مذہبی انتہا پسندی کے اسباب اور اس کا علاج

   
۱۰ جنوری ۲۰۰۷ء

میں اس وقت برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں ہوں۔ عید الاضحی کی تعطیلات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چند روز کے لیے برطانیہ آیا ہوں اور ۱۲ جنوری کے جمعۃ المبارک تک گوجرانوالہ واپس پہنچنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ نوٹنگھم میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان صفدر مرزا مسلم کمیونٹی کے مسائل کے لیے خاص متحرک رہتے ہیں اور مساجد و علماء کے ماحول سے بھی ان کا تعلق ہے۔ مجھ سے انہیں ہمیشہ یہ شکایت رہتی ہے کہ جب آتا ہوں، اچانک آتا ہوں اور صرف ایک دو روز کی گنجائش میرے پاس ہوتی ہے، اس لیے وہ یہاں کے پڑھے لکھے اور فہم و دانش کے حامل حضرات سے میری ملاقات کا اہتمام نہیں کر پاتے جس کی وہ شدید خواہش رکھتے ہیں۔ گزشتہ روز جب انہیں معلوم ہوا کہ میں حسب معمول اچانک جامعۃ الہدیٰ نوٹنگھم میں صرف دو روز کے لیے موجود ہوں تو وہ ملاقات کے لیے آئے اور آتے ہی پہلی بات یہ کہی کہ میں آپ سے ناراض ہوں، کیونکہ آپ نے برطانیہ آنے سے پہلے مجھے مطلع نہیں کیا۔ ان کی شکایت بجا تھی، اس لیے معذرت کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، مگر میں اپنی افتاد طبع کے ہاتھوں مجبور ہوں کہ ساٹھ برس کی عمر میں اپنی پرانی عادتوں کو تبدیل کرنا اب میرے بس میں نہیں ہے۔

یہی شکایت مجھ سے ابراہیم کمیونٹی کالج وائٹ چیپل لندن کے احباب کو رہتی ہے کہ انہیں میری آمد کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب میں کالج کے مین گیٹ پر بیل دے رہا ہوتا ہوں۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا، مگر اب یہ حضرات میری اس عادت سے کچھ مانوس ہوتے جا رہے ہیں، چنانچہ دونوں نے ہلکی پھلکی خفگی کا اظہار کرنے کے باوجود ہنگامی بنیادوں پر پروگراموں کا اہتمام کر ہی لیا۔

ابراہیم کمیونٹی کالج لندن نے میری پاکستان واپسی سے ایک روز قبل لندن کے علماء کرام اور طلبہ کے لیے ’’حقوق نسواں اور اسلامی تعلیمات‘‘ کے عنوان پر ایک فکری نشست کا منگل کی شب اہتمام کر رکھا ہے، جبکہ صفدر مرزا صاحب نے نوٹنگھم پولیس کے سٹی چیف مارکس بیل کے ساتھ میری تفصیلی ملاقات کا پروگرام بنا لیا۔ موصوف میری قیام گاہ جامعۃ الہدٰی نوٹنگھم میں تشریف لائے اور مختلف مسائل پر ہمارے درمیان کم و بیش اڑھائی گھنٹے تک گفتگو ہوئی جس میں صفدر مرزا اور جامعۃ الہدٰی نوٹنگھم کے پرنسپل مولانا رضاء الحق سیاکھوی بھی شریک تھے۔ ساری گفتگو کا احاطہ تو اس کالم میں ممکن نہیں ہے، البتہ دو تین زیادہ اہم امور کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔

برطانیہ کی انتظامیہ کا مسلمانوں کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ یہاں کے مسلم نوجوانوں کے جذبات اور مبینہ طور پر ان کی انتہا پسندی کو کنٹرول میں رکھنا ہے، تاکہ انتظامی مسائل پیدا نہ ہوں اور اس سلسلے میں مشکلات کم ہوں۔ آج جبکہ میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں، میرے سامنے لندن میں شائع ہونے والا ایک اردو اخبار پڑا ہے جس کی اہم خبر یہ ہے کہ برطانوی حکومت لوکل اتھارٹیز کو پانچ ملین پونڈ اس مقصد کے لیے دے رہی ہے کہ وہ نوجوان مسلمانوں کو انتہا پسندی کی طرف جانے سے روکیں۔ یہ رقم انتہا پسند مسلمان گروپوں کی نشاندہی کر کے ان پر خرچ کی جائے گی، جبکہ لوکل گورنمنٹ کے عملے سے کہا جائے گا کہ وہ دہشت گردی کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے پولیس کو معلومات فراہم کریں۔ خبر کے مطابق کمیونٹیز معاملات کے وزیر روتھ کیلی نے کہا ہے کہ لوکل اتھارٹیز کو اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے سامنے آنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ لوکل کمیونٹیز کا ’’دلوں اور دماغوں کی جنگ جیتنے‘‘ میں اہم کردار ہے اور فنڈ سے ان کی مقامی سطح کی مہارت کو فروغ ملے گا۔

نوٹنگھم سٹی پولیس کے چیف کی گفتگو کا سب سے اہم نکتہ بھی یہی تھا کہ مسلمان نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف جانے سے کیسے روکا جا سکتا ہے اور ہم اس سلسلے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ جس چیز کو انتہا پسندی قرار دیا جا رہا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ اشتعال کا سبب بنتی ہے اور اس سے معاملات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے، ہمیں اس کے اسباب کا جائزہ لینا ہوگا۔ یہ مبینہ انتہا پسندی دو وجوہ سے پیدا ہوتی ہے:

  1. ایک یہ کہ دنیا میں کسی جگہ بھی مغربی ممالک کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا تاثر پیدا ہوتا ہے تو اس کا ردعمل ایک فطری عمل ہے جسے سبب دور کیے بغیر روکنا کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ اس وقت حالیہ تناظر میں عراق، فلسطین، کشمیر اور افغانستان وغیرہ کے حوالے سے مغربی حکومتوں کا جو طرز عمل ہے، اس کے بارے میں صرف مسلمانوں کا نہیں، بلکہ عالمی رائے عامہ اور غیرجانبدار مبصرین کا کہنا بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ اس لیے مسلمانوں بالخصوص گرم خون رکھنے والے نوجوانوں کے ذہنوں میں اس کا ردعمل پیدا ہونا فطری بات ہے۔
  2. دوسری وجہ آج کا میڈیا ہے کہ دنیا کے کسی حصے میں کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس کی خبر آناً فاناً پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے، اور صرف خبر ہی نہیں، بلکہ اس پر مثبت اور منفی دونوں قسم کے تبصرے اور تجزیے بھی خبر کے ساتھ ہی ذہنوں میں منتقل ہو جاتے ہیں جس سے ردعمل میں بھی ’’فوری پن‘‘ آ جاتا ہے اور اس کے اظہار میں رکاوٹ پیدا کرنا کسی کے بس میں نہیں رہتا۔

اس پس منظر میں آج کے ورلڈ میڈیا کی کھلی فضا میں دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف مسلمان نوجوانوں کے دل و دماغ میں ردعمل کے پیدا ہونے کو تو کسی صورت میں نہیں روکا جا سکتا اور نہ ہی اس کے اظہار پر کوئی قدغن لگائی جا سکتی ہے۔ البتہ اس ردعمل کے اظہار کو مناسب حدوں کا پابند ضروری کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً برطانیہ میں رہنے والے مسلمان نوجوانوں کو ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ عراق، فلسطین، کشمیر، افغانستان یا کسی اور جگہ کے مسلمانوں کی مظلومیت پر ردعمل کا شکار نہ ہوں یا اپنے ردعمل کا اظہار نہ کریں، کیونکہ ان سے یہ کہنا صریحاً زیادتی اور ناانصافی کی بات ہوگی، البتہ ہم ان سے یہ ضرور کہہ سکتے ہیں اور ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ وہ اپنے جذبات اور ردعمل کے اظہار میں اپنے ملک کے احوال و ظروف، دستور و قوانین اور اپنے دیگر ہم وطنوں کے جذبات و احساسات کی ضرور پاسداری کریں اور اپنی حکومت اور مسلمان بھائیوں کے لیے مشکلات پیدا نہ کریں۔ نوٹنگھم کے پولیس چیف سے میں نے کہا کہ یہودی بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ اگر وہ فلسطین میں یہودیوں کے ساتھ ہونے والے کسی معاملے کو ناانصافی اور زیادتی تصور کرتے ہیں تو اس پر امریکہ اور برطانیہ سمیت مختلف ملکوں میں اپنے جذبات اور ردعمل کا اظہار کرتے ہیں، البتہ ان ممالک کے قانون اور حالات کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔ ہم اپنے مسلمان نوجوانوں سے یہی بات کہتے ہیں اور اسی کو درست سمجھتے ہیں۔

پولیس چیف نے اس بات کو تسلیم کیا کہ مسلمان نوجوانوں میں جذباتی ردعمل کی سب سے بڑی وجہ مغربی ممالک کی ’’فارن پالیسی‘‘ کو قرار دیا جاتا ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ اس کا ایک بڑا سبب میڈیا بھی ہے، اس لیے کہ میڈیا کو کمیونٹی یا حکومت کی مشکلات سے غرض نہیں ہوتی۔ اس کی ترجیحات میں سب سے پہلا نمبر خبریت اور تجسس کو حاصل ہے، لیکن یہ دونوں باتیں ہمارے اختیار میں نہیں ہیں۔ ہمارا کام تو امن و امان قائم رکھنا اور سوسائٹی میں کسی قسم کی کشیدگی کو جنم لینے سے روکنا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اگر آپ زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے مسلم کمیونٹی کے رہنماؤں اور مذہبی اداروں سے اس سلسلے میں تعاون چاہیں گے تو آپ کو مطلوبہ تعاون ضرور ملے گا اور ہم بھی آپ سے بھرپور تعاون کریں گے۔

مارکس بیل کا دوسرا اہم سوال منشیات کے بارے میں تھا کہ معاشرے میں ہیروئن اور دیگر منشیات کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا صورت اختیار کی جائے؟ میں نے گزارش کی کہ ہمارے ہاں منشیات کا دائرہ زیادہ وسیع ہے کہ ہم شراب کو بھی اسی ممنوعہ نشے کا ذریعہ شمار کرتے ہیں جس کو روکنے کے لیے آپ لوگ ہیروئن وغیرہ کی روک تھام کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے مذہب میں ہر نشہ آور چیز، خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہو، حرام ہے۔ اس لیے ہمارے نزدیک یہ مسئلہ زیادہ اہم ہے اور ہم اس کے لیے مذہبی تعلیمات کو بنیاد بناتے ہیں۔ اس کے ساتھ عقیدے کی قوت اور خوف خدا بھی ضروری ہے، اس کے بغیر کسی کو قانون کا پوری طرح پابند نہیں بنایا جا سکتا۔

پولیس چیف نے بتایا کہ انہوں نے اس بات کا تجربہ کیا ہے، مذہبی رہنماؤں اور چرچوں کے تعاون سے نوجوانوں میں قانون شکنی اور نشہ آور اشیا کے استعمال کے خلاف مہم چلائی ہے جس کے بہت مفید نتائج سامنے آئے ہیں۔ میں نے مارکس بیل کو بتایا کہ چند سال قبل آپ ہی کے شہر نوٹنگھم میں مولانا رضاء الحق سیاکھوی، مولانا محمد عیسٰی منصوری اور ایک آئرش نومسلم بزرگ حاجی عبد الرحمن کے ہمراہ میں نے اس شہر کے ایک بڑے پادری صاحب سے ملاقات کی تھی اور ان سے اس مسئلے پر بات کی تھی کہ سوسائٹی میں منشیات کے استعمال، بدکاری، ہم جنس پرستی اور بے حیائی کے خلاف ہم مشترکہ طور پر ان کے ساتھ مل کر محنت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ کیونکہ ہمارے نزدیک ان مسائل کا حل آسمانی کتابوں اور مذہبی اخلاقیات کی طرف واپسی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے میری اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ سوسائٹی میں بے حیائی، بدکاری، ہم جنس پرستی اور منشیات وغیرہ کی روک تھام کے لیے آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی ضروری ہے اور ہم اس سلسلے میں مسیحیت کے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔

نوٹنگھم کے پولیس چیف نے اس سے اتفاق کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مسیحی مذہبی راہنماؤں اور مسلمان مذہبی رہنماؤں کے درمیان اس مقصد کے لیے رابطے کا اہتمام کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اسے مفید تصور کرتے ہیں۔ میں نے گزارش کی کہ برطانیہ میں آئندہ حاضری کے دوران، میں بھی ان کوششوں میں شریک ہوں گا اور اس میں دلی خوشی محسوس کروں گا، ان شاء اللہ تعالٰی۔

مولانا رضاء الحق سیاکھوی نے بھی اس ملاقات میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ آج کی گلوبل دنیا میں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم نوٹنگھم کے مسائل کو صرف یہاں کے حالات کے دائرے میں رہتے ہوئے حل کر سکیں اور عالمی حالات کو نظر انداز کر دیں، کیونکہ عالمی حالات کا اثر براہ راست مقامی حالات پر پڑتا ہے اور لوکل مسائل کو عالمی تناظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے مذہبی رہنماؤں، کمیونٹی لیڈرز اور انتظامیہ کے ساتھ ساتھ عوامی نمائندوں اور سیاسی قیادت کو بھی شریک کرنا ضروری ہے تاکہ سب مل جل کر جذبات اور ردعمل کو قابو میں رکھنے اور انہیں درست رخ پر رکھنے کے لیے کردار ادا کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اظہار رائے پر پابندی لگانے اور جذبات کو دبانے کی پالیسی درست نہیں ہوگی، جیسا کہ سننے میں آ رہا ہے کہ برطانوی حکومت اس قسم کی پابندیوں کے بارے میں سوچ رہی ہے، کیونکہ کسی مسئلے پر فطری طور پر پیدا ہونے والے جذبات اور ردعمل کو اگر بزور روکا جائے گا تو وہ غلط راستہ اختیار کریں گے اور اس سے مسائل پیدا ہوں گے، اس لیے افہام و تفہیم کے ساتھ ہی ان مسائل کے حل کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter