امامِ انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے نواسے مولانا ظہیر الحق دین پوریؒ کا گزشتہ جون کے دوران دین پور شریف میں انتقال ہوا ہے۔ وہ حضرت سندھیؒ کی ایک چلتی پھرتی نشانی تھے، جو آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالی انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازے، آمین يا رب العالمین۔
ان کے بارے میں ایک مضمون میں بزرگ صحافی اور دانش ور حضرت مولانا مجاہد الحسینی آف فیصل آباد نے امام الہند مولانا ابو الکلام آزادؒ کا ایک مکتوب شائع کیا ہے، جو انہوں نے آزادی ہند کے موقع پر مولانا ظہیر الحق دین پوریؒ کی طرف سے مبارک باد کے خط کے جواب میں ارسال فرمایا تھا۔ آج کی محفل میں وہ خط اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں، خط کے بعد اس حوالے سے کچھ مزید باتیں بھی عرض کروں گا۔
”عزیز القدر مولوی ظہیر الحق دین پوری
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
آپ نے آزادی پر مبارکباد کا پیغام بھیجا، شکریہ۔ خط پڑھتے ہی مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی یاد آئی اور اس طرح آئی کہ صدائے در و زبان تک پہنچی اور زبان نے نوک قلم کے حوالے کیا۔ قصہ بہت طویل ہے، اسے مختصر کیا جائے تب بھی وقت سازگاری نہیں کرتا۔
۱۹۱۴ء کی عالمگیر جنگ کے ایام تھے، ولی اللٰہی قافلہ کے امیر حضرت مولانا محمود الحسن قدس سرہ نے انتہائی نامساعد حالات میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو کابل بھیج دیا۔ ان کو وہاں مختلف ممالک کے سیاسی رہنماؤں سے مل کر کام کرنے کا موقع ملا، ان میں جرمن، فرانسیسی اور جاپانی سیاستدان چند ایک ایسے بھی تھے جو آج ملکوں میں برسر اقتدار ہیں اور عنانِ حکومت انہی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ لوگ اس وقت کے سیاسی رفیق یا مشیر ہیں کہ جب مولانا نے کابل میں حکومت موقتہ قائم کی، خود اس کے وزیرِ ہند منتخب ہوئے اور ریشمی خطوط کی تحریک چلا کر برٹش حکومت کو للکارا اور میدان جنگ میں شکست دے کر اپنا موقف منوایا۔ برطانوی نمائندہ نے جنگ کے خاتمے پر مصالحتی دستاویزات پر دستخط کرتے ہوئے حکومت کابل کی خود مختاری کا اعلان کیا، ہندوستان کے مطالبہ آزادی کو تسلیم کیا اور بتدریج ہند کو چھوڑ دینے کی وضاحت کر دی۔ اس کا انتقام برٹش حکومت نے امیر امان اللہ خان سے تو لے لیا، مگر مولانا سندھیؒ کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ یہ مولانا کا ذاتی سیاسی اثر تھا، جس سے مرعوب تھی۔
پچیس سال کی جلاوطنی کے بعد ۱۹۳۹ء میں جب یہاں پہنچے تو دوسری جنگ کا آغاز تھا۔ انہوں نے اپنی تحریک کانگریس میں پیش کرنے کے لیے میدان ہموار کیا۔ گاندھی جی تک نے اس تحریک کی مخالفت کی، اس کے باوجود ”ہندوستان چھوڑ دو“ کا نعرہ ہاؤس نے مار دیا اور اس کی گونج بکنگھم پیلس سے ٹکرائی۔ یہ سب کچھ مولانا نے باہر بیٹھ کر کسی بھی بحث میں حصہ نہیں لیا، نہ ہی کبھی کسی اجلاس میں شرکت کی۔ یہ فن صرف وہی جانتے تھے۔
ایک ملاقات میں چائے پر میں نے ان کے چہرے سے کچھ ایسا تاثر قبول کیا، جس کی بناء پر ان سے پوچھ بیٹھا تو فرمایا کہ میں چاہتا ہوں سوبھاش اسی وقت باہر چلے جائیں۔ کچھ دیر خاموش ہو کر رخصت ہوئے۔ اپنی قیام گاہ سے دہلی کو ملانے والی آٹھ میل لمبی سڑک کے ایک ویران گوشے میں سوبھاش سے ان کی ملاقات ہو گئی۔
دوسری ملاقات ان کی بالی گنج کلکتہ میں ہوئی، اسی ملاقات میں اسے جاپان جانے کے لیے رخصت کیا۔ حکومت جاپان کے نام وزیر ہند حکومت موقتہ کی حیثیت سے اسے ایک شناختی کارڈ دیا اور وہاں کے فوجی بورڈ کے سربراہ کے نام اپنا ذاتی پیغام دیا۔ سوبھاش کے وہاں پہنچنے پر حکومت جاپان نے فوج میں ان پر اپنے اعتماد کا اعلان کیا۔ ادھر اعلان ہونا تھا کہ احمد نگر کے قلعہ سے کانگریس ہائی کمان کی رہائی بغیر کسی شرط منظور کر لی گئی، ورنہ حکومت کا یہ فیصلہ تھا کہ قلعہ کو بمعہ سیاسی قیدیوں کے بم سے اڑا دیا جائے۔ ساتھ ہی ہند کی آزادی کا اعلان کر دیا اور ہم آزاد ہو گئے۔ کون جانتا ہے کہ کس کی قربانیاں ہیں؟ جاپانی حکومت نے حضرت مولانا پر اعتماد کیا۔ اس جرم کی سزا اسے ہیرو شیما میں بھگتنی پڑی۔ حضرت مولانا کو ایسا زہر دیا کہ جس نے ان کی ہڈیوں سے کھال کھینچ لی، پھر ان کی دونوں آنکھیں نکال لیں اور ۲۲ اگست ۱۹۴۴ء کو اس مقام پر پہنچے جو پہلے ہی دن سے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اپنے حضور میں محفوظ کر رکھا تھا۔
اس وقت آسمان اشک بار تھا، زمین رو رہی تھی، ہندوستان سوگوار تھا، جرمن اور جاپان کا علمی اور سیاسی طبقہ بھی ماتم کناں تھا کہ حکومت برطانیہ نے اس خبر کو افواہ سمجھا۔ تاج کے حکم سے وائسرائے ہند کے ذریعے ایک تحقیقاتی محکمہ قائم ہوا اور یکم ستمبر ۱۹۴۵ء کو پورے ایک سال نو دن بعد سرکاری طور پر اس امر کی تصدیق کی کہ مولانا واقعی فوت ہو گئے ہیں۔
ایک انقلابی کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈال دیں اور پوری دنیا کو دوسرے پلڑے میں ڈال دیں تو وہ پوری دنیا پر بوجھل ہوتا ہے۔ اب صرف ایک یاد ہی ہے اور اس یاد کے ساتھ غم۔ غم صرف اس کا نہیں کہ یہ لوگ جدا ہو گئے، غم اس کا ہے کہ وہ دنیا ہی مٹ گئی جس دنیا کی یہ مخلوق تھے۔ ہم اس کاروان رفتہ کے پسماندگان رہ گئے ہیں، جن میں نہ تو ہمیں کوئی پہچانتا ہے اور نہ ہم کسی کے شناسا ہیں۔
آزادی صد مبارک، ان شہداء اور اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ان کی تربت پر ہوں۔ میں خیریت سے ہوں (الحمد للہ) خیریت سے مطلع کرتے رہا کریں۔ والدہ صاحبہ کی خدمت میں سلام عرض کر دیں۔
والسلام ابو الکلام، دہلی
۱۵ ستمبر ۱۹۴۷ء“
برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کی تحریک آزادی میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، امامِ انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور ان کے قافلہ کے فیصلہ کن کردار کے بارے میں مولانا ابو الکلام آزادؒ کا یہ مکتوب بجائے خود ایک مستند تاریخی حوالہ کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ایک اور تاریخی شہادت پر بھی نظر ڈال لیں، جو روزنامہ ”جنگ“ لندن نے ۱۶ اگست ۱۹۹۴ء کو جرمنی کے ایک دانش ور کے دورۂ پاکستان کی رپورٹ کے طور پر شائع کی تھی۔ ”جنگ“ کی شائع کردہ رپورٹ کا متن یہ ہے:
”ریشمی رومال تحریک کا اصل نام” برلن پلان “تھا، جو ۱۵ اگست کو کابل میں جرمنی اور ترکی کی مدد سے تیار کیا گیا۔ ہندوستان کی آزادی کے اس منصوبے کی تشکیل میں راجہ مہندر پرتاب، مولانا برکت اللہ اور مولانا عبید اللہ سندھی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
یہ انکشاف جرمنی کی وزارتِ خارجہ کے ایک سابق ڈپٹی سیکرٹری اور برلن یونیورسٹی میں سیاسیات کے استاد پروفیسر اولف شمل نے ایک خصوصی ملاقات میں کیا۔ پروفیسر اولف شمل آج کل پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں اور ”برلن پلان“ پر کتاب لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ برلن پلان دراصل شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے ذہن کی اختراع تھی۔ اس منصوبے کے تحت جرمنی، ترکی اور افغانستان کے علاوہ روس، چین اور جاپان کی مدد سے ہندوستان کو آزاد کروانا تھا، تاہم مولانا محمود الحسن صرف جرمنی، ترکی اور افغانستان کے حکمرانوں کو راضی کر سکے۔ اس پلان کے لیے مالی امداد کراچی کے تاجر حاجی عبد اللہ ہارون نے فراہم کی تھی، جبکہ مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان اور نواب وقار الملک نے بھی برلن پلان کے تحت بہت سا کام کیا۔
پروفیسر اولف شمل کے مطابق ۱۵ اگست ۱۹۱۵ء کو کابل میں ہونے والے اجلاس میں جرمن وزارتِ خارجہ کے ایک افسر ڈاکٹر منیر بے، جرمن آرمی کے کیپٹن سینڈئر میئر، لیفٹیننٹ وان بیئنگ اور کیپٹن ویگز کے علاوہ ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کا ایک نمائندہ شامل تھا۔ اس اجلاس میں طے پایا کہ جرمنی قبائلی علاقوں میں فوجی تربیت کے کیمپ لگائے گا۔ نیز افغانستان کے راستے سے ساٹھ ہزار جرمن فوجی اور مالی امداد بھی فراہم کی جائے گی۔ نتیجے میں سلطنتِ عثمانیہ نہ صرف جرمنی کی حمایت کرے گی، سلطان ترکی برطانیہ کے خلاف اعلان جہاد کر دے گا۔ ترکی اور افغانستان کو یہ ضمانت دی گئی کہ ان کے خلاف جارحیت کی صورت میں جرمنی اور ہندوستان ان کا تحفظ کریں گے۔ اس اجلاس کے بعد ہندوستان کی جلاوطن حکومت تشکیل دی گئی، جس کا صدر راجہ مہندر پرتاب، وزیر اعظم مولانا برکت اللہ بھوپالی، وزیر خارجہ مولانا عبید اللہ سندھی اور فیلڈ مارشل مولانا محمود الحسن کو بنایا گیا۔ ۲۶ مئی ۱۹۱۶ء کو عبید اللہ سندھی نے عبد الباری اور شجاع اللہ کو حتمی معاملات طے کرنے کے لیے جرمنی بھیجا لیکن روس میں ان دونوں کو گرفتار کر کے برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا۔ اس دوران کابل کے نواحی علاقے باغ بابر میں جرمنی آرمی کے لیفٹیننٹ والکاٹ نے تربیتی کیمپ قائم کر لیا۔ ایک روز وہ مجاہد بھرتی کرنے قبائلی علاقے میں آیا اور گرفتار ہو گیا۔ انگریزوں نے اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ مولانا عبید اللہ سندھی نے ریشمی رومالوں پر خفیہ پیغامات لکھ کر اپنے ساتھیوں کو ہندوستان بھیجے لیکن یہ رومال پکڑے گئے اور منصوبہ بے نقاب ہو گیا۔ سینکڑوں افراد گرفتار ہوئے۔ کابل کا حکمران امیر حبیب اللہ خوفزدہ ہو گیا اور یوں منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔
۱۹۱۷ء میں انقلابِ روس کے بعد لینن نے مولانا عبید اللہ سندھی کو ماسکو بلا لیا اور ہندوستان کی آزادی کے لیے تعاون کی پیشکش کی۔ جرمنی نے بھی ایک دفعہ پھر رضامندی ظاہر کر دی، لیکن کابل نے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ پروفیسر اولف شمل کے مطابق حاکم جدہ نے مولانا محمود الحسن کو گرفتار کروا دیا تھا ورنہ یہ منصوبہ دوبارہ بھی شروع ہو سکتا تھا۔
۱۹۳۳ء میں ہٹلر نے برسر اقتدار آ کر اپنی وزارتِ خارجہ کو حکم دیا کہ ہندوستانی علماء کے ساتھ دوبارہ رابطہ کیا جائے، لیکن علامہ عنایت اللہ خان مشرقی کے علاوہ کسی سے رابطہ نہ ہوا۔ پروفیسر اولف شمل کا کہنا ہے کہ اگر کابل مدد کرتا تو نہ سلطنتِ عثمانیہ ختم ہوتی اور نہ ہی ہندوستانیوں کو مزید تیس سال غلام رہنا پڑتا، کیونکہ جرمنی، ترکی اور روس نے ہندوستان کو گھیرا ڈال لینا تھا۔“
مولانا ابو الکلام آزادؒ کا مکتوب گرامی اور پروفیسر اولف شمل کے یہ ریمارکس آزادی ہند کی تحریک کے اس ”عظیم باب“ کا مکمل خاکہ نہیں، بلکہ صرف اشارات ہیں، جن سے ان عظیم لوگوں کی جاں گسل جدوجہد کا کچھ نہ کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مستقبل میں جب اس تحریک کے اصل خدوخال اور تفصیلات سامنے آئیں گی تو جنوبی ایشیا کے باشندوں کو معلوم ہو گا کہ ان کی آزادی کے لیے خون دینے والے مجنوں کون تھے اور شہداءِ آزادی کی لاشوں پر دستر خوان بچھا کر ثمرات و نتائج کی چوری کھانے والے کون؟