اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کے دوران صدر جنرل پرویز مشرف نے جہاں اپنی پالیسیوں کی وضاحت کی ہے، وہاں عالمِ اسلام اور مغرب کے درمیان کشمکش پر بھی تبصرہ کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اس کشمکش کو روکنے کے لیے دونوں فریقوں کو سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ مغرب یہ سمجھتا ہے کہ اسلام اور تشدد آپس میں لازم و ملزوم ہیں، اور مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب ان کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے اور ان پر تہذیبی بالادستی قائم کرنے کی فکر میں ہے۔
ممکن ہے الفاظ یہ نہ ہوں مگر ان کی باتوں کا خلاصہ اور مفہوم یہی ہے، اور یہ کوئی نئی بات نہیں، بلکہ دنیائے اسلام میں عام طور پر یہی بات کہی جا رہی ہے۔ اور جن حضرات کی خواہش ہے کہ مغرب اور مسلمانوں کے درمیان دن بدن بڑھتی ہوئی کشیدگی میں کمی کی کوئی صورت پیدا ہو، اور مغربی ممالک اور مسلم ممالک کے درمیان باہمی مفادات اور ظاہری دوستی کی جو فضا اس وقت موجود ہے وہ مزید خرابی سے دوچار نہ ہو، ان کی کوشش یہی ہے کہ اول تو اس کشمکش کے وجود سے ہی انکار کر دیا جائے، اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اسے غلط فہمیوں پر مبنی قرار دے کر یہ تاثر دیا جائے کہ دونوں طرف غلط فہمیاں موجود ہیں، جنہیں ان کے خیال میں دور کیا جا سکتا ہے، اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوئی صورت نکل آئے تو مغرب اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لایا جا سکتا ہے۔
ہمارے بعض دانشور تو سرے سے اس بات سے انکار کر رہے ہیں کہ عالمی افق پر تبدیلی، کشمکش اور ثقافتی تصادم کی کوئی فضا موجود ہے، اور انہیں اس بات کو تسلیم کرنے میں تامل ہے کہ اسلام اور مغرب کے درمیان تہذیب و ثقافت کی بالادستی کی جنگ آگے بڑھ رہی ہے، لیکن ان کی یہ سوچ معروضی حقائق سے آنکھ بند کرنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ نہ صرف آج کی صورتحال بلکہ گزشتہ دو صدیوں سے مسلمانوں اور مغرب کے تعلقات کا تسلسل ان کی اس سوچ کی نفی کرتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ عقیدہ و ثقافت کی جنگ نہ ہوتی تو اب سے اڑھائی سو برس قبل جب سراج الدولہ کو شکست دے کر ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا، اور اس کے بعد بتدریج آگے بڑھتے ہوئے دہلی میں شاہ عالم ثانی کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لیے تھے، تو تعلیم اور قانون کے شعبوں میں مداخلت اور پرانے تعلیمی و قانونی نظام کو ختم کر کے سات سمندر پار کے قانونی اور تعلیمی نظام کو اس خطہ میں مسلط کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ پھر مغربی تہذیب و ثقافت کی بالاتری اور بہتری کا ڈھنڈورا پیٹ کر یہاں کے باشندوں کو اسے اختیار کرنے کی ترغیب دینے اور مغربی لباس، تہذیب اور تمدن کو اختیار کرنے والوں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کا کوئی جواز نہ تھا۔ لیکن انگریز حکمرانوں نے یہاں آتے ہی یہ ڈھنڈورا پیٹا کہ ہم اس خطہ کے لوگوں کو تہذیب سکھانے آئے ہیں اور تمدن کی دوڑ میں زمانے کے برابر لانے کے لیے ہم نے مہربانی کر کے اس خطہ کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی زحمت فرمائی ہے۔ انہوں نے نہ صرف یہاں کے سیاسی نظام کو بدلا، بلکہ تعلیمی نظام کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور عدالتی سسٹم کی بساط لپیٹ کر اسے بھی سمندر کی نذر کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ تہذیب اور ثقافت کی جنگ نہیں تھی تو جنوبی ایشیا کے لوگوں کو اس قدر وسیع پیمانے پر انگریزی زبان سکھانے کی تگ و دو کی کیا ضرورت تھی؟ حکمران طبقہ سے معاملات اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے انگریزی زبان کی اہمیت سے انکار نہیں، لیکن اس سے کہیں آگے بڑھ کر اور مقامی و علاقائی زبانوں کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے ہر سطح پر انگریزی کو ہی قوم کا اوڑھنا بچھونا بنانے کی پالیسی کے پیچھے تہذیبی برتری اور ثقافتی بالادستی کے سوا اور کون سا جذبہ کارفرما تھا؟ پھر یہاں کے صدیوں سے چلے آنے والے عدالتی نظام نے کیا قصور کیا تھا اور سات سمندر پار کے اجنبی نظام قانون میں جنوبی ایشیا کے حوالے سے افادیت اور کشش کا کون سا پہلو موجود تھا کہ جنوبی ایشیا کے عوام کو اس اجنبی عدالتی نظام کے شکنجے میں جکڑنا ضروری سمجھا گیا؟
ترکی کے حوالے سے بھی اس مسئلہ پر ایک نظر ڈال لیں، مغربی ممالک کو ترکی کے سیاسی نظام یا خلافت عثمانیہ سے پرخاش تھی اور وہ اسے ختم کر کے اپنی صدیوں پر محیط ہزیمت کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ لیکن بات صرف یہاں تک محدود نہیں رہی، بلکہ جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور مغربی ملکوں نے اپنے پرانے حریف کو شکست دے کر راستہ سے ہٹایا تو ترکی میں تبدیلیاں صرف خلافت کے خاتمہ کے حوالے سے نہیں ہوئیں، بلکہ زبان، لباس، قانون، تعلیم اور معاشرتی اقدار میں سے ہر چیز اس انقلاب کی زد میں آئی، جو طاقت کے زور سے ترکی پر مسلط کر دیا گیا تھا اور ترکی کے مسلمانوں کو جبر کے ذریعے اسلامی اقدار و روایات اور تہذیب و ثقافت سے محروم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ جوں جوں فوجی جبر کی گرفت ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے ترک عوام اپنے ماضی کی طرف پلٹ رہے ہیں اور اسلامی اقدار و روایات کی بحالی کا عمل ترک معاشرہ میں پیشرفت کر رہا ہے، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ترکی کو اسلام سے ہٹا کر یورپی فلسفہ و تہذیب کے سانچے میں ڈھالنے کا عمل جبر اور فریب پر مبنی تھا اور اسے ترک عوام کی دلی حمایت حاصل نہیں تھی۔
یہ مغرب کی تہذیبی رعونت ہے کہ اس نے دنیا بھر کو یہ سبق پڑھانے کی کوشش کی ہے جو اب بھی جاری ہے بلکہ آگے بڑھ رہا ہے کہ مغرب کی تہذیب ہی دنیا کی بالادست تہذیب ہے، اسی کو برتری حاصل ہے، اسی کو زندہ رہنے کا حق ہے، اور انسانی سوسائٹی پر عملداری کا استحقاق بھی صرف اسی کے لیے مخصوص ہے۔ اسی لیے دنیا کی ساری تہذیبوں اور فلسفوں کو اس کے سامنے سرنگوں ہو جانا چاہیے، اور اسے اختیار کرتے ہوئے پوری نسل انسانی کو مغربی دانشوروں اور حکمرانوں کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے انہیں مغربی تہذیب جیسی عظیم نعمت سے سرفراز کیا۔
آج بھی مغرب کا تقاضا دنیا بھر سے اور خاص طور پر مسلمانوں سے یہ ہے کہ وہ مغربی ثقافت اور فکر و فلسفہ کے آگے ہتھیار ڈال دیں، اپنے عقیدہ و فکر، فلسفہ حیات اور خاندانی سسٹم سے دستبرداری اختیار کر لیں، اور خدا اور رسولؐ کے احکام کو سوسائٹی میں عملاً نافذ کرنے کی بجائے تاریخ کے عجائب گھر میں سجاتے ہوئے مغربی عقیدہ و ثقافت کا پرچم سنبھال لیں۔ مغرب کے پاس اپنی تہذیب کی برتری کی دلیل اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ چونکہ طاقت اس کے پاس ہے، دنیا کے وسائل اور دولت پر اسے کنٹرول حاصل ہے، اور عالمی حالات اور سسٹم پر اس کی اجارہ داری ہے، اس لیے تہذیب و ثقافت بھی اسی کی درست ہے اور معاشرتی اقدار و روایات پر بھی اسی کی بالاتری کا ڈنکا بجنا چاہیے۔
مسلمانوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ طاقت، اقتدار، وسائل، ٹیکنالوجی اور عالمی نظام میں عمل دخل سے محروم ہونے کے باوجود اپنے عقیدہ اور ثقافت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اور تہذیبی محاذ پر شکست قبول کرنے کی بجائے اپنے عقیدہ اور فلسفہ و ثقافت کے ساتھ بے لچک کمٹمنٹ قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اس بنیاد پر وہ فنڈامینٹلسٹ کہلاتے ہیں اور انتہا پسندی کا تمغہ ان کے سینے پر سجا دیا گیا ہے۔ جہاں تک طاقت کے استعمال کا تعلق ہے وہ دونوں طرف سے ہو رہا ہے اور دونوں فریق اپنی اپنی بساط کے مطابق ہتھیاروں کو استعمال میں لاتے ہوئے ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک فریق کے پاس طاقت اور وسائل کی فراوانی ہے اور وہ اسے دنیا بھر میں اپنی تہذیب و ثقافت کے تسلط کے لیے بے دریغ استعمال کر رہا ہے، جبکہ دوسرے فریق کے پاس طاقت اور وسائل بالکل محدود بلکہ نہ ہونے کے مترادف ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ ہار ماننے کو تیار نہیں، بلکہ اپنے عقیدہ و ثقافت کے تحفظ اور بچاؤ کے لیے اپنی جان تک کو داؤ پر لگائے ہوئے ہے۔
اس کشمکش کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ یہ وقت بتائے گا اور ابھی وہ وقت نہیں آیا، لیکن جو لوگ اس تہذیبی کشمکش کے وجود سے انکاری ہیں یا اسے غلط فہمی پر مبنی قرار دے رہے ہیں، ان کی ذہنی حالت قابلِ رحم ہے۔ انہیں یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ حضور والا! یہ کشمکش آج کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور اس میں کسی طرف سے بھی کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ دونوں فریق پورے شعور و ادراک کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور مکمل شرح صدر کے ساتھ اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ آپ ان میں سے جس کا ساتھ دینا چاہیں آپ کا حق ہے، مگر حقائق سے آنکھیں بند کر کے اپنے اوپر خودفریبی کی چادر تو نہ تانیں۔