(تخصص فی الفقہ کی کلاس سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آپ حضرات کے استاذِ محترم مولانا مفتی حماد اللہ وحید سے آپ کے ساتھ آج کی گفتگو کے لیے ”اسلامی معیشت“ کے عنوان کے بارے میں مشاورت ہوئی ہے۔ لیکن وقت چونکہ مختصر ہے اور صرف ایک ہی نشست کی گنجائش ہے اس لیے میں نے صرف تعارفی گفتگو کا ارادہ کیا ہے اور آپ حضرات سے اس حوالہ سے کچھ عرض کرنا چاہوں گا کہ قرآن کریم اور حدیث و سنت میں زندگی کے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ معاشیات پر بھی بات کی گئی ہے۔ قرآن کریم نے سینکڑوں آیات مقدسہ میں معاشیات کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا ہے، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینکڑوں احادیث میں معیشت کے مختلف شعبوں کے بارے میں ہدایات دی ہیں، اور حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کے بیسیوں فیصلوں میں معیشت کے مسائل و احکام کو واضح کیا گیا ہے۔ اور جس طرح نماز، روزہ، حج اور دیگر احکام و مسائل کے ہر پہلو کی وضاحت قرآن و سنت میں موجود ہے اسی طرح انفرادی و اجتماعی معیشت کے ہر پہلو کے بارے میں بھی واضح ہدایات قرآن و سنت اور خلفاء راشدینؓ کے فیصلوں میں موجود ہیں اور امت کے ہر دور میں علماء فقہاء نے ان کی روشنی میں امت مسلمہ کی فقہی و قانونی راہنمائی کی ہے۔
اس موضوع کا ذوق اور اس سے دلچسپی رکھنے والے علماء کرام اور دانشوروں کے لیے عرض کر رہا ہوں کہ میرے طالب علمانہ مطالعہ میں قدیم اور جدید دور میں اس موضوع پر باقاعدہ لکھی گئی کتابوں میں چار پانچ کتابیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں اور علماء و طلبہ کے لیے ان کا مطالعہ ضروری ہے۔ (۱) امام ابو یوسفؒ کی ’’کتاب الخراج‘‘۔ (۲) امام محمدؒ کی ’’کتاب الکسب‘‘ (۳) امام ابو عبید قاسم بن سلّامؒ کی ’’کتاب الاموال‘‘ (۴) اردو میں مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کی ’’اسلامی معاشیات‘‘۔ اور (۵) حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ کی ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘۔ معیشت و اقتصاد کا ذوق رکھنے والوں کے لیے یہ کتابیں راہنما کتب کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان کے علاوہ اور کتابیں بھی موجود ہیں لیکن میری طالب علمانہ ترجیحات میں ان پانچ کتابوں کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
اس کے بعد میں قرآن کریم، حدیث و سنت اور خلفاء راشدینؓ کے فیصلوں میں سے نمونہ کے طور پر چند باتوں کا تذکرہ کروں گا، صرف یہ بتانے کے لیے کہ اسلامی تعلیمات و احکام کے ان بنیادی مآخذ میں انفرادی، خاندانی اور اجتماعی معیشت کے شعبوں کے بارے میں مکمل راہنمائی موجود ہے اور معیشت بھی اسلامی احکام میں ایک بنیادی شعبہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
- مثلاً قرآن کریم کی ایک آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو جنت سے زمین پر اتارا تو فرمایا کہ ’’ولکم فی الارض مستقر ومتاع الیٰ حین‘‘ (سورہ الاعراف ۲۴) تمہارے لیے زمین میں ایک مقررہ وقت تک رہنے کی جگہ کے ساتھ ساتھ زندگی کے اسباب بھی مہیا کیے جائیں گے۔ یہ ’’متاع الیٰ حین‘‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نسل انسانی کو معیشت کے اسباب مہیا کرنے کا وعدہ ہے جو اللہ رب العزت کے نظام کے مطابق پورا ہوتا آرہا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا۔ ایک آیت کریمہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جب زمین کو اللہ تعالیٰ نے بنایا تو ’’وقدر فیھا اقواتھا فی اربعۃ ایام سوآءً للسآئلین‘‘ (سورہ فصلت ۱۰) زمین میں اللہ تعالیٰ نے اس پر رہنے والوں کی خوراک مقرر اور اس کے خزانے پوشیدہ کر دیے ہیں جو ضرورت مندوں کے لیے برابر ہیں۔ یہاں ’’سائلین‘‘ کا معنی جستجو کرنے والے بھی کیا گیا ہے اور ضرورتمند بھی کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر جتنی مخلوقات کو بسانے کا پروگرام بنایا تھا ان سب کو سامنے رکھ کر ان کی ضرورت کے اسباب بھی زمین میں پیدا کر دیے تھے جو ہر دور میں اس دور کی ضرورت کے مطابق نکالے جا رہے ہیں۔
یہاں ایک مسئلہ کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ آج کی دنیا میں ایک اہم مسئلہ یہ زیر بحث ہے کہ انسانی آبادی بڑھتی جا رہی ہے مگر زندگی اور معیشت کے اسباب و وسائل کم ہوتے جا رہے ہیں جس سے آبادی اور وسائل کا توازن بگڑتا جا رہا ہے۔ آبادی اور وسائل کے اس توازن کو اپنی حدود میں رکھنے کے لیے آبادی پر کنٹرول اور اس میں اضافے کو روکنا ضروری سمجھا جا رہا ہے اور برتھ کنٹرول کی عالمی مہم کے پیچھے یہی تصور کارفرما ہے۔ مگر قرآن کریم کی تعلیمات اور فلسفہ اس کی تائید نہیں کرتے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وہ کس قدر آبادی پیدا کر رہے ہیں اور اس کے لیے کتنے وسائل کی ضرورت ہے، وہ یہ نہیں کرتے کہ مخلوق تو پیدا کر دیں لیکن اس کے لیے وسائل پیدا نہ کریں۔ انسانی حکومتوں میں تو یہ کام ہو سکتا ہے کہ آبادی اور وسائل کے تناسب کے اندازے غلط ہو جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے اس وقت جس بات کو آبادی اور وسائل میں توازن و تناسب بگڑنے سے تعبیر کیا جا رہا ہے، اس کی وجہ آبادی اور وسائل کی تخلیق و پیدائش میں عدم توازن نہیں بلکہ وسائل کی تقسیم کے نظام میں گڑبڑ ہے، جو انسانوں کی اپنی پیدا کردہ ہے اور اس کو صحیح کرنا ضروری ہے۔ ورنہ جوں جوں آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے وسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں، اگر انسانی حکومتوں کا بنایا ہوا معاشی نظام اور وسائل کی تقسیم کا سسٹم صحیح ہو جائے تو آبادی اور وسائل میں عدم توازن کی کوئی شکایت باقی نہیں رہے گی، اس لیے اسلامی نظامِ معیشت کی بنیاد وسائل و اسباب کی متوازن تقسیم پر ہے۔
- قرآن کریم نے دولت اور مال کو خرچ کرنے کے جو اصول بیان فرمائے ہیں ان میں چند باتیں واضح طور پر کہہ دی گئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ تم جو کچھ خرچ کرتے ہوئے ہمارے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہو ’’ومما رزقناھم ینفقون‘‘۔ یا تمہارے پاس جو مال ہے وہ تمہاری ملکیت تو ہے مگر مکمل طور پر تمہارے اختیار میں نہیں ہے، اس کے خرچ کرنے میں تمہیں حلال و حرام کی حدود کو ملحوظ رکھنا ہو گا، اور حلال و حرام کا تعین کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔
آج کی دنیا کے معاشی فلسفہ کے ساتھ ہمارا ایک بنیادی تنازعہ یہ بھی ہے کہ ’’فری اکانومی‘‘ کے عنوان سے یہ بنیادی اصول طے کر لیا گیا ہے کہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز ہونے کا فیصلہ کرنا سوسائٹی کا کام ہے اور مارکیٹ کی رسد اور طلب ہی جائز و ناجائز ہونے کا معیار ہے۔ مگر اسلام اس بات کو تسلیم نہیں کرتا اور اسلام کا اصول یہ ہے کہ حلال و حرام کے دائرے متعین کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، اور وہ وحی الٰہی کے ذریعے طے شدہ ہیں۔ کیونکہ اس نے انسانوں اور اشیا دونوں کو پیدا کیا ہے اور اسی کو معلوم ہے کہ کون سی چیز انسان کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ ہے، اس لیے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے فیصلے بھی اسی کے نافذ ہوں گے۔ انسانوں کو اپنے لیے حلال و حرام کے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہے اور انہیں معیشت کے ہر باب میں وحی الٰہی کے مطابق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ حلال و حرام کے دائرے میں پابند رہنا ہو گا۔
- اس طرح یہ فرمایا گیا ہے کہ جو مال و دولت تمہارے پاس ہے اس میں دوسروں کے بھی حقوق ہیں، یہ سارے کا سارا مال صرف تمہارا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’وفی اموالھم حق للسآئل والمحروم‘‘ (سورہ الذاریات ۱۹) ان کے مالوں میں سائل اور محروم دونوں کا حق ہے۔ اس کی تشریح مفسرین کرامؒ یہ کرتے ہیں کہ سائل اسے کہتے ہیں جو ضرورتمند ہے اور اپنی ضرورت کا اظہار بھی کرتا ہے، جبکہ محروم وہ ضرورتمند ہے جو اپنی ضرورت کو ظاہر بھی نہیں کرتا اور سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ دولتمند کے مال میں ان دونوں کا حق ہے۔ جو ضرورتمند اپنی ضرورت کا اظہار کرتا ہے اس کا حق تو سمجھ میں آتا ہے لیکن جو سفید پوش ضرورتمند اپنی ضرورت کا اظہار تک نہیں کرتا اس کا حق بھی دولت والے نے ادا کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دولت مند شخص کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ سوسائٹی میں سفید پوش ضرورتمندوں کو تلاش کر کے ان تک ان کا حق پہنچائے۔
پھر قرآن کریم نے اسے ’’حقوق‘‘ میں شمار کیا ہے کہ کوئی دولتمند شخص سوسائٹی کے مستحقین پر اپنا مال خرچ کر کے ان پر احسان نہیں کر رہا ہے بلکہ ان کو ان کا اپنا حق دے رہا ہے، حتٰی کہ قرآن کریم نے کسی ضرورتمند اور مستحق پر مال خرچ کرنے کے بعد اس پر احسان جتلانے کو نیکی برباد ہو جانے کا باعث قرار دیا ہے۔
- اسی طرح قرآن کریم نے سوسائٹی میں دولت کی گردش کا اصول اور فلسفہ بیان کیا ہے کہ ’’کئی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم‘‘ (سورہ الحشر ۷) دولت کی گردش کی صرف مالداروں میں محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ سوسائٹی کے نیچے کے طبقوں اور غریب افراد تک بھی دولت کی گردش کو آنا چاہیے۔ زکوٰۃ کا اصول یہی ہے اور وراثت کی تقسیم کی حکمت بھی یہی ہے۔ زکوٰۃ دولت کی گردش کو اوپر سے نیچے لاتی ہے اور وراثت کے نظام قائم ہو تو بڑی سے بڑی دولت بھی تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر کر تیسری چوتھی پشت میں عام آدمی کے دائرہ اختیار میں آجاتی ہے۔
اسلام کا اصول دولت کو جمع کرنا نہیں بلکہ اسے تقسیم کر کے اس کی گردش کو سوسائٹی کے تمام طبقات تک وسیع کرنا ہے، اور زکوٰۃ اور وراثت کا نظام سوسائٹی میں یہی کام کرتا ہے۔ حضرت امام غزالیؒ نے سوسائٹی میں دولت کی گردش کو انسانی جسم میں خون کی گردش کی مانند قرار دیا ہے، انسان کے جسم میں خون گردش کرتا ہے تو جسمانی صحت قائم رہتی ہے، اگر کسی عضو کو اس کی ضرورت کا خون نہ ملے تو فالج پیدا ہوتا ہے، اور اگر کسی عضو میں خون پہنچ کر رک جائے یا ضرورت سے زیادہ خون پہنچ جائے تو خون فاسد ہو جاتا ہے، پھوڑے پھنسی وغیرہ پیدا ہوتے ہیں، خون پیپ کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور خرابی پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح سوسائٹی کے کسی طبقے تک دولت کی گردش نہ پہنچے تو فقر و محتاجی پیدا ہوتی ہے، محرومی جنم لیتی ہے، زندگی میں تعطل آجاتا ہے، جبکہ کسی طبقہ میں دولت حد سے زیادہ آجائے یا دولت وہاں آ کر رک جائے اور اس میں گردش نہ رہے تو تعیش اور آرام طلبی پیدا ہوتی ہے جسے قرآن کریم نے ’’مترفین‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور اس سے سوسائٹی کا نظام بگڑ کر رہ جاتا ہے۔ سود کے نظام اور زکوٰۃ کے نظام میں یہی فرق ہے کہ زکوٰۃ دولت کو اوپر سے نیچے لاتی ہے، اور سود دولت کو نیچے سے اوپر لے جاتا ہے اور پھر دولت اوپر کے طبقات میں گردش کرنے لگتی ہے جسے ’’دولۃ بین الاغنیاء منکم‘‘ کے عنوان سے بیان فرمایا ہے، اور سود کی شدید درجہ کی حرمت کی ایک حکمت یہ بھی بیان کی جاتی ہے۔
- اسی طرح قرآن کریم نے معیشت کے ایک اور اہم مسئلہ کی بھی وضاحت فرمائی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے پوچھا ’’ماذا ینفقون؟‘‘ وہ اپنے مال میں سے کتنا حصہ خرچ کریں۔ اس سوال کے جواب میں قرآن کریم نے ایک آیت میں تو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ’’کیا خرچ کریں‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’کہاں خرچ کریں‘‘ کا سوال بھی ضروری ہے۔ اور اس سوال کے جواب میں خرچ کے مصارف کا ذکر کیا ہے کہ ’’ما انفقتم من خیر فللوالدین والاقربین والیتامٰی والمساکین وابن السبیل‘‘ (سورہ البقرہ ۲۱۵) جو بھی خرچ کرو اس کے اولین مستحق ماں باپ، قریبی رشتہ دار، یتامٰی، مساکین اور مسافر ہیں۔ اور دوسری آیت میں فرمایا کہ ’’العفو‘‘ ضرورت سے زائد مال خرچ کر دو۔ اس آیت میں اپنی روزمرہ ضروریات سے زائد مال و دولت کو جمع کرنے اور ذخیرہ کرنے کی بجائے اسے سوسائٹی کے ضرورتمند افراد پر خرچ کر دینے کی تلقین کی گئی ہے۔ اسے حضرت ابو ذرغفاریؓ فرضیت اور وجوب کے درجہ میں بیان کرتے ہیں اور ضرورت سے زائد مال ذخیرہ کرنے کو حرام کہتے ہیں، مگر حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور جمہور صحابہ کرامؓ اس حکم کو استحباب پر محمول کرتے ہیں کہ زکوٰۃ و عشر اور دیگر صدقات واجبہ کی ادائیگی کے بعد زائد از ضرورت مال کو جمع رکھنا جائز اور مباح تو ہے مگر بہتر یہی ہے کہ زائد از ضرورت مال کو خرچ کر دیا جائے۔
- اسی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ معاشی اصولوں میں سے ایک اہم اصول کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا، بخاری شریف کی روایت کے مطابق آنحضرتؐ نے ایک موقع پر فرمایا کہ جو شخص مال و دولت چھوڑ کر فوت ہوا اس کا مال اس کے وارثوں کو ملے گا، لیکن ’’من ترک کلّا او ضِیاعًا فالیَّ وعلیَّ‘‘ جو شخص قرض کا بوجھ اور بے سہارا خاندان اولاد چھوڑ کر مرا وہ میری طرف سے اور مجھ پر ہے، یعنی اس کی کفالت کی ذمہ داری مجھ پر ہے اور بیت المال اس کا ذمہ دار ہے۔ اسلامی ریاست میں بیت المال کے ادارے اور اس کی ذمہ داری کی بنیاد جناب رسول اکرمؐ کے اسی جملے ’’فالی وعلی‘‘ پر ہے اور اسی کی ایک صورت کو امیر المؤمنین حضرت عمرؓ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھوک سے مر جائے تو اس کی ذمہ داری عمرؓ پر ہو گی، یعنی حکومت وقت پر ہو گی۔
آج کل انشورنس اور بیمہ کے بارے میں بحث عام ہے، میں اس کی فقہی بحث میں نہیں پڑوں گا کہ یہ مفتیان کرامؒ کا حق ہے لیکن اس کی اصولی حیثیت کے بارے میں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ اسلامی نظام میں انشورنس اور بیمے کی کیا حیثیت ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک اسلامی ریاست اور اسلامی سوسائٹی میں پرائیویٹ انشورنس اور بیمے کے سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے، اس لیے کہ جب بیت المال معاشرے کے ہر ضرورتمند، معذور، بے سہارا اور مصیبت زدہ شخص کی ضروریات کا ذمہ دار اور کفیل ہے تو پھر کسی بے سہارا اور ضرورتمند کو الگ سے انشورنس فراہم کرنے کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی اور یہی اسلامی نظام معیشت کی سب سے نمایاں خوبی ہے۔
یہ چند باتیں میں نے آپ حضرات کو اور علماء و طلبہ کو توجہ اور شوق دلانے کے لیے عرض کی ہیں کہ معاشیات بھی قرآن و سنت کا اہم موضوع ہیں جن کا سینکڑوں آیات و احادیث میں تذکرہ موجود ہے، ہمیں ان کا بھی اہتمام سے مطالعہ کرنا چاہیے اور آج کے دور میں ان کی روشنی میں امت کی راہنمائی کرنی چاہیے۔