مسلم ممالک کا نصاب تعلیم اور بل کلنٹن کی ہدایات

   
تاریخ : 
۲۸ جنوری ۲۰۰۲ء

جدہ میں اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کا ایک جملہ ایک قومی اخبار نے یوں نقل کیا ہے

’’انہوں نے مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام میں عقیدے کی تلقین ختم کریں۔‘‘

اس بارے میں کچھ گزارشات گزشتہ کالم میں پیش کی جا چکی ہیں۔ ۲۲ جنوری ۲۰۰۲ء کو ایک اور قومی اخبار نے جناب کلنٹن کے اس خطاب کی مزید تفصیلات شائع کی ہیں جن کے پیش نظر کچھ مزید معروضات ضروری محسوس ہوتی ہیں۔ اس اخبار کے مطابق

  • سابق صدر بل کلنٹن نے ایسے ’’عالمی سیاسی معاشرہ‘‘ کی تشکیل کے لیے جذباتی اپیل کی ہے جو رواداری پر مبنی ہو اور دہشت گردی کے خلاف لڑ سکے۔
  • جدہ میں تین روزہ اکنامک فورم سے اپنے خطاب میں انہوں نے امریکی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ باقی دنیا سے رابطہ کرے اور مسلمانوں پر زور دے کہ وہ تعلیمی نظام میں جبری مسلط کیے گئے نظریات کو ختم کرنے کے لیے سکولوں کا نصاب تبدیل کریں۔
  • انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہیے جہاں ہر ایک کو اپنی پسند کے مطابق خدا کی پرستش کی آزادی ہو اور کوئی اس پر اعتراض نہ کرے۔
  • دہشت گردوں نے ایسی دیواروں کو پھر سے کھڑا کرنے کی کوشش کی جنہیں ہم نے بڑی محنت سے گرایا تھا۔
  • انہوں نے امام کعبہ اور جامعہ ازہر کے امام سے اپنی ملاقات کا بطور خاص حوالہ دیا اور کہا کہ یہ لوگ دہشت گردی کے خلاف آواز تو بلند کر رہے ہیں مگر یہ سلسلہ سکولوں کی تعلیم تک جانا چاہیے۔

بل کلنٹن کی ان کھلی کھلی باتوں سے ہمیں اس لحاظ سے خوشی ہوئی ہے کہ انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر صاف بات کی ہے۔ اس طرح وہ نکتہ اور پوائنٹ مزید واضح ہوتا جا رہا ہے جو مغرب اور اسلام کے درمیان دن بدن بڑھتی چلی جانے والی کشمکش میں بنیادی تنازعہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس سے یہ بات بھی نکھر کر سامنے آگئی ہے کہ مغرب کے لیڈر بار بار اس یقین دہانی کا جو تکرار کر رہے ہیں کہ ان کی جنگ اسلام کے خلاف نہیں ہے وہ محض ڈپلومیسی ہے۔ جبکہ وہ دہشت گردی کی کوئی تعریف متعین کیے بغیر جن اقدار و روایات اور احکام و ضوابط کو دہشت گردی قرار دے کر ہدف بنائے ہوئے ہیں وہ اصل میں اسلامی تعلیمات ہی سے تعلق رکھتی ہیں اور مغربی لیڈروں کے نزدیک اس ’’دہشت گردی‘‘ کے خاتمہ کے لیے مسلمان ملکوں کے تعلیمی نظام اور اسلامی تعلیمی نصاب کے بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی ناگزیر ہے۔

مغرب اور اسلام کے درمیان تنازعہ، کشمکش اور جنگ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مغرب اسلام کو ایک مذہب کے طور پر برداشت کرنے کے لیے تو تیار ہے جو مسیحیت، یہودیت، ہندوازم اور بدھ مت کی طرح انسانی سوسائٹی کی اجتماعی قیادت کے کردار سے دستبردار ہو کر شخصی زندگی اور عبادت خانوں تک محدود ہو جائے اور اپنی ان حدود سے باہر اجتماعی معاملات میں کسی حوالہ سے بھی دخل اندازی نہ کرے۔ اس اسلام کے ساتھ مغرب کی کوئی جنگ نہیں ہے اور نہ ہی اس اسلام کو ختم کرنے میں انہیں کوئی دلچسپی ہے کیونکہ جب مذہب معاشرہ کی اجتماعی قیادت اور راہنمائی سے کنارہ کش ہو کر سیاست، تجارت، معیشت، قانون، معاشرت اور کلچر غرضیکہ ہر شعبہ میں مغرب کے فلسفہ و نظام کی بالادستی کے لیے میدان خود ہی خالی کر رہا ہے تو مغرب کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ وہ اس شکست خوردہ اور ہتھیار ڈال دینے والے مذہب کے خلاف کشمکش میں اپنا وقت، سرمایہ اور صلاحیتیں ضائع کرے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحیت، یہودیت، ہندومت اور بدھ ازم کے خلاف مغرب کی کوئی لڑائی نہیں ہے کیونکہ ان مذاہب کے پیروکار دنیا بھر میں اپنی مذہبی سرگرمیوں کو شخصی زندگی اور عبادت خانوں تک محدود کر کے سیاست، قانون، معیشت، معاشرت اور دیگر اجتماعی شعبوں میں مغربی فلسفہ و ثقافت کی بالادستی کو قبول کر چکے ہیں۔

مگر اسلام کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ اسلام اپنے معاشرتی، سیاسی اور تہذیبی کردار سے کسی طور پر دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے جس کی دو بنیادی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ اسلام کے پاس قرآن کریم اور سنت نبویؐ کی تعلیمات مکمل اور محفوظ حالت میں بدستور موجود ہیں اور انہیں تبدیل کرنے یا پردۂ اخفاء میں لے جانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عام مسلمان خواہ وہ دنیا کے کسی خطے سے تعلق رکھتا ہو اور کتنا ہی بے علم، بے عمل بلکہ بدعمل کیوں نہ ہو لیکن جب قرآن کریم کے کسی حکم اور جناب نبی اکرمؐ کے کسی ارشاد کی بات آئے گی وہ خواہ اس پر عمل کرتا ہو یا نہ ہو مگر اس سے دستبردار ہونے یا اس کے بارے میں کوئی کمزور بات کہنے اور سننے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ دنیا کے کسی بھی خطے کا عام مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جامع نظام زندگی ہے اور بہتر و برتر تہذیبی اقدار کا حامل ہے جسے عالمی قوتوں نے طاقت، سیاست اور معاشی بالادستی کے زور سے دبا رکھا ہے۔ اور جب بھی حالات سازگار ہوئے اسلام اپنا اجتماعی کردارا ادا کرنے کے لیے پھر سے عالمی افق پر ابھرے گا۔

اسلام کا یہی پہلو مغرب کے لیے ناقابل قبول ہے کیونکہ اس طرح اسلام ایک محکوم مذہب کی بجائے ایک مقابل تہذیبی قوت کے طور پر سامنے آتا ہے اور مغرب کی تہذیبی بالادستی کو چیلنج کرتا دکھائی دیتا ہے جو مغرب کے لیے قطعی طور پر ناقابل برداشت ہے چنانچہ مغرب اسلام سے پیچھا چھڑانے کے جتن کر رہا ہے۔ اس کی ایک جزوی صورت جناب کلنٹن کے یہ لیکچر بھی ہیں جن میں وہ مسلمانوں کو تلقین کر رہے ہیں کہ وہ اپنا تعلیمی نصاب و نظام تبدیل کریں اور عقیدہ کی تلقین ختم کریں۔ اس معاملہ میں مذہب کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے کرلیں کہ جناب کلنٹن اپنے اس دورہ میں امام کعبہ سے اور جامعہ ازہر کے امام محترم سے ملے ہیں اور ان کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنے کو انہوں نے سراہا بھی ہے لیکن ان کے نزدیک اس کے ساتھ مسلمانوں کے تعلیمی نصاب و نظام سے ان باتوں کو نکالنا بھی ضروری ہے جنہیں امریکہ دہشت گردی قرار دیتا ہے۔

امام کعبہ اور جامعہ ازہر کے شیخ اکبر عالم اسلام کے ان بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے افغانستان کے خلاف امریکہ کی فوج کشی میں کھل کر امریکہ کی حمایت کی ہے اور مظلوم طالبان کو برسرعام غلط ٹھہرایا ہے۔ لیکن امریکہ اس پر بھی خوش نہیں ہے اور ان سے تقاضا کر رہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنے کو اسکولوں اور مدارس تک لے جائیں اور اپنے تعلیمی نظام و نصاب کو امریکی ایجنڈے کے مطابق تبدیل کریں۔

ہم ان کالموں میں کئی بار واضح کر چکے ہیں کہ اسلامی تعلیمات اور ہمارے تعلیمی نصاب میں جو باتیں امریکہ کے موقف کے مطابق دہشت گردی کا حصہ قرار پاتی ہیں ان میں جہاد کے احکام، نکاح و طلاق اور وراثت کے شرعی قوانین، معاشرتی جرائم کی شرعی سزائیں، اور ریاست کے سرکاری مذہب کے طور پر اسلام کا ریاستی کردار بھی شامل ہے۔ جن کے بارے میں امریکہ، اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے اور مغرب کی بین الاقوامی لابیاں درجنوں رپورٹوں اور بیسیوں قراردادوں میں یہ بات کہہ چکی ہیں کہ یہ سب امور انسانی حقوق کے مروجہ عالمی فلسفہ کے خلاف ہیں اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور فیصلوں کے منافی ہیں۔ اگر خدانخواستہ کوئی مسلمان ملک اپنے تعلیمی نظام کے حوالہ سے جناب کلنٹن کے ارشاد کو قبول کرتا ہے تو آپ خود فیصلہ کر لیجیے کہ اسے قرآن کریم کی کتنی آیات اور جناب رسول اللہؐ کے کتنے ارشادات سے دستبردار ہونا پڑے گا۔

جناب کلنٹن سے گزارش ہے کہ وہ معروضی حقائق کو تسلیم کریں اور امریکی راہنماؤں کو اس بات پر آمادہ کریں کہ اسلامی تعلیمات کو ختم کرنے یا تقسیم کرنے اور مسلمانوں کو قرآن کریم اور سنت رسولؐ کے احکام سے دستبردار کرانے کی بے نتیجہ کوششوں میں وقت ضائع نہ کریں۔ یہ کوشش اس سے قبل برطانیہ کر چکا ہے جس نے ڈیڑھ سو سال قبل دہلی پر اقتدار قائم ہونے کے بعد جنوبی ایشیا کے صدیوں پرانے تعلیمی نصاب و نظام کو یکسر تبدیل کر دیا تھا بلکہ بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا تھا۔ صرف اس خیال سے کہ مسلمانوں کو ’’ماڈرنائز‘‘ کرکے انہیں ان کی پرانی، روایتی اور دقیانوسی تعلیم کے دائرے سے باہر نکالا جائے اور مغرب سے آنے والے جدید فلسفہ و ثقافت سے انہیں ہم آہنگ کیا جائے۔ لیکن برطانیہ کو اس ساری تگ و دو میں جو کامیابی حاصل ہوئی اس کا نقشہ آج سب کے سامنے ہے اور اب بھی اس قسم کی کسی کوشش کا نتیجہ اس سے کسی صورت مختلف نہیں ہوگا۔ اس لیے امریکی رہنماؤں کے لیے دانشمندی کا راستہ یہی ہے کہ وہ اسلام کو مسیحیت، یہودیت، ہندوازم اور بدھ مت کی طرح ایک روایتی اور فرسودہ مذہب سمجھ کر اسے دبانے اور کارنر کرنے کی فضول محنت میں وقت ضائع نہ کریں بلکہ اسے مغربی فلسفہ و ثقافت کے مقابل ایک زندہ و توانا فلسفہ و ثقافت کی حیثیت سے تسلیم کر کے حوصلے کے ساتھ اس کا سامنا کریں۔

اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ نسل انسانی گلوبلائزیشن کے دور میں داخل ہو چکی ہے اور ایک نیا عالمی سیاسی معاشرہ تشکیل پانے والا ہے جس کی قیادت کے لیے مغربی فلسفہ و نظام اور اسلامی فلسفہ و ثقافت کے درمیان جنگ جاری ہے۔ جناب کلنٹن اور ان کے ہمنوا اگر یہ جنگ دھونس، دھاندلی، بمباری، لشکر کشی اور معاشی استحصال کے ہتھیاروں سے ہی لڑنا چاہتے ہیں تو ان کی مرضی ہے لیکن اتنی بات وہ ضرور یاد رکھیں کہ عقیدہ و ثقافت کی جنگ ان ہتھیاروں سے وقتی طو پر لڑی تو جا سکتی ہے مگر ان ہتھیاروں نے آج تک کسی کو ایسی جنگوں میں کامیابی سے ہمکنار نہیں کیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter