توہین رسالتؐ پر سزا کا قانون پھر موضوع بحث

   
اکتوبر ۲۰۰۹ء

توہین رسالت پر موت کی سزا کا قانون اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا دستوری فیصلہ ایک بار پھر قومی سیاست میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں اور مختلف اطراف سے ان پر اظہارِ خیال کا سلسلہ جاری ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سر براہ الطاف حسین نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں قادیانیوں کو مظلوم قرار دیتے ہوئے ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے، جبکہ گورنر پنجاب جناب سلمان تاثیر نے توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون کو امتیازی قانون قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اسے ختم ہونا چاہیے یا اس میں ترامیم ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی انسانی حقوق کی تنظیم کی راہنما عاصمہ جہانگیر نے بھی ایک بار پھر اپنا یہ موقف دہرایا ہے کہ توہین رسالت پر سزا کے قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے اس لیے اسے ختم کر دیا جائے۔

قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کا درجہ دینے اور توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کے قوانین جب سے نافذ ہوئے ہیں، بین الاقوامی حلقوں کی تنقید کا ہدف ہیں اور عالمی سیکولر لابیاں انہیں مذہبی امتیاز کے قوانین قرار دے کر ختم کرانے یا کم از کم غیر مؤثر بنا دینے کے لیے مسلسل سر گرم عمل ہیں، انہیں موجودہ حکومت سے یہ توقع ہے کہ وہ ان کے اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ بین الاقوامی سیکولر حلقوں کے لیے تو سرے سے پاکستان کا اسلامی تشخص ہی قابل اعتراض ہے اس لیے کہ وہ آج کے دور میں مذہب کے حوالہ سے کسی ریاست کا وجود یا تشخص قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح مغرب نے ریاستی اور معاشرتی معاملات میں مذہب کے کردار کو ختم کر کے اسے ذاتی زندگی اور شخصی معاملات تک محدود کر دیا ہے، اسی طرح مسلم ممالک کو بھی اسلام کے ریاستی اور معاشرتی کردار سے دستبردار ہو جانا چاہیے اور ایسے کسی بھی قانون کے نفاذ اور اس پر عملدرآمد سے گریز کرنا چاہیے جس کی بنیاد مذہبی تعلیمات پر ہو۔

پاکستان کے قیام کے بعد ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں یہ بحث ہوتی رہی ہے کہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنایا جائے اور مذہب کو اس کے ریاستی معاملات میں دخیل نہ ہونے دیا جائے لیکن تحریک پاکستان کا زمانہ قریب کا تھا اور لوگوں کو جہاں یہ یاد تھا کہ تقسیم برصغیر اور قیام پاکستان کے جواز میں مسلمانوں کے جداگانہ مذہبی تشخص اور ان کی تہذیب و ثقافت کو ہی بنیاد بنایا گیا تھا اور واضح طور پر اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستان مسلمانوں کی اسلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ اور اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ کے لیے قائم کیا جا رہا ہے، وہاں قیام پاکستان کی خاطر ہزاروں جانوں کی قربانیوں کا المناک منظر دیکھنے والے بھی ابھی موجود تھے۔ اس لیے ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے پاکستان کو سیکولر ریاست قرار دینے کا فیصلہ نہ لیا جا سکا بلکہ اس نے ’’قرارداد مقاصد‘‘ کی منظوری دے کر ہمیشہ کے لیے پاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص اور بنیاد پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ اس کے بعد اب تک کشمکش کا طویل سلسلہ جاری ہے اور پاکستان کو ایک عملی اسلامی ریاست بننے سے روکنے کے لیے بین الاقوامی حلقوں کے ساتھ بعض ملکی حلقے اور گروہ بھی مختلف زاویوں سے مصروف عمل ہیں۔

پاکستان کو دستوری طور پر سیکولر ریاست قرار دلوانے میں ناکامی کے بعد سیکولر حلقوں نے اپنے طریق کار کو تبدیل کیا اور یہ حکمت عملی اختیار کی کہ اول تو کوئی اسلامی قانون ملک میں نافذ نہ ہونے پائے، اور اگر عوامی دباؤ اور دینی حلقوں کی جد و جہد کے باعث ایسا کرنا پڑ جائے تو اسے تاویلات و تحریفات کے ساتھ ساتھ قانونی موشگافیوں کے ذریعے اس قدر غیر مؤثر بنا دیا جائے کہ وہ نمائشی اور ڈیکوریشن پیس سے زیادہ کوئی درجہ حاصل نہ کر سکے ۔مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع نے اس سلسلہ میں اپنی یادداشتوں میں بیان فرمایا ہے کہ جب وہ ملکی قوانین کو اسلامی شکل دینے کے لیے سر کاری طور پر قائم شدہ ’’تعلیمات اسلامیہ بورڈ‘‘ کے ممبر تھے تو بورڈ کی دو تین میٹنگوں میں انہیں اندازہ ہو گیا کہ یہاں صحیح رخ پر کوئی کام ہونے والا نہیں ہے اس لیے انہوں نے بورڈ کے چیئرمین سے کہا کہ:

’’مجھے بات سمجھ آ گئی ہے، صحیح رخ پر آپ کام کو نہیں چلنے دیں گے اور غلط رخ پر میں اس کام کو آگے نہیں جانے دوں گا، نتیجہ یہ ہو گا کہ گاڑی یہیں کھڑی رہے گی۔‘‘

چنانچہ گزشتہ ساٹھ برس سے یہی ہو رہا ہے، اس گاڑی کے دونوں طرف انجن لگے ہوئے ہیں اور دونوں طاقتور ہیں، ایک کا انجن زور لگا کر گاڑی کو اپنی طرف تھوڑا سا کھینچ لیتا ہے تو دوسری طرف کا انجن دوسری طرف زور لگا کر گاڑی کو پھر زیرو پوائنٹ پر لے آتا ہے، اور اس طرح ہم ساٹھ برس گزر جانے کے باوجود پاکستان کے نظریاتی مقصد کی طرف پیشرفت اور اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ کے معاملہ میں زیرو پوائنٹ پر کھڑے ہیں۔ اب بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنے اصلی تشخص کے ساتھ ملک کے بعض مقتدر گروہوں اور ان کے سر پرست بین الاقوامی حلقوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے اور چونکہ میڈیا، لابنگ اور نفاذ کی قوت ان کے کنٹرول میں ہے اس لیے وہ بظاہر سارے معاملات پر حاوی دکھائی دے رہے ہیں۔

سیکولر حلقوں کے اس اثر و نفوذ اور قوت و طاقت کے مقابلہ میں دینی حلقوں کے پاس ایک ہی قوت تھی جس کے ذریعے وہ ہمیشہ سیکولر حلقوں کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب رہے ہیں اور وہ قوت عوامی رائے اور اسٹریٹ پاور کی تھی۔ دینی جماعتوں نے جب بھی متحد ہو کر رائے عامہ اور اسٹریٹ پاور کے ذریعے پیشرفت کی ہے، سیکولر حلقوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔ لیکن اب یہ منظر تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے، دینی جماعتوں کی قیادتیں ایسی شخصیات سے محروم ہوتی جا رہی ہیں جو گروہی، مسلکی، طبقاتی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی اور ملکی مفاد کے لیے سوچتی تھیں اور ایثار و قربانی سے کام لیتے ہوئے ایک دوسرے کا دست و بازو بن جایا کرتی تھیں۔ اب ہر طرف خلفشار، بے اعتمادی اور ناعاقبت اندیشی کا دور دورہ ہے، محدود مفادات، وقتی تقاضوں اور گروہی ترجیحات نے ہماری آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور رائے عامہ اور اسٹریٹ پاور کی قوت سے محروم ہو کر دینی جماعتیں خود اپنا سیاسی وجود برقرار رکھنے کے لیے پس پردہ قوتوں کا سہارا لینے پر مجبور ہو گئی ہیں۔

قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے دستوری فیصلے اور توہین رسالت پر موت کی سزا کے قانون کو ختم کرانے یا غیر مؤثر بنانے کی مہم بھی اسی کشمکش کا حصہ ہے اور اس کا اظہار حدود آرڈیننس کو پارلیمنٹ کے ذریعے سبوتاژ کیے جانے کے موقع پر ہو گیا تھا کہ ملکی قوانین میں برائے نام موجود حدود شرعیہ کا تیاپانچہ کرنے کے بعد اب توہین رسالت کی سزا کے قانون اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے دستوری فیصلے کی باری ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس باری کا وقت اب آگیا ہے۔ مقتدر حلقوں کی طرف سے ان مسائل کو دوبارہ چھیڑنے کا مقصد یہی ہے کہ حدود آرڈیننس کی طرح ان دو قوانین سے بھی پیچھا چھڑا لیا جائے اور ہمارا خیال ہے کہ فائل ورک اور لابنگ مہم مکمل کر کے کسی وقت بھی پارلیمنٹ میں اس سمت پیشرفت ہو سکتی ہے۔

ملک کی مختلف دینی جماعتوں کی طرف سے الطاف حسین اور سلمان تاثیر کے بیانات کی مذمت اور ان پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور اس سلسلہ میں مشترکہ اجتماعات بھی ہونے والے ہیں جو اگرچہ دینی حلقوں کے موقف کے اظہار کے لیے ضروری ہیں اور ہمیں ان کی افادیت و اہمیت سے انکار نہیں ہے لیکن ہمارے نزدیک اصل مسئلہ دینی جماعتوں کی عمومی حکمت عملی کا ہے کہ وہ ملک کی مجموعی صورتحال اور دینی حلقوں کی زبوں حالی کے المناک منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی ترجیحات پر نظر ثانی اور کوئی اجتماعی حکمت عملی طے کرنے کے لیے کہاں تک تیار ہیں؟ ہمیں یقین ہے کہ دینی جماعتوں کی قیادتیں اگر آج بھی مل بیٹھیں اور قومی و ملی مفادات کی خاطر گروہی مفادات و ترجیحات پر نظر ثانی کے لیے آمادہ ہو جائیں تو معاملات کو کسی حد تک سنبھالا جا سکتا ہے اور پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ کی طرف لے جانے والے عمل کو بریک لگائی جا سکتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter