گزشتہ دنوں جامعہ عثمانیہ پشاور، جامعہ انوار القرآن کراچی اور بعض دیگر مدارس میں اساتذہ اور طلبہ کی مختلف نشستوں میں ’’علم العقائد کا مروّجہ تعلیمی نصاب اور عصر حاضر کا چیلنج‘‘ کے عنوان پر گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا، ان کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔
علم العقائد اور علم الکلام کے حوالے سے اس وقت جو مواد ہمارے ہاں درسِ نظامی کے نصاب میں پڑھایا جاتا ہے وہ اس بحث و مباحثہ کی ایک ارتقائی صورت ہے جس کا صحابہ کرامؓ کے ہاں عمومی طور پر کوئی وجود نہیں تھا۔ اور اس کا آغاز اس وقت ہوا جب اسلام کا دائرہ مختلف جہات میں پھیلنے کے ساتھ ساتھ ایرانی، یونانی، قبطی اور ہندی فلسفوں سے مسلمانوں کا تعارف شروع ہوا اور ان فلسفوں کے حوالے سے پیدا ہونے والے شکوک و سوالات نے مسلمان علماء کو معقولات کی طرف متوجہ کیا۔
ابتدائی دور میں عقیدہ صرف اس بات کا نام تھا کہ قرآن کریم نے ایک بات کہہ دی ہے یا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات ارشاد فرما دی ہے، بس اسی کو بے چون و چرا مان لینے کا نام عقیدہ ہے۔ ان عقائد کے حوالے سے صحابہ کرامؓ کو اس سے زیادہ کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی تھی کہ قرآن کریم نے یا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بات فرما دی ہے، اور نہ ہی انہیں اس بات سے کوئی غرض ہوتی تھی کہ وہ بات ہماری عقل و فہم کے دائرے میں آتی ہے یا نہیں، یا ہمارے محسوسات و مشاہدات اس کو قبول کرتے ہیں یا نہیں، اور وہ ان باتوں سے بے نیاز ہو کر قرآن و حدیث کی تصریحات پر ایمان رکھتے تھے بلکہ معقولات کے حوالے سے عقائد پر بحث و مباحثہ کو بھی پسند نہیں کیا کرتے تھے۔ البتہ بیرونی فلسفوں کے در آنے سے جب عقلی سوالات کھڑے ہوئے اور علماء اسلام کو ان سوالات کے جواب میں اسلامی عقائد کی وضاحت کی ضرورت پیش آئی تو صحابہ کرامؓ کے آخری دور میں اس قسم کے مباحثوں کا آغاز ہوا اور تابعین و اتباع تابعین کے دور میں یہ مباحث اپنے عروج پر نظر آتے ہیں۔
معقولات کے حوالے سے جب عقائد کے مختلف پہلوؤں پر بحث و مباحثہ شروع ہوا تو ایک دور تک اس کے مسائل کی نوعیت اس طرح تھی کہ
- اللہ تعالیٰ کی رؤیت ممکن ہے یا نہیں؟
- اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا باہمی تعلق کیا ہے؟
- قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے یا اس کی مخلوق ہے؟
- کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے کوئی مسلمان ایمان کے دائرے سے نکل جاتا ہے یا نہیں؟
- جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو جانے پر ان کی نیابت امامت کے حوالے سے ہوگی یا خلافت کے عنوان سے ہوگی؟ وغیر ذلک۔
اس دور میں اس علم یا فن کو ’’فقہ‘‘ کا حصہ تصور کیا جاتا تھا اور فقہ صرف احکام و قوانین تک محدود نہیں ہوتی تھی، بلکہ ایمانیات یعنی عقائد اور وجدانیات یعنی تصوف و سلوک بھی فقہ ہی کے شعبے شمار ہوتے تھے- چنانچہ عقائد پر حضرت امام ابوحنیفہؒ کا رسالہ ’’الفقہ الاکبر‘‘ کہلاتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ عقائد کے اس عقلی مباحثے کو علم التوحید والصفات، علم النظر والاستدلال اور علم اصول الدین بھی کہا جاتا تھا۔ چونکہ ان مسائل پر عام طور پر بحث و مباحثہ ہوتا تھا اور اس مباحثہ میں معتزلہ پیش پیش ہوتے تھے، اس لیے امام شہرستانیؒ کے بقول سب سے پہلے معتزلہ نے اسے ’’علم الکلام‘‘ کا نام دیا۔ جبکہ اہل سنت کے اکابر علماء نے اسے پسند نہیں کیا، چنانچہ اصول فقہ کی متداول کتاب ’’التوضیح والتلویح‘‘ کے محشی نے نقل کیا ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عمرو بن عبید کو تباہ کرے کہ اس نے کلام کا دروازہ کھولا ہے، امام ابو یوسفؒ نے فتویٰ دیا کہ متکلم کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے، امام احمد بن حنبلؒ نے اس کی مذمت کی، اور امام شافعیؒ نے اسے شرک کے بعد بدترین برائی سے تعبیر کیا۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ بحث و مباحثہ آگے بڑھتا گیا اور ان علماء اسلام نے بھی جو اس بحث و کلام کو پسند نہیں کرتے تھے، اسلامی عقائد کی عقلی وضاحت اور اثبات کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے اسے اپنے علمی معمولات میں شامل کر لیا، چنانچہ علم الکلام کے نام سے ایک پورا نصاب اب ہمارے دینی مدارس میں پڑھایا جاتا ہے۔
قرآن و حدیث کے بیان کردہ عقائد پر عقلی بحث و مباحثہ اور ان کی عقلی توجیہات و تعبیرات کے نتیجے میں اس دور میں جو فرقے وجود میں آئے، ان میں معتزلہ، جبریہ، قدریہ، مرجئہ، خوارج، اہلِ تشیع اور اہلِ سنت وغیرہ کے نام معروف ہیں۔ ان میں سے اہلِ سنت اور اہلِ تشیع اب تک اپنے پورے تعارف کے ساتھ موجود چلے آ رہے ہیں جبکہ باقی فرقوں کا اپنے نام اور تعارف کے ساتھ وجود نظر نہیں آتا، البتہ ان کا ذہن اور سوچ کا انداز مختلف حوالوں سے اب بھی اس سابقہ تعارف اور تشخص کے بغیر امت میں پایا جاتا ہے۔ ان میں سے اہل السنۃ والجماعۃ خود کو امت کا اجتماعی دھارا قرار دیتے ہیں جن کی بنیاد دو اصولوں پر ہے:
- ایک یہ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دینیات بالخصوص عقائد کی کیا صورت ارشاد فرمائی ہے۔
- اور دوسری یہ کہ صحابہ کرامؓ نے اجتماعی طور پر اسے کیسے سمجھا ہے؟
اہلِ سنت کے نزدیک یہی وہ دو معیار ہیں جن کی بنیاد پر عقیدہ سمیت دین کی کسی بھی بات کو صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے اور اسی وجہ سے وہ اہل السنۃ والجماعۃ کہلاتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے مقدمہ میں اہلِ سنت کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ اہلِ سنت وہ ہیں جو قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر اسی صورت میں ایمان رکھتے ہیں جیسا کہ انہوں نے فرمایا ہے۔ اور وہ ان ارشادات کی عقلی توجیہ کو ضروری نہیں سمجھتے اور نہ ہی عقلی توجیہ و تعبیر کو قرآن و سنت کے کسی فرمان پر یقین کا معیار تصور کرتے ہیں، البتہ جہاں کسی عقیدہ کی وضاحت یا کسی عقلی سوال کے جواب کے لیے ضرورت محسوس کرتے ہیں، وہاں وضاحت کی حد تک اس عقلی بحث و مباحثہ کو ناجائز بھی نہیں سمجھتے اور ضرورت کے مطابق اس مباحثہ میں شریک ہوتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ قرآن و سنت کی تصریحات کو ان کی ظاہری صورت میں تسلیم کرنے والے تمام لوگ اہلِ سنت ہیں، البتہ ظاہری صورت پر فی الجملہ ایمان رکھنے کے بعد اس کی تعبیر و توضیح میں اختلافات خود اہلِ سنت کے اندر بھی موجود ہیں اور ایسے کسی اختلاف سے کوئی شخص اہلِ سنت کے دائرے سے خارج نہیں ہوتا۔ اہلِ سنت کے دائرے میں عقائد کی ایسی تعبیرات، تشریحات، توجیہات اور توضیحات کے حوالے سے جو مختلف مکاتب فکر موجود چلے آ رہے ہیں، ان میں اشاعرہ، ماتریدیہ اور ظواہر کے گروہ متعارف ہیں جو امام ابو الحسن اشعری، امام ابو منصور ماتریدی اور امام ابن حزم ظاہری کے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں عقائد کی تعبیر و تشریح کرتے ہیں اور بہت سے امور میں ان کے درمیان اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔
یہ تو مختصر تعارف ہے اس علم الکلام کا جو ہمارے دینی نصاب کا باقاعدہ حصہ ہے اور اب تک انہی خطوط پر استوار ہے جن پر صدیوں قبل اس کی تشکیل ہوئی تھی۔ اب ہم ان تبدیلیوں اور ان کے حوالے سے پیدا ہونے والی ضروریات کی طرف آتے ہیں جو گزشتہ تین صدیوں کے دوران بتدریج رونما ہوئی ہیں اور ہمارے خیال میں ہم اپنے تنزل اور غلامی کے اس دور میں ’’تحفظات‘‘ کے دائرے میں محصور ہو جانے کی وجہ سے ان کی طرف توجہ نہیں دے سکے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا ’’علم العقائد والکلام‘‘ ان تبدیلیوں اور ضروریات کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کر سکا اور ہم آج کے عالمی تناظر میں ایمانیات و عقائد کے ضروری تقاضوں کے ساتھ اس کو ہم آہنگ نہیں پاتے جس کی طرف مختلف اصحاب فکر و دانش ہمیں وقتاً فوقتاً توجہ دلاتے رہتے ہیں، لیکن ہم ابھی تک اس کا پوری طرح احساس و ادراک نہیں کر پا رہے۔
ہمارے ’’علم العقائد والکلام‘‘ کے بیشتر مباحث یونانی فلسفہ اور اس کے ساتھ ساتھ ایرانی، ہندی اور قبطی فلسفہ کے ساتھ ہمارے علمی تعارف کی پیداوار ہیں اور ہمارے ہاں اسے ’’معقولات‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے، جبکہ خود اس فلسفہ کی اپنی ہیئت تبدیل ہو چکی ہے اور ارتقائی مراحل نے اس کی شکل و صورت تک بدل کر رکھ دی ہے۔ مثلاً ماضی میں سائنس کو معقولات کا شعبہ تصور کیا جاتا تھا اور وہ فلسفہ کا حصہ سمجھی جاتی تھی، چنانچہ ہمارے ہاں فلکیات اور طبعیات کو معقولات ہی کے ایک حصے کے طور پر پڑھایا جاتا تھا۔ جبکہ سائنس ایک عرصہ سے فلسفہ و معقولات سے الگ ہو کر ایک مستقل علم کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اب وہ معقولات اور فلسفہ کا حصہ نہیں ہے بلکہ مشاہدات و محسوسات کے دائرے میں شامل ہے، لیکن ہم درسِ نظامی کے نصاب میں اس تبدیلی کا ابھی تک ادراک نہیں کر سکے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ فلسفہ اور سائنس کی علیحدگی کے باعث عقائد اور ان کی تعبیرات کے ضمن میں جو نئے سوالات پیدا ہوئے ہیں، ہم ان کا جواب دینے کی سرے سے ضرورت محسوس نہیں کر رہے۔ مثلاً فلکیات و طبیعیات جب تک فلسفہ و معقولات کا حصہ تصور ہوتے تھے، ان کی کسی بات سے قرآن و سنت کے کسی ارشاد کے تعارض و تضاد کی صورت میں ہم آسانی سے یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ ہماری عقل کا دائرہ محدود ہے، جبکہ معقولات کا دائرہ اور اس کے امکانات بہت وسیع ہیں، اس لیے کوئی بات اگر ہماری معروضی اور محدود عقل کے دائرے میں نہیں آتی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ معقولات کے وسیع دائرے اور اس کے مستقبل کے امکانات سے بھی متصادم ہے۔ اور ہمارا یہ جواب نہ صرف یہ کہ اطمینان کی صورت پیدا کر دیتا تھا بلکہ بہت سی صورتوں میں عملاً بھی ایسا ہو جاتا تھا۔ لیکن سائنس کے عقل و فلسفہ کے دائرے سے نکل کر مشاہدات و محسوسات اور تجربات کے زمرہ میں شامل ہو جانے کے بعد یہ جواب کافی نہیں ہے اور ہمیں ایسے سوالات کے جوابات کے لیے کوئی اور اسلوب اختیار کرنا ہوگا اور میری طالب علمانہ رائے میں آج کے دور میں ہمارے علمِ عقائد کے لیے یہ وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ فلسفہ اور سائنس کے پہلو بہ پہلو ایک اور علم بھی بہت سے سوالات لیے ہمارے سامنے کھڑا ہے اور وہ عمرانیات اور سوشیالوجی کا علم ہے۔ جس نے اس قدر ترقی کی ہے کہ جدید تہذیب اور گلوبل سولائزیشن میں اس نے وحی اور آسمانی تعلیمات کی جگہ حاصل کر رکھی ہے اور انسانی سوسائٹی کے بیشتر مسائل اب اسی کے حوالے سے طے ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں اس سے بے اعتنائی کا یہ عالم ہے کہ ابن خلدونؒ اور شاہ ولی اللہؒ کے بعد اس درجہ کا کوئی اور عالم نظر نہیں آتا جس نے عمرانیات کو باقاعدہ موضوع بنا کر اس پر بحث کی ہو اور ہمارے دینی حلقوں کو اس علم سے متعارف کرانے کی کوشش کی ہو۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کے ذہنوں میں عمرانیات اور سوسائٹی کے ارتقا کے حوالے سے سوالات اور شکوک کا ایک جنگل آباد ہے مگر ہمارے دینی حلقوں کے پاس ان سوالات کا نہ کوئی جواب ہے اور نہ ہی ان میں سے بیشتر کو سرے سے ان سوالات کا ادراک ہی حاصل ہے۔
اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ عالمی افق پر گزشتہ تین صدیوں کے درمیان رونما ہونے والی علمی تبدیلیوں اور خاص طور پر فلسفہ، سائنس اور عمرانیات کی انسانی ذہنوں پر حکمرانی سے پیدا شدہ صورتحال میں ہمیں ’’علم العقائد والکلام‘‘ کے نصاب کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ اس کا مطلب عقائد میں تبدیلی نہیں ہے بلکہ ان کی تعبیرات و تشریحات کے اسالیب اور ترجیحات کی ازسرنو تشکیل ہے جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ماضی میں یونانی اور دیگر فلسفوں کی آمد پر ہم نے اسلامی عقائد پر پوری دلجمعی کے ساتھ قائم رہتے ہوئے ان کی علمی و عقلی توجیہات و تعبیرات کا ایک نیا نظام تشکیل دیا تھا جس کے ذریعے ہم نے اپنے عقائد و ایمانیات کے خلاف فلسفہ و معقولات کی یلغار کا رخ موڑ دیا تھا۔ آج بھی اسی کام کے احیا کی ضرورت ہے اور عقائد و ایمانیات کے باب میں جدید فلسفہ، سائنس اور عمرانیات کے پیدا کردہ مسائل اور اشکالات کسی اشعری، ماتریدی، ابن حزم، غزالی، ابن رشد، ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ کی تلاش میں ہیں جو ظاہر ہے کہ انہی مدارس کی کوکھ سے جنم لیں گے۔ اس لیے دینی مدارس کو اس پہلو سے اپنے ’’بانجھ پن‘‘ کے اسباب کا کھلے دل و دماغ کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے اور اس کے علاج کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ان کے ذمہ آج کے دور کا سب سے بڑا قرض یہی ہے۔
اس کے ساتھ ہی بطور نمونہ عقائد و ایمانیات سے تعلق رکھنے والے چند سوالات کا ذکر کرنا چاہوں گا جو آج کے علمی تناظر میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ذہنوں میں ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں۔ اور ان کے قابلِ اطمینان جوابات فراہم کرنا ہماری اسی طرح کی ذمہ داری ہے جس طرح ابو الحسن اشعری اور ابو منصور ماتریدی نے اپنے دور کے علمی چیلنج کا منطق و استدلال کے ساتھ سامنا کیا تھا:
- انسان کو جب نفع و نقصان کے ادراک کے لیے عقل دی گئی ہے تو پھر مذہب کی ضرورت کیا باقی رہ جاتی ہے؟
- وحی کی ماہیت کیا ہے اور کیا یہ انسانی عقل و وجدان سے ہٹ کر کوئی الگ چیز ہے؟
- وحی اور عقل کا باہمی تعلق کیا ہے؟
- انسانی سوسائٹی جب مسلسل ارتقا کی طرف بڑھ رہی ہے تو نبوت کا دروازہ درمیان میں کیوں بند ہو گیا ہے؟
- سائنس اور مذہب کا باہمی جوڑ کیا ہے؟
- مذاہب کی مشترکہ صداقتوں پر یکساں ایمان رکھنے اور ان کے مشترکہ مصالح پر مشتمل احکام پر عمل کرنے میں کیا حرج ہے اور کسی ایک مذہب کی پابندی کیوں ضروری ہے؟
- سوسائٹی کے ارتقا اور تجربات کی بنیاد پر تشکیل پانے والے افکار و نظریات اور تہذیب کو مسترد کرنے کا کیا جواز ہے؟
- قرآن و سنت کے معاشرتی احکام اس دور کی عرب ثقافت یا رواجات کے پس منظر میں تھے یا اس سے مختلف ثقافتوں کے ماحول میں بھی واجب العمل ہیں؟
- احکام و قوانین میں مصالح و منافع اور اہداف و مقاصد معتبر ہیں یا ظاہری ڈھانچہ بھی ضروری ہے؟
- اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا کا وجود بھی ہے یا نہیں؟ وغیر ذلک۔
یہ مسائل نئے نہیں ہیں، بلکہ ہر دور میں کسی نہ کسی عنوان سے زیر بحث رہے ہیں، لیکن آج کے عالمی تناظر میں یہ زیادہ ابھر کر سامنے آئے ہیں اور جدید تعلیم یافتہ مسلمان کو اسلامی اعتقادات و ایمانیات کے معیار پر باقی رکھنے کے لیے ان سوالات اور ان جیسے دیگر بہت سے سوالات کے ایسے جوابات ضروری ہیں جو آج کے علمی تناظر اور ہمہ نوع معلومات کے افق میں قابل اطمینان ہوں۔