دارالعلوم کبیر والا کی وفیات

   
۲۰ جنوری ۲۰۰۵ء

شورکوٹ سے کبیر والا کا سفر ہوا اور دارالعلوم عیدگاہ میں حاضری دی جسے اس خطے میں ’’ام المدارس‘‘ کا مقام حاصل ہے۔ مولانا محمد انورؒ میرے دوستوں میں سے تھے اور بے تکلف ساتھی تھے۔ ان کے والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا علی محمدؒ اس دور میں جمعیۃ علمائے اسلام کے سرپرستوں اور دعاگو بزرگوں میں شمار ہوتے تھے جب میں جمعیۃ میں ایک متحرک کردار کے طور پر سرگرم ہوا کرتا تھا۔ دارالعلوم عیدگاہ کبیر والا کی کوکھ سے سینکڑوں دینی اداروں نے جنم لیا، ہزاروں علماء کرام نے تعلیم و تربیت حاصل کی، ہزاروں دینی کارکنوں کی ذہن سازی اور فکری تربیت اس ادارہ میں ہوئی، اور متعدد دینی تحریکات نے اس عظیم درسگاہ سے فکری خوراک اور روحانی قوت حاصل کی۔ مگر گزشتہ ایک سال سے اسے متعدد صدموں سے دوچار ہونا پڑا۔ حضرت مولانا مفتی غلام قادرؒ کی وفات کا غم ابھی تازہ تھا کہ دارالعلوم کے مہتمم مولانا محمد انور کے بھائی انتقال کر گئے، پھر خود مولانا محمد انورؒ کی وفات کا سانحہ پیش آیا اور اب دارالعلوم کے ایک پرانے استاد مولانا مشتاق احمدؒ بھی اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ جبکہ چند ماہ قبل وفات پانے والے مولانا منظور الحقؒ رحمانی کا تعلق بھی دارالعلوم کبیر والا سے تھا۔ وہ ایک عرصہ تک جمعیۃ علمائے اسلام کے مبلغ اور ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کے سفری نمائندہ رہے ہیں اور حضرت درخواستیؒ کے خصوصی خدام میں ان کا شمار ہوتا تھا۔

دارالعلوم کبیر والا کے نئے مہتمم مولانا ارشاد احمد اور مولانا محمد انور کے بھائی اور داماد سمیت دارالعلوم کے متعدد اساتذہ و طلبہ سے ملاقات ہوئی، سب سے اجتماعی تعزیت کی اور قبر پر بھی حاضری دی۔ اللہ تعالیٰ سب مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور پسماندگان و متوسلین کو صبر و حوصلہ کے ساتھ ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطاء فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter