انسانی کلوننگ اسلامی نقطہ نظر سے

   
تاریخ : 
۱۷ تا ۲۰ فروری ۲۰۰۳ء

کلوننگ کا مسئلہ اس وقت علمی حلقوں میں زیر بحث ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر دنیا بھر میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ کلوننگ کے تکنیکی پہلوؤں کے بارے میں کچھ عرض کرنا تو ہمارے لیے ممکن نہیں ہوگا کہ یہ اہل فن کا کام ہے اور ہم اس فن سے نابلد ہیں، البتہ انسانی زندگی اور سوسائٹی پر اس عمل کے اثرات اور اس کے ممکنہ نتائج و ثمرات کے حوالے سے کچھ عرض کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔

اس سلسلہ میں پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ کلوننگ کا عمل کیا ہے یا کم از کم ہم اسے کیا سمجھتے ہیں؟ کیونکہ اس کے بعد ہی اس کے ثمرات اور اثرات کے بارے میں کوئی گزارش کی جا سکتی ہے۔ کلوننگ کے بارے میں مختلف مضامین کے مطالعہ کے بعد ہم اس کے بارے میں اب تک یہ سمجھ پائے ہیں کہ تخلیق کے فطری اور روایتی طریق کار سے ہٹ کر سائنس دانوں نے ایک نیا پراسس اور طریق کار ایجاد کر لیا ہے جس سے تخلیق کے عمل کو زیادہ تیزی کے ساتھ بروئے کار لانا ممکن ہو گیا ہے اور ایک تخلیق شدہ چیز سے مواد حاصل کر کے اس جیسی دیگر بے شمار چیزوں کا پیدا کرنا آسان ہو گیا ہے۔ مثلاً اب تک ایک نئے انسان کے دنیا میں آنے کا ظاہری پراسس یہ چلا آ رہا ہے کہ مرد اور عورت کا آپس میں جنسی ملاپ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ان کے تخلیقی جرثومے آپس میں جڑ کر ایک نئے انسانی وجود کا ڈھانچہ مہیا کرتے ہیں، جو بتدریج نشوونما پاتے ہوئے عورت کے رحم میں مکمل انسانی بچے کی شکل اختیار کر کے اپنے وقت پر تولیدی عمل کے ذریعے باہر آ جاتا ہے۔ لیکن اس نئے سسٹم میں مرد اور عورت کا ملاپ ضروری نہیں ہے بلکہ ان کے جسم کے وہ خلیے یا ان میں سے کسی ایک کے جسم کے وہ خلیے، جو ماں کے رحم میں انسانی وجود کی منزل تک پہنچتے ہیں، ایک مشینی طریق کار کے ذریعے یہ مراحل طے کریں گے، اور اس کے ٹیکنیکل تقاضے پورے کرتے ہوئے ان خلیوں کو انسانی وجود کی منزل تک پہنچایا جائے گا۔ اس صورت میں وہ نیا وجود میں آنے والا انسان اس انسان کی ہوبہو کاپی ہوگا جس کے جسم سے خلیے حاصل کر کے انہیں اس پراسس سے گزارا گیا ہے اور اس طریقہ سے ایک انسان سے دو چار نہیں، بلکہ لاکھوں کی تعداد میں اس کی فوٹو کاپیاں تیار کی جا سکیں گی جو ہر اعتبار سے اس جیسی ہوں گی۔ اس عمل کا تجربہ نباتات اور حیوانات میں کامیابی کے ساتھ کیا جا چکا ہے بلکہ بعض سائنس دانوں نے انسانوں میں بھی اس تجربہ کی کامیابی کا دعویٰ کیا ہے اور سابقہ تجربات کی روشنی میں ان کے اس دعویٰ کو قبول کرنے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔

اس سلسلہ میں پہلا سوال یہ ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا یہ تخلیق کا عمل ہے؟ کیونکہ اگر اسے تخلیق کا عمل قرار دے دیا جائے تو قرآن کریم کے اس دعوے کی نفی ہو جاتی ہے کہ ’’خالق‘‘ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس کے سوا سب لوگ جمع ہو کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے۔ لیکن کلوننگ کا یہ عمل بتاتا ہے کہ اسے مجازی طور پر ایک نئی تخلیق کہہ لیا جائے تو بھی حقیقتاً یہ تخلیق کا عمل نہیں ہے، اس لیے کہ وہ تخلیق جس کی نسبت ہم اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں، وہ کسی سابقہ نمونہ اور میٹریل کے بغیر ایک نئی چیز ایجاد کرنے یعنی عدم سے وجود میں لانے کا عمل ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ اس کے سوا یہ بات کسی اور کے بس میں نہیں ہے کہ وہ کسی میٹریل اور نمونہ کے بغیر کوئی نئی چیز بنا لے اور نہ ہی آج تک ایسا ہو سکا ہے۔ سائنس دانوں اور ہنرمندوں نے اب تک جتنی چیزیں ایجاد کی ہیں، وہ پہلے سے موجود میٹریل کو نئی ترکیب کے ساتھ جوڑ کر بنائی گئی ہیں۔ کوئی ایک بھی ایسی چیز نہیں ہے جس کا میٹریل کسی سائنس دان یا ہنر مند نے ایجاد کیا ہو۔ جبکہ کائنات میں موجود میٹریل کی مختلف شکلوں تک رسائی حاصل کرنا اور اسے مختلف صورتوں میں جوڑ کر نئی سے نئی ایجاد کی صورت میں لانا ان انسانی کمالات کا ایک حصہ ہے جو خود اللہ تعالیٰ نے انسان کو ودیعت کیے ہیں اور انسان کے اس خداداد کمال کا قرآن کریم میں جابجا اعتراف کیا گیا ہے۔

کلوننگ کا عمل کسی نئے پودے، جانور یا انسان کو جنم دینے کا نام نہیں بلکہ انہی اشیا کے اسی میٹریل کو ایک الگ ترتیب اور پراسس دینے کا نام ہے جو اس سے قبل ایک دوسری ترکیب اور پراسس کے ساتھ تخلیقی مراحل طے کرتا آ رہا ہے، اس لیے اسے مجازی طور پر تخلیق کہنے میں تو شاید کوئی حرج نہ ہو لیکن تخلیق کے حقیقی مفہوم و معنی کا اس پر سرے سے اطلاق ہی نہیں ہوتا، اس لیے اس سے تخلیق کے بارے میں قرآن کریم کے بیان کردہ عقیدے پر کوئی زد نہیں پڑتی۔ بلکہ ایک اور انداز سے دیکھا جائے تو سائنسی تخلیقات و تحقیقات جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے، اللہ تعالیٰ کی بے پایاں قدرت کے نت نئے مظاہر سامنے آ رہے ہیں اور انسانی کمالات کے ساتھ ساتھ اس کی حیرت اور بے بسی میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے کہ کوئی نئی چیز بنانا تو کجا، انسان اپنی تمام تر ذہنی اور سائنسی ترقی کے باوجود ابھی تک اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیا کے ایک محدود حصے تک ہی رسائی حاصل کر سکا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ چیزوں کی ترکیب و ترتیب میں جو تنوع اور نت نئے امکانات مستور ہیں، ان تک پہنچنا بھی اس کی ہمت و استطاعت کے لیے بدستور چیلنج بنا ہوا ہے۔ البتہ کلوننگ کے اس عمل نے اسلام کے اس عقیدے کی تائید کر دی ہے کہ انسان مرنے کے بعد فنا کے گھاٹ نہیں اتر جاتا بلکہ اس کے وجود میں، خواہ وہ کوئی شکل بھی اختیار کر لے، یہ صلاحیت موجود رہتی ہے کہ وہ دوبارہ اپنی پہلی صورت کی طرف لوٹ آئے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قیامت، اخروی زندگی اور انسان کے قبر سے دوبارہ اٹھنے کا عقیدہ بیان کیا تو مشرکین عرب نے یہی اشکال پیش کیا تھا کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے، ہڈیاں بوسیدہ ہو کر خاک ہو جائیں گی اور ہمارا کوئی نشان باقی نہیں رہے گا تو دوبارہ ہم کیسے قبروں سے کھڑے کیے جائیں گے؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا جواب دیا کہ جیسے ہم نے پہلے تمہیں پانی کے ایک قطرے سے پیدا کیا، دوبارہ تمہاری بوسیدہ ہڈیوں کو انسانی وجود کی شکل میں واپس لانے کی قدرت بھی رکھتے ہیں۔ جبکہ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب انسان مرنے کے بعد مٹی میں مل جاتا ہے یا اس کا وجود کسی بھی شکل میں ختم ہو جاتا ہے تو سارے جسم کے فنا ہو جانے کی صورت میں بھی اس کے جسم کا ایک جزو (عجب الذنب) ’’دمچی کا مہرہ‘‘ فنا سے محفوظ رہتا ہے جو اس کی دوبارہ تخلیق کا باعث بن جاتا ہے۔

گویا انسانی جسم کے اس آخری جز میں، جو فنا ہونے سے محفوظ رہتا ہے، یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ اسی انسان کے دوبارہ وجود میں آنے کا ذریعہ بن جائے جس کے جسم کا وہ حصہ ہے۔ اس لیے کلوننگ کا یہ عمل اخروی زندگی اور انسان کے دوبارہ جی اٹھنے کے بارے میں اسلام کے عقیدہ کی سائنسی تصدیق و توثیق کی حیثیت رکھتا ہے اور اس سے جناب نبی اکرمؐ کا ایک اور معجزہ بھی ہمارے مشاہدے میں آ رہا ہے کہ جس نتیجے پر سائنس چودہ سو سال کے بعد پہنچی ہے، جناب نبی اکرمؐ نے چودہ صدیاں پہلے اس کی پیش گوئی فرما دی تھی کہ انسانی جسم کا ایک ایسا جز ہے جو کبھی فنا سے دوچار نہیں ہوتا۔ ہمیں یقین ہے کہ جس طرح سائنس نے جناب رسول اکرمؐ کے ارشاد گرامی کے ایک حصے کی کلوننگ کے ذریعے تائید کر دی ہے، اس ارشاد گرامی کے دوسرے حصے کی تائید بھی سائنس جلد یا بدیر ضرور کر دے گی، کیونکہ یہ جناب رسول اللہؐ کا ارشاد ہے جس کا کوئی لفظ بلکہ حرف بھی کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔

کلوننگ کے حوالے سے چند اعتقادی پہلوؤں پر گفتگو کے بعد ہم ان سوالات کی طرف آتے ہیں کہ اس سے انسانی سوسائٹی اور انسان کی عملی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور کیا ان اثرات و نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے کلوننگ کے اس عمل کی شرعاً اجازت دی جا سکتی ہے؟

جہاں تک نباتات اور انسان کے علاوہ باقی حیوانات کا تعلق ہے، ان میں کلوننگ کے اس عمل کو ناجائز قرار دینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ اگرچہ ظاہری طور پر یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ یہ ہزاروں سال سے چلے آنے والے روایتی طریقہ اور پراسس کے خلاف ہے۔ ہم اسے روایتی طریقہ کہہ رہے ہیں، فطری نہیں، اس لیے کہ میٹریل کی ترکیب و ترتیب میں جو تبدیلی حیطۂ عمل اور دائرہ امکان میں آ جائے، وہ ہمارے خیال میں فطری ہی کے زمرے میں شامل ہو جائے گی۔ کیونکہ فطرت کسی جامد چیز کا نام نہیں بلکہ کائنات میں جو حرکت، ارتقا اور تنوع نظر آ رہا ہے، وہ دراصل فطرت کے تنوع، حرکت اور ارتقا ہی کا مظہر ہے۔ اس لیے کائنات کی موجود اور مستور اشیا میں سے کسی نئی چیز کی نشاندہی یا ان اشیا کی ترکیب و ترتیب اور پراسس کی کسی نئی شکل کا انکشاف فطرت کے خلاف نہیں بلکہ فطرت ہی کا حصہ متصور ہوگا، جو اس سے قبل ہماری نگاہوں سے مستور تھا اور اب ارتقا اور حرکت کے فطری عمل کے ذریعے اپنے اصل وقت پر ہمارے سامنے آ گیا ہے۔

اس سے قبل جب جانوروں میں مصنوعی نسل کشی اور مرغی کے انڈوں سے روایتی طریقے سے ہٹ کر مشینی عمل کے ذریعے چوزے نکالنے کا عمل کچھ عرصہ پہلے شروع ہوا تھا تو ایک نئی بات ہونے کی وجہ سے ذہنوں کو اس میں انجاناپن محسوس ہوا تھا اور اس قسم کے سوالات سامنے آئے تھے کہ یہ انڈے جائز ہیں یا نہیں؟ اور نر اور مادہ جانور میں باقاعدہ جفتی کے بغیر حمل کا بیج رکھنے کا عمل درست ہے یا نہیں؟ بلکہ خود ہمارے ذہن میں یہ سوال ابھی تک موجود ہے کہ کیا ایسا کرنا جانوروں کو ان کے فطری جذبات اور خواہشات کی تکمیل سے روکنے کا عمل نہیں ہے؟ اور کیا یہ ان کی حق تلفی تو نہیں؟ لیکن ان سب سوالات اور اشکالات کے باوجود اس عمل نے جواز ہی کا درجہ حاصل کیا کیونکہ انسانوں اور جنوں کے سوا کوئی مخلوق ہمارے عقیدہ کے مطابق ایسی نہیں ہے جو کسی شریعت کی پابند ہو اور جس پر شرعی قواعد و ضوابط کا اطلاق ضروری ہو۔ اس لیے ان کے بارے میں حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے وہ ضابطے تو موجود ہیں جو ہم انسانوں کے لیے شریعت اسلامیہ نے بیان کیے ہیں، لیکن خود ان جانوروں پر حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس لیے نباتات اور مشینی چوزوں کی طرح کلوننگ کے عمل میں بھی کوئی حرج نہیں ہے اور اگر اس سے انسانی سوسائٹی کو کوئی فائدہ ہو تو شریعت اس میں رکاوٹ نہیں بنتی بلکہ نسل انسانی کے فائدے کے لیے اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔

مگر انسانی زندگی میں کلوننگ کے عمل دخل کی صورت اس سے قطعی مختلف ہے، اس لیے کہ ہمارے عقیدہ کے مطابق انسان ایک مکلف مخلوق ہے جو آسمانی تعلیمات کی پابند ہے اور انسانی سوسائٹی کی ان معروف اقدار و روایات کا تحفظ اس کے لیے ایک ضروری اور ناگزیر عمل ہے، جن پر خود انسانی سوسائٹی کا مدار ہے اور جن معروف اقدار و روایات سے انحراف کر کے انسان ایک مدنی اور شہری زندگی سے محروم ہو کر جنگل کی غیر متمدن زندگی کا رخ کر سکتا ہے۔ جن اقوام و طبقات نے انسانی سوسائٹی اور انسان کی معاشرتی زندگی کو آسمانی تعلیمات کی بالادستی سے آزاد سمجھ رکھا ہے اور جن کے فیصلے صرف اور صرف سوسائٹی کی خواہشات اور اجتماعی عقل کے حوالے سے طے پاتے ہیں، وہ یقیناً کلوننگ کے نتائج و ثمرات پر ایک الگ زاویے سے غور کریں گے، لیکن ہم بحیثیت مسلمان خود کو آسمانی تعلیمات کا پابند سمجھتے ہیں اور انسانی معاشرت کے انہی قواعد و ضوابط کو قبول کر سکتے ہیں جو آسمانی تعلیمات یا دوسرے لفظوں میں قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے مطابقت رکھتے ہوں۔ اس لیے کلوننگ یا اس جیسے کسی بھی عمل کو قبول کرنے یا اس کے درجات متعین کرنے میں ہمارا انداز دوسری قوموں سے قطعی مختلف ہوگا۔

یہی وہ مقام ہے جہاں ہمارے بعض دانشور دھوکہ کھا جاتے ہیں، اور جب وہ مسلم علماء کو مغربی مفکرین سے ہٹ کر الگ انداز سے نئی سائنسی ایجادات کا جائزہ لیتے اور رائے قائم کرتے دیکھتے ہیں تو مسلمانوں اور مغربی اقوام کے اس بنیادی فکری فرق سے پوری طرح واقف نہ ہونے کی وجہ سے کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کا نتیجہ عام طور پر مسلم علماء کے خلاف طعن و تشنیع کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ حالانکہ مسلمان ارباب علم و دانش کو ایسے معاملات میں دو پہلوؤں سے غور کرنا ہوتا ہے۔ مغربی مفکرین اور دانشور صرف ایک حوالے سے سوچتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی اس مسئلے کے بارے میں کیا سوچتی اور کیا چاہتی ہے، اور ان کے خیال میں اس میں انسانی سوسائٹی کے لیے فائدہ کا تناسب کیا ہے؟ لیکن مسلم علماء کو اس کے ساتھ ایک اور پہلو کا جائزہ بھی لینا ہوتا ہے کہ اس بارے میں انسانی سوسائٹی کے خالق و مالک کی تعلیمات کیا ہیں اور آسمانی تعلیمات اس مسئلے کے بارے میں کیا کہتی ہیں؟

اس پس منظر میں انسانی کلوننگ کا جائزہ لیں تو ہمیں اس کی درجہ بندی کرنا پڑے گی اور اس کی مختلف صورتوں کا الگ الگ جائزہ لینا ہوگا۔ مثلاً اگر یہ کلوننگ صرف انسانی جسم کے اعضا تک محدود ہے اور اس کے ذریعے معذور افراد کے لیے مطلوبہ جسمانی اعضا تیار کیے جاتے ہیں تو یہ بہت اچھا عمل ہے، جس سے سرجری کے شعبہ میں انسانی سوسائٹی کو بہت فائدہ ہوگا اور بے شمار معذور افراد ان اعضا سے فائدہ اٹھا کر ایک مکمل انسان کی زندگی بسر کر سکیں گے۔ ہمارے خیال میں شریعت اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتی اور علاج کے نقطۂ نظر سے انسانی جسم کے اعضا کی تیاری کے لیے کلوننگ کے عمل کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر اگر ایک بانجھ جوڑے کے لیے اولاد پیدا کرنے کا مسئلہ ہے تو بھی اس شرط کے ساتھ یہ عمل قابل قبول ہوگا کہ معاملہ باقاعدہ میاں اور بیوی کے درمیان محدود رہے اور میاں بیوی کے تولیدی جرثوموں کے ملاپ میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو اسے سائنسی اور تکنیکی طور پر کلوننگ کے عمل کے ذریعے دور کر دیا جائے۔ لیکن درمیان میں کسی اور عورت کا رحم یا کسی اور مرد کا مادہ استعمال نہ ہو کیونکہ اگر کسی غیر مرد کا مادہ منویہ کسی عورت کے رحم میں جائے گا تو زنا کی صورتوں میں شمار ہوگا۔

اس سے قبل ٹیسٹ ٹیوب بچے کی ولادت کا مسئلہ سامنے آیا تھا تو علماء اسلام نے یہی بات کہی تھی کہ اگر میاں بیوی کا آپس کا معاملہ ہے اور درمیان میں کسی اور عورت کا رحم استعمال نہیں ہوتا تو یہ طریقۂ علاج کے طور پر جائز ہے، لیکن اگر کوئی اور عورت بھی درمیان میں آتی ہے تو اس کے شرعی جواز کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔ اب جن اقوام کے نزدیک زنا کوئی بڑا جرم نہیں ہے اور مرد عورت کا ملاپ، خواہ کسی بھی طور پر ہو، ایک نارمل سا معاملہ ہے، ان کے ہاں تو کلوننگ یا ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے عمل میں کسی تیسری عورت کی شرکت اور اس کے رحم کا استعمال کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن ہمارے ہاں یہ بہت بڑا مسئلہ ہے جس کا تعلق صرف زنا کے احکام سے نہیں بلکہ نسب کے احکام سے بھی ہے کہ کلوننگ کے ذریعے جنم لینے والا بچہ کس باپ کا اور کس ماں کا شمار ہوگا؟ اگر اس کا خلیہ صرف مرد سے لیا گیا ہے تو ماں کون ہوگی؟ اور صرف عورت کا خلیہ استعمال ہوا ہے تو باپ کس کو تصور کیا جائے گا؟ اور اگر کوئی تیسری عورت درمیان میں آ گئی ہے تو ماں کا درجہ کسے حاصل ہوگا؟ اس مسئلے کی اہمیت مغرب میں یقیناً نہیں ہے کہ وہاں اب کسی کے تعارف یا حقوق کے تعین کے لیے باپ کا تذکرہ قانوناً ضروری نہیں رہا اور صرف ماں سے منسوب بچوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو ماں اور باپ دونوں کا تعین ضروری ہے جس پر نسب کا، وراثت کا، رشتہ داریوں کے تعین کا اور آگے چل کر نکاح کے جائز یا ناجائز ہونے کا دار و مدار ہے۔ اس کے بغیر ہمارا پورا خاندانی نظام چوپٹ ہو کر رہ جاتا ہے، وہی خاندانی نظام جس کی بربادی کا نوحہ انہی وجوہ کی بنا پر آج ہر مغربی دانشور کی زبان پر ہے۔

انسانی کلوننگ کا یہ عمل ہمیں اس سے کہیں زیادہ خاندانی انارکی سے دوچار کر سکتا ہے۔ اولاد کے لیے مرد اور عورت کا ملاپ ایک فطری یا روایتی طریقہ چلا آ رہا ہے لیکن اسلام اس کی تمام ممکنہ صورتوں کو قبول نہیں کرتا۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جاہلیت کے دور میں میاں بیوی باہمی رضامندی سے یہ صورت بھی اختیار کرتے تھے کہ بیوی کو کسی خاندان میں صرف اس لیے بھیج دیا جاتا تھا کہ وہ وہاں کے کسی مرد سے حاملہ ہو اور ان کے خیال میں ایک اعلیٰ نسل کا بچہ ان کے ہاں پیدا ہو جائے، یا ہندؤوں میں ’’نیوگ‘‘ کا طریقہ ہے کہ بے اولاد میاں بیوی باہمی رضامندی سے کسی تیسرے مرد کو درمیان میں لاتے ہیں جس سے مجامعت کر کے وہ عورت حاملہ ہوتی ہے اور دونوں میاں بیوی خوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے اس طریقے سے اولاد حاصل کر لی ہے۔ لیکن اسلام نے ان دونوں طریقوں کی نفی کی ہے اور انہیں زنا قرار دیا ہے۔ اسلامی شریعت میں سب سے زیادہ سخت اور سنگین سزا زنا کے جرم میں ہی مقرر کی گئی ہے اور تورات کی بیان کردہ اس سزا کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی شریعت میں برقرار رکھا ہے کہ شادی شدہ مرد یا عورت اگر زنا کا ارتکاب کریں تو انہیں سنگسار کر دیا جائے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی میں خاندان کے بنیادی یونٹ کے تحفظ، رشتوں کے تقدس اور باہمی حقوق کے تحفظ و ادائیگی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ نسب کا تعلق واضح ہو اور اس میں کوئی ابہام نہ ہو۔ زنا چونکہ نسب میں ابہام پیدا کرتا ہے اور اس سے رشتوں کے تعین، وراثت، باہمی حقوق اور نکاح کے جواز وغیرہ کے سارے معاملات مخدوش ہو کر رہ جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں خاندانی نظام اپنی فطری اور قانونی بنیاد سے محروم ہو کر انارکی اور تباہی کا شکار ہو جاتا ہے، اس لیے اسے اسلام نے کسی صورت میں اور کسی حالت میں گوارا نہیں کیا۔

اس پس منظر میں کلوننگ یا ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی کوئی ایسی شکل جس سے نکاح اور نسب کے شرعی ضابطے مجروح ہوتے ہوں اور خاندانی رشتوں کے دائرے ٹوٹتے ہوں، اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اور اگر اس حوالے سے علمائے اسلام اس کی مخالفت کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سائنس کی کسی نئی ایجاد کی مخالفت کر رہے ہیں، بلکہ صرف اس لیے کہ اس کی اجازت دینے سے انسانی رشتوں کا تقدس اور خاندانی نظام کا بنیادی یونٹ پامال ہوتا ہے۔ اور یہ مخالفت بالکل اس طرح کی ہے جیسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دور جاہلیت کی اس رسم کو ختم کر دیا تھا کہ کسی عورت کو خاوند کی مرضی سے حمل حاصل کرنے کے لیے دوسرے خاندان میں بھیج دیا جائے یا جیسے ہندووں میں رائج ’’نیوگ‘‘ کے طریقے کو اسلام نے جائز تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

یہاں دو سوال اور بھی توجہ طلب ہیں۔

  • ایک یہ کہ اگر کلوننگ کا معاملہ میاں بیوی کے درمیان ہی رہے تو ہم اس کے جواز کے امکان کو تسلیم کر رہے ہیں کہ بے اولاد جوڑے میں اولاد کے حصول کے لیے علاج کے طور پر اس عمل کو قبول کیا جا سکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے، جیسا کہ کہا جا رہا ہے کہ کلوننگ کے ذریعے پیدا ہونے والا بچہ اس انسان کی بالکل فوٹو کاپی ہوگا جس کے جسم سے اس کا جرثومہ یا خلیہ حاصل کیا گیا ہے، تو اس کے علیحدہ وجود اور تشخص کا تعین کیسے ہوگا؟ یہ ایک مستقل کنفیوژن ہے جس کے حل کی کوئی صورت سمجھ میں نہیں آ رہی۔
  • اور دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر کلوننگ کے طریقے سے جنم لینے والا بچہ خالصتاً مشینی عمل کے ذریعے وجود میں آیا ہے اور کسی زندہ یا مردہ انسان کے جسم سے اس کا صرف خلیہ حاصل کیا گیا ہے تو اس مشینی بے بی کے ماں باپ کون ہوں گے؟ اس کے وارث کون ہوں گے اور وہ کس کا وارث ہوگا؟ اس کا نکاح کس سے جائز ہوگا اور وہ کون سے خاندان کا رکن متصور ہوگا؟ یہ سب سوالات اسلامی شریعت کی رو سے انتہائی ضروری ہیں اور ان کا کوئی حل سامنے لائے بغیر اس قسم کے کسی بھی عمل کو جواز کی سند فراہم نہیں کی جا سکتی۔

پھر اسلامی شریعت کے ضوابط اور حدود سے ہٹ کر عام معاشرتی نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جائے تو ان سوالات سے کوئی مفر دکھائی نہیں دیتا، اس لیے کہ اگر ’’کلوننگ نسل‘‘ جنگل کے لیے پیدا کرنی ہے اور انسانوں کی فوٹو کاپیاں بنا کر انہیں جنگلات کی طرف دھکیل دینا ہے کہ باقی جانوروں کی طرح جیسے حالات اور مواقع ہوں، وہ بھی زندگی بسر کرتے رہیں تو کوئی اشکال کی بات نہیں، لیکن اگر ’’کلوننگ نسل‘‘ کے افراد کو انسانی سوسائٹی میں رہنا ہے اور انسانی معاشرت کی اسی مشینری میں فٹ ہونا ہے تو انہیں تیار کرنے سے پہلے ان کی جگہ کا تعین کرنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ پرزے اس مشینری میں کسی جگہ فٹ بھی ہو سکیں گے یا اس سے محض ’’سپیئر پارٹس‘‘ کے بلاضرورت ڈھیر لگاتے چلے جانے کا شوق ہی پورا ہوگا؟

اس کے دیگر بہت سے پہلوؤں پر بھی گفتگو کی گنجائش موجود ہے اور یہ گفتگو اہل علم میں جاری رہے گی مگر اصولی طور پر یہ بنیادی بات ہم عرض کرنا چاہتے ہیں کہ کوئی بھی سائنسی ایجاد اگر نسل انسانی کے فائدے میں ہے اور اس سے انسانی سوسائٹی میں استحکام پیدا ہوتا ہے اور باہمی رشتے مضبوط ہوتے ہیں تو وہ ایک مفید ایجاد ہے اور اسے قبول کرنے میں کسی باشعور کو حجاب نہیں ہو سکتا، لیکن اگر کوئی ایجاد انسانی سوسائٹی کے رشتوں کو کمزور کرنے، انسانی معاشرت میں خلفشار پیدا کرنے اور مسلّمہ اخلاقی اقدار و روایات کو تباہ کرنے کا زیادہ احتمال رکھتی ہو تو اسے محض اس شوق اور خوشی میں سند جواز فراہم نہیں کی جا سکتی کہ انسان نے تباہی کے ایک نئے گڑھے تک رسائی حاصل کر لی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter