مولانا قاضی عبد اللطیف پر بغاوت کا مقدمہ؟

   
۲۵ اگست ۱۹۸۹ء

روزنامہ جنگ لاہور ۲۷ اگست کی ایک خبر کے مطابق وفاقی وزارت قانون جمعیۃ علماء اسلام صوبہ سرحد کے امیر مولانا قاضی عبد اللطیف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کا جائزہ لے رہی ہے۔ خبر کے مطابق قاضی صاحب موصوف نے گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فوج کو موجودہ صورتحال میں مداخلت کی دعوت دی تھی جس کا وفاقی حکومت نے سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔

جہاں تک مولانا قاضی عبد اللطیف کی مذکورہ پریس کانفرنس کا تعلق ہے اس کے حوالہ سے قاضی صاحب کی طرف یہ بات منسوب کرنا غلط ہے کہ انہوں نے فوج کو اپنی طرف سے مداخلت کی دعوت دی ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس پریس کانفرنس میں یہ کہا تھا کہ بیگم بے نظیر بھٹو نے فوج کو تمغۂ جمہوریت سے نوازا ہے اس لیے فوج کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ بگڑتے ہوئے حالات میں جمہوریت کو بچانے کے لیے کردار ادا کرے۔ اور یہ کردار جس کا تقاضہ مولانا قاضی عبد اللطیف نے فوج سے کیا ہے خود بیگم بے نظیر بھٹو کا تجویز کردہ ہے۔ اس لیے اگر یہ بغاوت ہے تو اس کا مقدمہ سب سے پہلے بیگم بے نظیر بھٹو کے خلاف درج ہونا چاہیے۔

ہمیں وفاقی وزارت قانون کے بزرجمہروں پر تعجب ہے کہ انہیں مخصوص اقلیتی نشستوں کے انتخاب کے حوالہ سے قادیانیوں کا دستور کو تسلیم کرنے سے انکار تو نظر نہیں آیا اور مقتدر سیاسی راہنماؤں کی طرف سے اسلامی حدود و قوانین کو وحشیانہ اور ظالمانہ قرار دینے میں بھی دستور سے بغاوت کے جراثیم دکھائی نہیں دیے مگر مولانا قاضی عبد اللطیف نے فوج کو تمغۂ جمہوریت سے نوازے جانے پر جس منطقی ردعمل کا اظہار کیا ہے وہ ان کے نزدیک بغاوت کے مقدمہ کی بنیاد قرار پا گیا ہے۔

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
   
2016ء سے
Flag Counter