مولانا حافظ محمد صادقؒ جمعیۃ علمائے اسلام کے پرانے اور سرگرم رہنماؤں میں سے تھے۔ سرگودھا میں جمعیۃ علمائے اسلام کو منظم کرنے اور پروان چڑھانے میں دن رات ایک کیا اور ساری جوانی جمعیۃ کی خدمت میں کھپا دی۔ اصل تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے تھا اور ان کے والد گرامی حضرت مولانا صالح محمدؒ جامعہ سراج العلوم سرگودھا کے اساتذہ میں سے تھے۔ جمعیۃ کے کارکنوں کی جو کھیپ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع سرگودھویؒ کی تربیت اور نگرانی میں تیار ہوئی، حافظ محمد صادقؒ اس گروپ کے ونگ کمانڈر تھے۔ ۱۹۶۷ء سے ۱۹۷۰ء تک جمعیۃ علمائے اسلام کا جو دور گزرا اور جس میں جمعیۃ قومی سیاست میں ایک باشعور اور حوصلہ مند سیاسی قوت کے طور پر متعارف ہوئی اس دور کے ملک بھر کے چند گنے چنے کارکنوں میں حافظ صاحب مرحوم کا شمار ہوتا ہے۔ حضرت درخواستیؒ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ جیسے بزرگوں کے ساتھ انہوں نے کام کیا اور ان کی خدمت میں رہنے کی سعادت حاصل کی۔
حافظ محمد صادق مرحوم اپنا کاروبار کرتے تھے اور جمعیۃ کا کام بھی کرتے تھے۔ آخر عمر میں حضرت مولانا سمیع الحق کے ساتھ زیادہ قرب رہا اور بڑھاپے کے باوجود جمعیۃ کے کسی بھی کام کے لیے مستعد رہتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل فالج کا حملہ ہوا اور صاحبِ فراش ہوگئے۔ اس دوران مجھے حاضری کا موقع ملا۔ مرکزی جامع مسجد سرگودھا کے مکان میں ہی رہائش پذیر تھے، دیکھ کر خوش ہوئے اور پرانی یادوں کا تذکرہ کرتے رہے۔ ستمبر کے وسط میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی ختم بخاری شریف کی تقریب میں شرکت کے لیے سفر کی تیاری کر رہے تھے کہ بیماری کا حملہ ہوا جس نے انہیں ہسپتال پہنچا دیا جہاں ۲۹ ستمبر کو ان کا انتقال ہوگیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وفات کے وقت ان کی عمر ۶۷ کے لگ بھگ تھی۔ مرحوم میرے پرانے دوستوں میں سے تھے، سالہا سال اکٹھے کام کیا، جماعتی زندگی میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے کئی معرکوں میں شریک رہے، سینکڑوں پروگراموں میں رفاقت رہی اور متعدد تحریکات میں مل جل کر حصہ لیا۔ وہ سیاسی کارکنوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جن کے لیے نظریہ اور مشن ہی سب کچھ ہوتا ہے اور ان کی زندگی کے پروگرام اور ترجیحات اسی کے گرد گھوما کرتی ہیں، یہ نسل اب ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیاں قبول کریں، جنت الفردوس میں انہیں جگہ عطا فرمائیں اور پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔