کشمیر اور فلسطین ۔ عالمی طاقتوں کی ترجیحات

   
۴ جون ۲۰۰۲ء

تمام تر بین الاقوامی کوششوں کے باوجود پاک بھارت سرحد پر کشیدگی میں کمی نہیں آرہی اور بین الاقوامی سرحد کے دونوں طرف فوجوں کے اجتماع اور جنگی تیاریوں کے ساتھ ساتھ کشمیر میں کنٹرول لائن پر جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کے لہجے میں تلخی بڑھتی جا رہی ہے اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ کہیں کسی بھی طرف سے تھوڑی سی بے احتیاطی کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔ افغانستان کی عبوری حکومت کے سربراہ حامد کرزئی نے گزشتہ روز اسلام آباد کے دورہ کے موقع پر صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم بھارت واجپائی سے کہا ہے کہ وہ دونوں افغانستان آئیں اور جنگ میں افغانستان کی تباہی کا منظر دیکھ کر پھر فیصلہ کریں کہ انہوں نے جنگ کرنی ہے یا مذاکرات کے ذریعے اپنے تنازعات کا حل تلاش کرنا ہے۔

عام طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی سرحد پر بھارتی افواج کا اجتماع اور اس اجتماع کو برقرار رکھنے پر بھارتی حکمرانوں کے اصرار کے ساتھ ساتھ جناب واجپائی اور ان کے رفقاء کا تلخ اور جارحانہ لہجہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے ہے جس میں امریکہ اور دیگر مغربی قوتیں بھی بھارت کی ہمنوا ہیں۔ یہ دباؤ اس مقصد کے لیے ہے کہ حکومت پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے خلاف کشمیری حریت پسندوں کی عسکری کارروائیوں کو مکمل طور پر بند کرانے کے لیے مجبور کیا جائے جبکہ حکومت پاکستان نے اس کا وعدہ بھی کر لیا ہے۔ مگر اس وعدہ کو کافی نہیں سمجھا جا رہا اور حکومت پاکستان پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ کشمیری حریت پسندوں کی جہادی سرگرمیوں کو کچلنے کے لیے بھارتی ایجنڈے کے مطابق کام کرے اور کشمیری مجاہدین کی امداد کے لیے جانے والے پاکستانی مجاہدین کا راستہ روکنے کے علاوہ خود کشمیری حریت پسندوں کو عسکری کارروائیوں سے روکنے اور ان کی عسکری صلاحیت کو ختم کرنے میں بھی بھارت کا ساتھ دے۔

یہ وہی صورتحال ہے جو فلسطین میں اس سے قبل ہم دیکھ چکے ہیں کہ جناب یاسر عرفات کو عسکری زندگی سے نکال کر مذاکرات کی میز پر لانے کے بعد اس بات پر مسلسل مجبور کیا جا رہا ہے کہ جو فلسطینی لوگ مذاکرات کے عمل کو قبول نہ کرتے ہوئے عسکری کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں انہیں عسکری کارروائیوں سے باز رکھنے یا ان کے باز نہ آنے کی صورت میں انہیں کچلنے اور ان کی عسکری صلاحیت کو مفلوج کرنے کے لیے بھی یاسر عرفات کردار ادا کریں۔ بلکہ اس مقصد کے لیے اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں اور فلسطینی حریت پسندوں کو غیر مؤثر بنانے کے لیے اسرائیل کی طرف سے جو تجاویز دی جائیں یاسر عرفات ان پر کسی حیل و حجت کے بغیر عملدرآمد کا اہتمام کریں۔

دباؤ ڈالنے والوں کو اس سے غرض نہیں کہ مذاکرات کے عمل کو مسترد کر کے عسکری کارروائیاں جاری رکھنے والے فلسطینی مجاہدین جناب یاسر عرفات کے زیر اثر بھی ہیں یا نہیں اور یاسر عرفات ان مجاہدین کو عسکری کارروائیوں سے روکنے پر اختیار بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ انہیں صرف اس بات سے دلچسپی ہےکہ یہ عسکری کارروائیاں بہرحال رکنی چاہئیں تاکہ یاسر عرفات کو فلسطین کی تقسیم کے اس فارمولے پر دستخط کے لیے مجبور کیا جا سکے جو مغربی قوتوں نے اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے از خود طے کر رکھا ہے۔ اور ان مغربی قوتوں کا اصرار ہے کہ اگر یاسر عرفات فلسطینی مجاہدین کی عسکری کارروائیوں کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو وہ ان مجاہدین کو کچلنے میں اسرائیل کے ساتھی بنیں۔

کم و بیش اسی طرح کی صورتحال کا اہتمام کشمیر کے حوالہ سے بھی کر لیا گیا ہے کہ بین الاقوامی فورم پر کشمیر کی بات کرنے والی پاکستانی حکومت کو مذاکرات کی راہ پر لا کر عسکری کارروائیاں بند کرنے کے لیے ریڈ سگنل دیے جا رہے ہیں اور حکومت پاکستان سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی آرمی سے نبرد آزما کشمیری مجاہدین اور ان کے معاونین کی عسکری کارروائیوں کو بند کرانے کی ذمہ داری قبول کرے۔

عام تاثر یہی ہے کہ بھارتی فوجوں کا اجتماع اور بھارتی حکمرانوں کے لہجے کی تلخی حکومت پاکستان کو اسی ایجنڈے پر لانے کی غرض سے دباؤ ڈالنے کے لیے ہے۔ لیکن زمینی حقائق کا منظر یہ ہے کہ حکومت پاکستان ان پاکستانیوں کو تو کشمیری مجاہدین کی مدد کے لیے جانے سے روک سکتی ہے جو کشمیری حریت پسندوں کی جدوجہد کو جہاد سمجھتے ہوئے دینی جذبہ کے تحت ان کی مدد کے لیے جاتے ہیں، کیونکہ شرعی مسئلہ یہی ہے کہ اگر کسی مسلم خطہ پر غیر مسلموں کا تسلط ہو جائے اور اس خطہ کے مسلمان اپنی آزادی اور دینی تشخص کے تحفظ کے لیے اکیلے جنگ لڑنے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو پڑوس کے علاقوں کے مسلمانوں پر شرعاً فرض ہو جاتا ہےکہ وہ ان کی مدد کو پہنچیں اور ان کے شانہ بشانہ ظالم و غاصب قوت کے خلاف جنگ لڑ کر ان کے معاون بنیں۔ حتیٰ کہ فقہاء اسلام کی تصریحات کے مطابق یہ فریضہ درجہ بدرجہ پھیلتے ہوئے پورے عالم اسلام تک وسعت اختیار کر جاتا ہے۔ اس لیے یہ تو ہو سکتا ہے کہ حکومت پاکستان پر پورا دباؤ ڈال کر اورہر قسم کی سختی روا رکھتے ہوئے پاکستانی نوجوانوں کو کشمیری مجاہدین کی مدد کے لیے جانے سے روک دے لیکن ان ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو حکومت پاکستان کیسے روک سکتی ہے جو اپنے وطن کی آزادی اور اپنے دینی تشخص کے تحفظ کے جذبہ سے سرشار ہو کر گزشتہ نصف صدی سے جانوں کی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔

اور پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کنٹرول لائن بین الاقوامی سرحد نہیں بلکہ ایک متنازع ریاست کی اندرونی کنٹرول لائن ہے جسے تنازعہ کے تصفیہ سے قبل عملی طور پر بین الاقوامی سرحد کا درجہ دینا اور اس کے حوالہ سے بین الاقوامی قوانین اور تقاضوں کی پابندی پر اصرار ناقابل عمل ہونے کے علاوہ سراسر ناجائز اور ناروا بھی ہے۔ مگر امریکہ اور دیگر بین الاقوامی قوتیں جس سنجیدگی کے ساتھ اس سلسلہ میں سرگرم عمل ہیں اس سے لگتا یہی ہے کہ قانون، اصول، اخلاق، اور انصاف کے تقاضوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے افغانستان کی طرح کشمیر کے بارے میں بھی پاکستان کو دوراہے پر لا کر ’’گن پوائنٹ‘‘ پر اس سے حتمی فیصلہ لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں ایک بار پھر ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر لاکھوں کشمیریوں کے خون کو بین الاقوامی خواہشات کی بھینٹ نہ چڑھا دیا جائے۔

ایک دور میں جب یاسر عرفات فلسطین کی مکمل آزادی کی جدوجہد کی قیادت کر رہے تھے اور فلسطین کی تقسیم کے فارمولے کو قبول نہ کرتے ہوئے فلسطینی قوم اور فلسطین کی وحدت کی جنگ لڑ رہے تھے، میں اکثر یہ کہا کرتا تھا کہ کشمیر کو بھی ایک عدد یاسر عرفات کی ضرورت ہے جو اقتدار کی سیاست سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف کشمیر کی آزادی کے لیے یاسر عرفات کی طرح بین الاقوامی سطح پر متحرک ہو جائے۔ اگر باغ آزاد کشمیر کے شہریوں کو یاد ہو تو دارالعلوم تعلیم القرآن باغ کے ایک سالانہ جلسہ میں اس پر میں نے مفصل تقریر کی تھی کہ کشمیر کو ایک عدد یاسر عرفات کی ضرورت ہے اور میرے نزدیک اس کے لیے سردار عبد القیوم خان سب سے موزوں شخصیت ہیں بشرطیکہ وہ خود کو آزاد کشمیر کے اقتدار کی سیاست بالاتر کر لیں۔ اس وقت میرے جذبات یہی تھے لیکن نیرنگئی زمانہ یا نیرنگئی سیاست کا کرشمہ دیکھیے کہ آج جب سردار عبد القیوم پورے شعور اور ہوش حواس کے ساتھ یاسر عرفات بنتے جا رہے ہیں تو مجھے ان پر ترس آرہا ہے اور دل کی گہرائیوں سے دعا کر رہا ہوں کہ ’’یا اللہ اس مردِ دانا کو یاسر عرفات بننے سے بچا لے، آمین یا رب العالمین‘‘۔

بہرحال بین الاقوامی سرحد پر بھارتی افواج کے اجتماع، کنٹرول لائن پر جھڑپوں میں اضافہ، اور پاکستان سے ’’دہشت گردی‘‘ کو کنٹرول کرنے کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا اصرار اس امر کی غمازی کر رہا ہے کہ عالمی قوتیں اس خطہ میں بھی حالات کو کسی نہ کسی حتمی نتیجے تک جلد از جلد پہنچانے کے لیے سرگرم عمل ہو چکی ہیں۔ ان حالات میں عالمی قوتوں کے مفادات تو واضح ہیں اور ان کی ترجیحات بھی مبہم نہیں ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے مفادات، تاریخ، ترجیحات، اور ملی تقاضوں کو ایک بار پھر بین الاقوامی خواہشات اور عالمی قوتوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھانے کا فیصلہ تو نہیں کر لیا؟

   
2016ء سے
Flag Counter