنے سے روک دیا اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کے علاوہ آنسو گیس بھی استعمال کیا۔ حکومت کے اس رویہ پر احتجاج کرتے ہوئے اپوزیشن واک آؤٹ کر گئی۔
لاہور میں نماز جمعہ کے بعد ایک جلوس نکالا گیا۔ پولیس نے ۳۳ افراد کو گرفتار کر لیا۔ جامعہ اشرفیہ، جامعہ مدنیہ اور دیگر دینی مدارس کے طلبہ نے بھی گزشتہ روز جلوس نکالا۔ پولیس نے تقریباً ڈیڑھ سو طلبہ کو گرفتار کر لیا اور کچھ دیر کے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا۔
۸ جون
وزیر اعلیٰ پنجاب جناب محمد حنیف رامے نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ پنجاب میں امن و امان بحال ہو جانے کے بعد اخبارات پر سنسر کی تمام پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں، اور واقعہ ربوہ کے ضمن میں گرفتار ہونے والوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے غیر ملکی مبصرین کو دعوت دی ہے کہ وہ پنجاب کا دورہ کر کے اپنی آنکھوں سے حالات کا جائزہ لیں۔
مسٹر رامے نے کہا کہ مولانا عبید اللہ انور کے مسجد وزیر خاں تک چارپائی پر آنے کے بارے میں مولانا نے جو وضاحتی بیان جاری کیا ہے وہی درست ہے، کیونکہ مولانا سی آئی ڈی کے کسی آدمی سے زیادہ قابل اعتماد ہیں۔ میں نے ان سے معذرت کر لی ہے۔ انہوں نے کہا، ربوہ کو ریاست در ریاست نہیں بننے دیا جائے گا۔