مارچ ۱۹۱۹ء میں امیر امان اللہ خان نے اپنے والد امیر حبیب اللہ خان کے قتل کے بعد افغانستان کی بادشاہت سنبھالی تو صورتحال یہ تھی کہ اگرچہ افغانستان ایک آزاد ملک کہلاتا تھا مگر امیر حبیب اللہ خان اور ان کے والد امیر عبد الرحمٰن کے برطانوی حکومت کے ساتھ معاہدوں کی بدولت پالیسیوں پر انگریزوں کا ریموٹ کنٹرول قائم ہو چکا تھا۔ ان معاملات کے تحت نہ صرف چترال، وزیرستان، خیبر، چاغی، چمن، پشین، پاراچنار، اور کرم کے علاقے انگریزوں کے حوالہ کر دیے گئے تھے بلکہ ۱۹۰۵ء میں کیے جانے والے ایک معاہدہ کی رو سے امیر حبیب اللہ خان نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار پونڈ کے عوض افغانستان کے خارجہ معاملات کا کنٹرول بھی انگریزوں کی تحویل میں دے رکھا تھا۔
امیر امان اللہ خان نے بادشاہت سنبھالتے ہی افغانستان کی مکمل آزادی کا اعلان کرتے ہوئے انگریزوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا جس میں افغان قوم نے اپنے حکمران کا بھرپور ساتھ دیا اور بالآخر مختلف جھڑپوں اور محاذ آرائی کے بعد برطانوی حکومت نے ۸ اگست ۱۹۱۹ء کو افغانستان کی آزادی کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کامیابی کے بعد امیر امان اللہ خان نے ملک کے نظام کی اصلاح اور دستوری ماحول قائم کرنے کی طرف توجہ دی اور متعدد اصلاحات نافذ کیں جو افغان قوم کو ہضم نہ ہوسکیں اور جنوری ۱۹۲۹ء میں ایک تاجک سردار بچہ سقہ نے، جسے پنجاب یونیورسٹی کے دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار نے تاجک ڈاکو لکھا ہے، کابل پر قبضہ کر کے امان اللہ خان کو اقتدار سے محروم کر دیا اور وہ اقتدار کے دوبارہ حصول کی ایک کوشش میں ناکامی کے بعد اٹلی چلے گئے۔
امیر امان اللہ خان جس وقت افغانستان میں یہ اصلاحات نافذ کر رہے تھے اس وقت ایک ہندوستانی دانشور عزیز ہندی بھی وہاں موجود تھے جو ۱۹۱۸ء میں ہجرت کر کے کابل گئے تھے۔ وہ وہاں دس سال قیام کے بعد وطن واپس آئے، انہوں نے امان اللہ خان کے دور حکومت اور اصلاحات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور ان مشاہدات پر مشتمل ساڑھے چار سو صفحات کی ایک کتاب ’’زوال غازی امان اللہ خان‘‘ کے نام سے لکھ کر انہیں تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ عزیز ہندی وطن واپسی کے بعد بغاوت کے الزام میں گرفتار ہوگئے تھے اور انہوں نے یہ کتاب سنٹرل جیل ملتان میں لکھی جو ۱۹۳۳ء میں ان کی رہائی کے بعد ثنائی برقی پریس امرتسر سے شائع ہوئی ۔
امیر امان اللہ خان افغانستان میں سیاسی اور ثقافتی انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے یورپ کے مختلف ممالک کا دورہ کیا اور وہاں کے جدید کلچر سے اس قدر متاثر ہوئے کہ یورپی ثقافت کو افغانستان میں طاقت کے زور پر رائج کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ عزیز ہندی کے بقول امان اللہ خان نے سردار محمود خان یاور کے ذمہ لگا رکھا تھا کہ وہ ان کے واپس آنے تک افغانستان میں رائے عامہ کو ثقافتی انقلاب کے لیے ہموار کرنے کی کوشش کریں اور خاص طور پر آزاد خیالی اور برہنہ روئی کا پرچار کریں۔ برہنہ روئی کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورتوں کے لیے پردہ کو ضروری نہیں سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ چہرے کے پردے کو قانوناً ممنوع قرار دے دیا جائے۔ مگر امیر امان اللہ خان کی وطن واپسی پر جب محمود خان یاور نے انہیں اپنی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرنا چاہی تو انہوں نے کہا کہ ’’بس بس محمود جان رہنے دو یہ باتیں اس طرح حاصل نہیں ہو سکتیں، مصطفیٰ کمال نے مجھے کہا ہے کہ انہیں محض سنگین کی نوک سے رائج کیا جا سکتا ہے اور میں اب انہیں بہ نوک سنگین رائج کر کے رہوں گا۔‘‘
عزیز ہندی نے امیر امان اللہ خان کے ترکی کے دورہ اور جمہوریہ ترکیہ کے بانی و صدر مصطفیٰ کمال اتاترک کے ساتھ ان کی ملاقات و گفتگو کا بھی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے اور وہ مکالمہ بھی اپنے الفاظ میں نقل کر دیا ہے جو ان کے بقول اس ملاقات میں دونوں لیڈروں کے درمیان ہوا تھا۔
- مصطفیٰ کمال اتاترک نے امیر امان اللہ خان سے کہا کہ وہ جس طرح کی اصلاحات نافذ کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں عوام میں حد درجہ کی مقبولیت حاصل ہو تاکہ کوئی طبقہ اصلاحات کی راہ میں مزاحمت کی جرأت نہ کر سکے۔ امان اللہ خان نے اس کے جواب میں کہا کہ ملانے (علماء) اگرچہ طاقتور گروہ ہیں مگر اب وہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ مزاحمت کر سکیں۔
- مصطفیٰ کمال نے کہا کہ اگر اصلاحات کے نتیجہ میں بغاوت ہوگئی تو اسے کچلنے کے لیے فوج کا مکمل طور پر وفادار ہونا ضروری ہے ۔امان اللہ خان نے جواب دیا کہ میری فوج پوری طرح وفادار ہے اور ہر طرح کی بغاوت کو کچلنے کے لیے میرے ساتھ ہوگی۔
- مصطفیٰ کمال نے کہا کہ اگر کسی جگہ بغاوت ہوگئی تو محصولات کی وصولی میں رکاوٹ ہوگی، جنگ کی وجہ سے راستے مخدوش ہو جائیں گے جس سے تجارت کمزور پڑ جائے گی اور آمدنی کم ہو جائے گی، اس لیے مالی حالات کا مستحکم ہونا ضروری ہے تاکہ صورتحال کنٹرول میں رہے۔ امان اللہ خان نے کہا کہ ان کی مالی حالت پوری طرح مستحکم ہے اور بوقت ضرورت ان کے دوست ان کی مدد کریں گے۔
- مصطفیٰ کمال نے کہا کہ اندرونی شورش اور بغاوت کی صورت میں بین الاقوامی حمایت اور تعاون کی ضرورت پڑے گی۔ امان اللہ خان نے جواب دیا کہ انگریزوں اور روس دونوں کے ساتھ ان کے معاملات موجود ہیں جو اپنے معاملات کی پاسداری کریں گے اور ضرورت پڑنے پر مالی مدد بھی مل سکتی ہے۔
اس طرح کی تفصیلی گفتگو کے بعد مصطفیٰ کمال نے امان اللہ خان سے جو آخری بات کی اسے عزیز ہندی نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ
- مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ترکیہ میں اصلاحات کو کبھی خوش آمدید نہیں کہا گیا بلکہ ہم نے بہ نوک سنگین ان کو رائج کیا ہے۔ کسی ملک کے باشندے اپنے پرانے عقائد و خیالات اور رسم و رواج کی پابندیوں کو از خود خیرباد نہیں کہا کرتے تا آنکہ حکومت وقت ان کے بر علیہ جبر و قوت کو استعمال نہ کرے۔
مصطفیٰ کمال سے رہنمائی حاصل کرنے کے بعد امان اللہ خان واپس افغانستان پہنچے تو ان کی ذہنی حالت یہ ہو چکی تھی کہ وزارت خارجہ کے ہال میں علماء کرام کا ایک وفد ان کی پذیرائی اور ملاقات کے لیے آیا مگر امیر امان اللہ خان نے سابقہ دستور اور اسلامی طریقہ کے مطابق ان سے سلام اور مصافحہ کرنے کی بجائے ہیٹ اتار کر یورپی طریقہ سے ان کے سلام کا جواب دیا اور ایک ہاتھ سے ہر ایک کے ساتھ خشک مصافحہ کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ اسی مجلس میں ایک بڑے عالم ’’ملا صاحب چکنور‘‘ کے ہاتھ میں موٹے دانوں کی تسبیح دیکھ کر امان اللہ خان نے کہا کہ ’’یہ کیا اونٹ کی لیڈنیوں سے کھیل رہے ہو؟‘‘ کسی مصاحب نے تھوڑی دیر کے بعد ملا صاحب چکنور کی بزرگی اور مقام کی طرف توجہ دلائی تو بادشاہ سلامت نے فرمایا کہ ’’کوئی سا ریچھ بھی ہو میں ان سب کو جلد انسان بنا دوں گا۔‘‘
اس فضا میں امان اللہ خان نے اس ثقافتی انقلاب کا آغاز کیا جسے ’’۱۹۲۸ء کا انقلاب افغانستان‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کی شروعات جن اصلاحات سے ہوئی ان میں مردوں کے لیے مغربی لباس کے استعمال کی پابندی، ایک سے زیادہ نکاح کی قانونی ممانعت، اور پردہ کے قانونی خاتمہ کے قوانین شامل تھے جن کے لیے محلوں میں نگران مقرر کیے گئے کہ کوئی عورت برقع پہن کر گھر سے باہر نہ نکلے۔ اور سڑکوں پر پولیس کھڑی کر دی گئی جو ہر اس گزرنے والے سے جرمانہ وصول کرتی تھی جس نے یورپی لباس نہ پہن رکھا ہو۔ ادھر گھر کی حالت یہ تھی کہ عزیز ہندی کے بقول ایک روز کسی خادمہ سے قرآن کریم کے کچھ اوراق گر گئے جو اس نے اٹھا کر چومنا شروع کر دیے تو بادشاہ بیگم نے اسے ٹوکا کہ یہ کیا کر رہی ہو؟ اس نے کہا کہ یہ کلام پاک ہے۔ اس پر بادشاہ بیگم نے کہا کہ اس سے بڑھ کر بھی کتابیں لکھی جائیں گی اس لیے ان عقائد کو تہہ کر کے رکھ دو اور آدمیت سیکھو۔
اس پس منظر میں امیر امان اللہ خان نے افغانستان میں جس ثقافتی انقلاب کی طرف پیش رفت کرنا چاہی اس کا نتیجہ ’’بچہ سقہ‘‘ کی صورت میں ہی نمودار ہونا تھا کہ یہ فطری عمل ہے جسے روکا نہیں جا سکتا۔ اس لیے اگر آج بھی کسی کے دماغ میں کسی مسلم معاشرہ میں یورپی ثقافت کو بہ نوک سنگین رائج کرنے کا اور ویسٹرن کلچر کو فروغ دینے کا خیال کلبلا رہا ہو تو اسے ’’بچہ سقہ‘‘ کا یہ کردار اپنے سامنے ضرور رکھنا چاہیے کیونکہ ترکی کے ایک تجربہ کے بعد دنیا کا کوئی اور مسلم ملک اس راستہ پر چلنے کے لیے آج تک تیار ہوا ہے اور نہ آئندہ کبھی ہو سکتا ہے۔