نظریہ پاکستان کے محافظ ‒ جامع مسجدچنیوٹ پر پولیس یلغار ‒ اشیاء صرف کی گرانی

   
۲۵ مئی ۱۹۷۳ء

صوبہ سرحد میں غیر جمہوری طور پر اقلیتی گروپ کو اقتدار کی کرسی پر بٹھا دیا گیا تو یار لوگوں نے کہا کہ اب صوبہ میں نظریہ پاکستان کے علمبرداروں کی حکومت قائم ہوگئی ہے، ملک اور نظریہ پاکستان کو اب کوئی خطرہ نہیں رہا۔ مگر نظریہ پاکستان کے ان علمبرداروں نے کرسی پر بیٹھتے ہی جو احکامات جاری کیے ان میں

  • قومی لباس کو سرکاری لباس قرار دینے کے بارہ میں مولانا مفتی محمود کے تاریخی فیصلہ کی تنسیخ،
  • سکولوں میں قرآن کریم کی تعلیم کے لیے اساتذہ مقرر کرنے کے فیصلہ کی واپسی،
  • اور ہوٹلوں میں شراب کے پرمٹ جاری کرنے اور شراب کے بار کھولنے کے فیصلے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔

قوم کو ان نام نہاد محافظین پاکستان سے یہ سوال کرنے کا حق حاصل ہے کہ کیا یہی تمہارا نظریہ پاکستان ہے؟

چنیوٹ کی جامع مسجد پر پولیس کی یلغار

چنیوٹ کے مجاہد عالم دین حضرت مولانا منظور احمد صاحب چنیوٹی کی باطل شکن سرگرمیاں ایک عرصہ سے ربوہ کے ارباب حل و عقد اور ان کے معاونین و انصار کو کھٹک رہی ہیں۔ مولانا موصوف پر مقدمات کی بھرمار، داخلہ بندی اور زبان بندی کے سلسلے اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ربوہ اینڈ کمپنی چنیوٹ سے باطل و ارتداد کے خلاف اٹھنے والی اس مضبوط آواز کو ہمیشہ کے لیے دبا دینا چاہتی ہے اور اس کے لیے وہ اپنی تمام قوت و وسائل استعمال کر رہی ہے۔

مقدمات اور پابندیوں کے ذریعہ اس آواز کو دبانے میں ناکامی کے بعد اب دوسرا حربہ یہ آزمایا گیا ہے کہ مولانا موصوف چنیوٹ کی جس جامع مسجد میں مدت سے خطبہ ارشاد فرماتے رہے ہیں، اسے محکمہ اوقاف نے اپنی تحویل میں لے کر مولانا صاحب کو برطرف کر دیا ہے۔ اور ۱۱ مئی کو پولیس کی سنگینوں نے نئے سرکاری مولوی صاحب کو مسجد پر قبضہ دلا کر ظلم و ستم کی تاریخ میں ایک اور باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ لیکن کیا ان حربوں سے حق و صداقت کی آواز کو دبایا جا سکے گا؟

ہم ارباب اختیار سے گزارش کریں گے کہ خدارا عقل کے ناخن لیں۔ ربوہ کے عزائم کی پشت پناہی اگر ماضی کے حکمرانوں کو ہضم نہیں ہو سکی تو سازشوں کا یہ عفریت آپ کو بھی نگلنے سے دریغ نہیں کرے گا۔ لیکن اگر ہمارے ارباب اقتدار ہی دوست اور دشمن کی تمیز سے محروم ہو چکے ہیں تو اس پر سوائے ماتم کے اور کیا ہو سکتا ہے؟

اشیاء صرف کی گرانی

عام استعمال کی اشیاء کی قیمتیں ہیں کہ بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور اگر ایک دفعہ بڑھ جائیں تو واپسی کا نام نہیں لیتیں۔ غلہ، چینی، دودھ، کپڑا اور دیگر اشیائے صرف عوام کی قوت خرید کے لیے چیلنج بن چکی ہیں۔ اور اب تو ہمارے وفاقی وزیر خزانہ نے بھی اعتراف کر لیا ہے کہ اشیائے صرف کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک اس مسئلہ نے عوام کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے اور یہ سوال ایک سے زیادہ بحرانوں کو جنم دے چکا ہے لیکن ابھی تک اس سلسلہ میں کوئی تسلی بخش قدم نہیں اٹھایا جا سکا۔ سابقہ حکومتوں کے بارے میں تو یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ منتخب حکومتیں نہیں تھیں اور عوام کے محاسبہ سے بے نیاز ہو کر بعض طبقات کے مفادات کے لیے کام کرتی تھیں۔ مگر موجودہ حکومت تو عوامی حکومت ہے اور اس کا انتخابی نعرہ ہی یہ تھا کہ اجارہ داریوں کا خاتمہ کر کے عوام کو براہ راست کاروبارِ زندگی میں شریک کیا جائے گا۔ اور اب صورتحال یہ ہے کہ اجارہ دار بدل گئے ہیں۔ اگر پرانے اجارہ دار قوم کو ایک ہاتھ سے لوٹتے تھے تو نئے اجارہ داروں نے دونوں ہاتھوں سے مال سمیٹنا شروع کر رکھا ہے۔ ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ اور اجارہ داری ہی اشیائے صرف کی گرانی کا باعث ہیں اور یہی کاروبار آج کل زیادہ چمک رہا ہے۔ اور دروغ بر گردن راوی کہ اس مذموم کاروبار کی بیخ کنی اس لیے ناممکن ہوتی چلی جا رہی ہے کہ

اس میں کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں

ہم وزیرخزانہ سے درخواست کریں گے کہ صرف اعتراف اور وعدہ وعید سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، اس کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا ایسا ہوگا!

   
2016ء سے
Flag Counter