رمضان المبارک کے دوران مختلف سوالات سوشل میڈیا میں زیر بحث رہے جن میں سے بعض کے بارے میں راقم الحروف سے بھی کچھ دوستوں نے پوچھا، ان کے حوالہ سے جو گزارشات پیش کی گئیں ان کا ضروری خلاصہ نظر ثانی کے بعد قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
- ایک مضمون میں روزہ اور حج کو انفرادی عمل کہا گیا ہے جو درست نہیں ہے۔ بخاری شریف میں حضرت سلمۃ بن الاکوعؓ اور حضرت ربیع بنت معاذؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دور میں، جب رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے صرف عاشوراء کا روزہ فرض تھا اور رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد اس کی حیثیت نفلی روزے کی رہ گئی تھی، اپنا نمائندہ بھیج کر مدینہ منورہ کے گرد بستیوں میں اعلان کروایا تھا کہ جس نے روزہ رکھا ہے وہ روزہ مکمل کر لے اور جس نے نہیں رکھا وہ باقی دن کھائے پیے بغیر روزہ کی کیفیت میں گزارے ۔ حضرت ربیعؓ فرماتی ہیں کہ ہم عادت ڈالنے کے لیے بچوں کو بھی روزہ رکھوایا کرتی تھیں اور اگر انہیں روزہ زیادہ تنگ کرتا تو کھلونے دے کر انہیں بہلایا کرتی تھیں تاکہ وہ روزہ مکمل کر لیں۔ اس کا مطلب ہے کہ روزہ انفرادی عمل نہیں بلکہ اس حکم پر عملدرآمد کا اہتمام اور نگرانی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ بھوک کی مشقت پیش آنے پر بچوں کو روزہ تڑوایا نہیں جاتا تھا بلکہ بہلا پھسلا کر پورا کروایا جاتا تھا۔ جن بچوں پر روزہ فرض نہیں تھا ان کا روزہ مشقت کی وجہ سے نہیں تڑوایا جاتا تھا تو جن پر فرض ہے انہیں محض مشقت کے باعث روزے سے رخصت کیسے دی جا سکتی ہے؟
حج کے لیے جناب نبی اکرمؐ نے ۹۹ھ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو امیر حج بنا کر بھیجا تھا اور انہوں نے امیر کے طور پر حج کے سارے معاملات کی نگرانی کی تھی۔ پھر خلفاء راشدین کے دور میں خلیفہ وقت امیر حج کے طور پر حج کے سارے معاملات کی خود نگرانی کرتے تھے اور حج کے احکام و قوانین پر عمل کا اہتمام کرتے تھے۔ اس لیے فرض عبادات کو انفرادی قرار دے کر ان کی ادائیگی کے معاملات کو فرد کی صوابدید پر چھوڑ دینے کا تصور درست نہیں ہے۔ اسلام میں فرض عبادات پر عملدرآمد کی نگرانی اور اہتمام حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
- یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ فطرت کیا ہے؟ اگر فطرت کا تعین خود انسانوں نے کرنا ہے تو ذہن و فکر کے تفاوت کے باعث یہ قیامت تک نہ ہو سکے گا اور ہر دور اور طبقہ کے لوگ فطرت کے اپنے خود ساختہ مفہوم پر ہی لڑتے رہیں گے۔ فطرت کا مفہوم بھی فطرت کو پیدا کرنے والے خدا اور اس کے رسول کے ارشادات کی روشنی میں ہی طے کیا جائے گا۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے صریح ارشادات ہیں اور دوسری طرف انسانی فکر نارسا کے نامکمل نتائج ہیں اور کچھ لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کے ارشادات کو انسانی فکر نارسا کے دائرے میں لانے اور اس کے تابع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قرآن کریم نے اسی کیفیت کو یوں بیان کیا ہے ’’ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس ولقد جاء ھم من ربہم الھدٰی‘‘۔ انسانی فکر انفرادی ہو، طبقاتی ہو یا اجتماعی کبھی بھی اپنی طے کردہ باتوں کو قطعی قرار نہیں دے سکتی، جبکہ قرآن و سنت کی نصوص صریحہ قطعی ہیں اور اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے سے ذہنی خلفشار اور فکری انار کی جنم لیتی ہے۔
- یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ فقہاء کرام کی آرا سے اختلاف ہوتا آ رہا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا۔ یہ درست ہے مگر اختلاف دلیل اور استدلال سے ہوتا ہے۔ نفی، طنز، تحقیر اور استہزا کے لہجے میں کیا جانے والا اختلاف خواہ کوئی بھی کرے، علم کی بجائے جہالت کی علامت ہوتا ہے۔ چند افراد کی طرف سے امت کے جمہور فقہاء کرام سے اختلاف کے نام پر ان کی تحقیر اور طنز و استہزا کا جو کھیل جاری ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے اور اسے محض اختلاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فقہاء کرام کے پورے طبقے کی نفی کر کے دین کی تعبیر و تشریح کا جو نیا ڈھانچہ تشکیل دینے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے وہ کسی طرح بھی قابل فہم اور قابل قبول نہیں ہے۔ ایک طرف امت کے فقہاء کرام کی عظیم جماعت ہے جو آج بھی امت مسلمہ میں غالب جمہور کی حیثیت رکھتی ہے، دوسری طرف گنتی کے چند افراد ہیں جو طنز و استہزا، تحقیر اور تعلی کے لہجے میں اپنی بات ہر صورت منوانے کی ضد کر رہے ہیں، اسے صرف اختلاف کہہ کے کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟
اس کے ساتھ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اختلاف کے دائرہ کے ساتھ ساتھ اس کے درجہ کا بھی لحاظ ہوتا ہے۔ عدالت میں کیس پر بحث کرنے والا ایک وکیل وہ ہے جو ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کا جج رہا ہے اور اب ریٹائر ہو کر پریکٹس کر رہا ہے، اور دوسرا وکیل ڈگری لے کر سیدھا عدالت میں آ گیا ہے۔ کوئی بھی عدالت ان دونوں وکیلوں کے دلائل اور استدلال کو ایک درجہ میں نہیں رکھے گی، اور اگر سب کو ایک درجہ میں رکھا جائے تو اسپیشلائزیشن اور تجربے کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔ ابوحنیفہؒ، مالکؒؒ شافعیؒ، احمد بن حنبلؒ، غزالیؒ، ابن تیمیہؒ، مجدد الف ثانیؒ، اور شاہ ولی اللہؒ کی سطح کے لوگوں سے اختلاف کے لیے علم و تفقہ اور دیانت و تقویٰ کا معیار بھی اسی مناسبت سے چاہیے، ورنہ اس مباحثہ کا نتیجہ اس سے مختلف نہیں ہو گا جو سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس اور صرف ڈگری بردار وکیل کے درمیان بحث کا ہوتا ہے۔ اس لیے اس نتیجے پر جھنجھلا کر طنز و تحقیر کا لہجہ تیز کر دینے کی بجائے بحث کرنے والوں کو اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
- ایک محترم کا یہ ارشاد نظر سے گزرا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خطاب کیا ہے اس لیے بندوں کو یہ خطاب خود سمجھنا چاہیے اور قرآن کریم کا براہ راست مطالعہ کرنا چاہیے۔ تعجب ہوا کہ قرآن کریم تو جناب رسول اکرمؐ کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ ’’ویعلمہم الکتاب‘‘ وہ اپنے امتیوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیتے ہیں اور ’’لتبین للناس ما نزل الیہم‘‘ آپؐ لوگوں کے لیے قرآن کریم کے ضروری مقامات کی وضاحت خود کرتے ہیں۔ اب صحابہ کرامؓ تو فصاحت و بلاغت کے آئیڈیل دور کے عرب ہونے کے باوجود قرآن کریم کی تعلیم جناب رسول اللہؐ سے حاصل کرتے تھے اور ان کے لیے قرآن کریم کے ضروری مقامات کی وضاحت بھی آنحضرتؐ کی ذمہ داری تھی، مگر دور صحابہ کرامؓ سے تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد پاکستان کے عجمی مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ قرآن کریم کا براہ راست مطالعہ کریں، جو ان کی سمجھ میں آ جائے اسے اللہ تعالیٰ کی منشا سمجھیں اور جی چاہے تو اس پر عمل بھی کر لیں۔ خدا جانے یہ ’’دانش‘‘ کا کون سا ’’برانڈ‘‘ ہے؟
- حکمت و دانش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا منبع انسان کی عقل و فہم ہے اس لیے انسان جو کچھ سوچتا ہے وہی دانش ہے، جبکہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ ’’ولقد اٰتینا لقمان الحکمۃ‘‘۔ حضرت لقمان علیہ السلام کو حکمت ہم نے عطا کی تھی۔ اور اس کی کچھ باتوں کا قرآن کریم نے تذکرہ بھی کیا ہے کہ حکمت کا مطلب یہ ہے کہ (۱) شرک نہیں کرنا (۲) ماں باپ کی فرمانبرداری کرنا (۳) موت کا یقین اور اس کا خوف ہر وقت دل میں رکھنا (۴) نماز قائم کرنا (۵) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دینا (۶) مصائب پر صبر کرنا (۷) لوگوں کے ساتھ ترش روئی سے پیش نہیں آنا (۸) زمین پر اکڑ کر نہیں چلنا وغیر ذالک۔
اسی طرح قرآن کریم نے جناب نبی کریمؐ کے بارے میں فرمایا کہ وہ قرآن کریم کے ساتھ اپنے ساتھیوں کو حکمت کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمت و دانش کا صحیح معیار وہی ارشادات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نازل فرمائے ہیں اور جن کی تعلیم جناب نبی کریمؐ نے دی ہے۔ جبکہ قرآن و سنت کو نظر انداز کر کے سامنے لائی جانے والی باتوں کی قرآن کریم یوں تعبیر کرتا ہے کہ ’’ولا تتبع اھواءھم عما جاءک من الحق‘‘ آپ کے پاس جو حق آ چکا ہے اس کے مقابلہ میں لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے۔
- یہ کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہیے اور بندے کو اپنے رب کے ساتھ براہ راست تعلق قائم کرنا چاہیے۔ جبکہ قرآن کریم اس کے برعکس بندوں کو ہی ہدایت اور حق کا معیار اور ذریعہ قرار دے رہا ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں دعا سکھائی کہ ‘‘اھدنا الصراط المستقیم‘‘۔ اور صراط مستقیم کی وضاحت اسی سورت میں کر دی کہ یہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام نازل ہوا ہے۔ پھر قرآن کریم میں ہی انعام یافتہ لوگوں کے چار درجات بیان کیے ہیں (۱) انبیاء کرام علیہم السلام (۲) صدیقین (۳) شہداء اور (۴) صالحین۔ گویا ہدایت کا معیار اور ذریعہ یہ طبقات ہیں جو بندوں پر ہی مشتمل ہیں۔ ایک جگہ فرمایا ‘‘فبھداہم اقتدہ‘‘ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے آپ ان لوگوں کی اقتدا اور پیروی کریں۔ ایک جگہ فرمایا کہ ’’ویتبع غیر سبیل المؤمنین‘‘ جس نے مسلمانوں کا راستہ یعنی امت کا اجماعی تعامل چھوڑ دیا وہ جہنم کے راستے پر ہیں۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’واتبع سبیل من اناب الیّ‘‘ جو شخص میری طرف جھک گیا ہے تم اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہو۔ ان سب ارشادات میں ہدایت کا معیار اور ذریعہ ’’بندوں‘‘ کو ہی قرار دیا گیا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ تک رسائی اس کے نیک اور مقبول بندوں کی راہنمائی اور پیروی کے بغیر ممکن کیسے ہے؟
- جناب نبی کریمؐ نے دین کے معاملات میں لوگوں کو آسانی اور ’’یسر‘‘ مہیا کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور خود بھی آنحضرتؐ کا معمول تھا کہ دو باتوں میں سے ایک کو اختیار کرنا پڑتا تو آسان پہلو کو ترجیح دیتے تھے۔ مگر یہ بات غور طلب ہے کہ یسر اور آسانی کا مطلب اور اس کی حد کیا ہے؟ یسر کا مطلب کسی حکم سے چھٹی دے دینا نہیں بلکہ اس حکم کو عمل کرنے والے کی وسعت و طاقت کے دائرے میں لانا ہے۔ مثلاً نماز کے بارے میں ہے کہ اگر کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کر پڑھ لو، بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتے تو لیٹ کر پڑھ لو، اگر لیٹ کر بھی حرکت نہیں کر سکتے تو اشارے سے پڑھ لو۔ یعنی جس کیفیت میں بھی پڑھ سکتے ہو اس طرح پڑھو مگر پڑھو ضرور۔ ہاں اس کے بعد اگر ایسی کیفیت ہو کہ کسی صورت میں بھی نہیں پڑھ سکتے تو قضا کر سکتے ہو۔ مگر یسر کا یہ مطلب نہیں کہ گھٹنے میں درد ہو رہا ہے اور سجدہ میں جانے اور اٹھنے میں مشقت پیش آرہی ہے تو نماز کی ہی چھٹی کرا دی جائے۔ یسر احکام شرعیہ اور انسانی استطاعت میں توازن پیدا کرنے کا نام ہے، احکام سے پیچھا چھڑانے کے لیے بہانے تلاش کرنے کا نام نہیں۔ اس کی سادہ سی مثال ہے کہ ہر پٹرول پمپ کے کنارے پر کوئی صاحب ہوائی سلنڈر لیے بیٹھے ہوتے ہیں جن سے گاڑیوں والے گاڑی کے پہیوں کی ہوا چیک کرواتے ہیں اور اس میں توازن قائم کرواتے ہیں۔ وہ شخص جس پہیے میں ہوا ضرورت سے زیادہ ہو اسے کم کر دیتا ہے اور جس پہیے میں ہوا ضرورت سے کم ہو اس میں مزید ہوا بھر دیتا ہے تاکہ پہیوں کا توازن درست رہے اور گاڑی صحیح چلتی رہے۔ کوئی پہیہ ہوا کے زیادہ ہونے کی وجہ سے زیادہ ٹائیٹ ہو گیا ہے اور گاڑی کو صحیح چلنے میں دشواری پیش آرہی ہے تو وہ شخص یہ کہہ کر ساری ہوا نکال نہیں دے گا کہ سارا فتور اس ہوا کا ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال اور بھی دیکھ لیں کہ اگر کسی شخص کی شلوار کا ازار بند زیادہ سخت باندھا گیا ہے اور اسے چلنے میں دشواری ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ گرہ کو تھوڑا ڈھیلا کر دیا جائے، یہ نہیں کہ سرے سے ازار بند کو ہی کاٹ کر سربازار لوگوں کو تماشہ دکھایا جائے۔
- امام نسائی نے ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خصوصیات کے باب میں یہ روایت نقل کی ہے کہ جب خارجیوں نے حضرت علیؓ سے بغاوت کر کے علیحدگی اختیار کر لی تو حضرت عبد اللہ بن عباسؓ حضرت علیؓ سے اجازت لے کر ان سے مذاکرات کے لیے تشریف لے گئے۔ خوارج کے دعوے اور موقف کی بنیاد قرآن کریم کی چند آیات کے ظاہری مفہوم پر تھی، اس لیے حضرت ابن عباسؓ نے ان سے گفتگو کے آغاز میں ایک اصولی بات کی کہ میں تمہارے پاس جناب رسول اللہؐ کے صحابہ کرام، مہاجرین و انصار اور آنحضرتؐ کے چچا زاد بھائی اور داماد کی طرف سے آیا ہوں۔ ’’علیہم نزل القرآن وھم اعرف بتاویلہ منکم ولیس فیکم منہم احد‘‘ قرآن ان پر نازل ہوا تھا اور وہ قرآن کریم کے مفہوم اور تفسیر و تاویل کو تم سے زیادہ جانتے ہیں جبکہ تمہارے درمیان ان میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے۔ اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے خوارج کے ساتھ متنازعہ مسائل پر گفتگو کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی نئی فکر پیش کرنے والوں کے ساتھ مسائل پر گفتگو سے قبل اصول پر بات ہونی چاہیے اور اصولی بنیادوں کو واضح ہو جانا چاہیے کیونکہ اگر قرآن و سنت کے احکام و مسائل کی تعبیر و تشریح کا معیار اور اصول ہی الگ الگ ہوں تو محض مسائل و احکام پر بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اس سے الجھن میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
- دنیا کے ہر عدالتی اور قانونی نظام میں دستور و قانون کی تشریح کا معیار اور اس پر فیصلہ کرنے کی اتھارٹی طے شدہ ہے جس سے ہٹ کر کسی کی بات نہیں سنی جاتی۔ مثلا پاکستان میں اگر کوئی شخص کسی قانون کی تشریح کے حوالہ سے سیشن کورٹ میں درخواست دائر کرے تو وہ یہ کہہ کر واپس کر دی جاتی ہے کہ یہ عدالت اس مقدمہ کو سننے کی مجاز نہیں ہے، یہ کام ہائیکورٹ کا ہے اس لیے کہ قانون کی تشریح کرنا ہائیکورٹ کا اختیار ہے۔ اسی طرح دستور کی کسی شق کی تعبیر و تشریح کے بارے میں ہائیکورٹ میں درخواست پیش کی جائے تو وہ بھی ان ریمارکس کے ساتھ واپس ہو جاتی ہے کہ دستور کی تعبیر و تشریح کرنا سپریم کورٹ کا کام ہے، ہائیکورٹ اس کا مجاز نہیں ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کا سٹیٹس ہائیکورٹ کا ہے، اس میں سودی نظام کے بارے میں رٹ پر یہ بحث کئی ماہ جاری رہی کہ چونکہ سودی نظام کے خاتمہ کا دستور میں تذکرہ ہے اس لیے یہ دستوری مسئلہ ہے اور اس پر فیصلہ کرنا بھی سپریم کورٹ کا کام ہے، وفاقی شرعی عدالت اس کی مجاز نہیں ہے۔ حالانکہ یہ کیس دوبارہ سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے ہی وفاقی شرعی عدالت کو بھیجا ہوا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ کسی مجاز عدالت میں قانون یا دستور کی تعبیر و تشریح پر بحث کرنا اور اس پر دلائل پیش کرنا بھی ہر شخص کا کام نہیں ہے اس کے لیے ڈگری، بار کا لائسنس اور کئی سالوں کا تجربہ ضروری سمجھا جاتا ہے، اس کے بغیر کسی کو بحث میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مگر اسلامی فقہ اور قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کو یار لوگوں نے ’’ہائیڈ پارک کارنر‘‘ سمجھ رکھا ہے کہ جس شخص کا جس وقت جو جی چاہے بول دے اور پھر وہ یہ شکوہ بھی کرے کہ لوگ میری بات کیوں نہیں سن رہے، میں بھی تو قرآن کریم کی ہی تشریح کر رہا ہوں۔