روزنامہ جنگ لاہور ۲۱ اگست ۲۰۰۰ء کے ادارتی شذرہ کے مطابق بہاولپور میں ایک ایسی سماجی تنظیم کا انکشاف ہوا ہے جو گمشدہ بچوں کی بازیابی کے حوالے سے خدمات سرانجام دے رہی ہے اور باقاعدہ رجسٹرڈ ہے۔ مگر وہ اب تک ایک لاکھ بچوں کو اغوا کر چکی ہے جن میں چالیس ہزار کے لگ بھگ بچیاں بھی شامل ہیں۔ ادارتی شذرہ میں بتائی گئی تفصیلات کے مطابق ان بچیوں کو اغوا کرنے کے بعد ان سے بیگار لی جاتی ہے اور پھر انہیں گمشدہ ظاہر کر کے معاوضہ لے کر والدین کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔
سماجی خدمت کے عنوان سے ملک میں کام کرنے والی بعض رفاہی تنظیموں کے بارے میں پہلے بھی اس قسم کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں کہ سماجی خدمات کے نام پر قائم ہونے والی یہ تنظیمیں، جو این جی اوز کے زمرہ میں آتی ہیں، اس بہانے رقوم بٹورنے اور سماجی بہبود کی بجائے خرابیاں پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن ایک لاکھ کے قریب بچوں کے اغوا کی اس ہولناک خبر نے تو ہر باشعور شہری کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ اور ظاہر بات ہے کہ اس قسم کے گھناؤنے کردار کی ذمہ داری ان تنظیموں کے ساتھ ساتھ ان سرکاری محکموں اور اداروں پر بھی عائد ہوتی ہے جو قانونی طور پر اس قسم کی تنظیموں کی نگرانی کے ذمہ دار ہیں۔
ہم حکومتِ پاکستان سے گزارش کریں گے کہ ملک بھر میں این جی اوز اور سماجی تنظیموں کے بارے میں بڑھتی ہوئی شکایات کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ سطح پر سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔ جو پورے ملک کی این جی اوز، سماجی تنظیموں، اور اس کے ساتھ مسیحی مشنریوں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر اسلام اور ملک کے مفاد میں ان کی حدودِ کار کا ازسرنو تعین کرے، اور ضابطۂ اخلاق مرتب کر کے ان تنظیموں کو اس کا پابند بنائے۔ تاکہ سماجی خدمات اور رفاہی کاموں کے نام پر کام کرنے والی این جی اوز اور اداروں کے بارے میں اسلام اور ملک کے خلاف کام کرنے، رقوم بٹورنے، عام لوگوں کو گمراہ اور خراب کرنے، اور فکری و اخلاقی انارکی پھیلانے جیسی سنگین شکایات کا ازالہ ہو سکے۔