تحریک ختم نبوت کا محاذ دھیرے دھیرے گرم ہو رہا ہے۔ گزشتہ روز عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام سرگودھا کی مرکزی عیدگاہ میں منعقد ہونے والی ’’ختم نبوت کانفرنس‘‘ میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی مگر اس کی تفصیل عرض کرنے سے پہلے اپنے گزشتہ روز شائع ہونے والے کالم کے حوالہ سے ایک وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ اس کالم میں ۱۹ اکتوبر کو تحریک ختم نبوت کے سلسلہ میں دفتر احرار لاہور میں منعقدہ مختلف جماعتوں کے راہنماؤں کے مشترکہ اجلاس کی رپورٹ پیش کی گئی تھی جس میں اجلاس کے اعلامیہ کی دو تین سطریں شائع ہونے سے رہ گئیں جس کی وجہ سے مفہوم نامکمل رہ گیا، اس لیے وہ حصہ دوبارہ درج کر رہا ہوں۔
’’اجلاس میں ایک مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے اس متفقہ رائے کا اظہار کیا گیا کہ اس صورتحال میں اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ۱۹۵۳ء، ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی طرح کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے مشترکہ پلیٹ فارم کو دوبارہ متحرک کیا جائے اور اس کے لیے کل جماعتی مجلس عمل سے اپیل کی گئی کہ وہ اس سلسلہ میں جلد از جلد پیشرفت کرے۔ تاہم کل جماعتی مجلس عمل کے متحرک ہونے تک کام کے آغاز اور تسلسل کے لیے ’’متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی‘‘ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس میں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ حضرات شامل ہوں گے اور جو قادیانیوں کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ان کی حمایت میں مختلف حلقوں کی سرگرمیوں اور سازشوں کو بے نقاب کرنے اور دینی حلقوں اور رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے کام کرے گی۔‘‘
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اس محاذ پر کام کرنے والی سب سے بڑی اور سب سے قدیم جماعت ہے جس کی سرگرمیوں اور مساعی کا دائرہ دنیا کے مختلف ممالک تک وسیع ہے اور اسے امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ، مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ، مولانا محمد شریف جالندھریؒ، مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ اور مولانا سید نفیس الحسینی جیسے اکابر اہل علم اور ارباب ہمت و عزیمت کی قیادت میں نصف صدی تک اس محاذ پر شاندار خدمات سرانجام دینے کا شرف حاصل رہا ہے اور اب اس کی سربراہی مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہم اور مولانا عبد الرزاق اسکندر دامت برکاتہم فرما رہے ہیں جبکہ مولانا عزیز الرحمان جالندھری اس کے تنظیمی اور مولانا اللہ وسایا اس کے تحریکی روح رواں ہیں۔ ملک میں جہاں بھی قادیانیوں کی کوئی شرارت سامنے آتی ہے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہنما اور کارکن وہاں پہنچتے ہیں، مسلمانوں کو بیدار کرتے ہیں، مقدمہ وغیرہ کی بات ہو تو اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں، خرچ اخراجات کرتے ہیں، قادیانیت کی کارروائیوں کی زد میں آنے والے مظلوم مسلمانوں کے لیے عالمی مجلس سہارا بنتی ہے، چنانچہ بہت سے حوالوں سے تحریک ختم نبوت کے محاذ پر ہمارا سب سے بڑا مورچہ ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ ہی ہے۔
گزشتہ روز (۲۳ اکتوبر) کو سرگودھا کی مرکزی عیدگاہ میں عالمی مجلس نے ’’ختم نبوت کانفرنس‘‘ کا اہتمام کر رکھا تھا جو واقعی کانفرنس تھی اور اس کے لیے عالمی مجلس کے راہنماؤں بالخصوص مولانا محمد اکرم طوفانی نے خاصی محنت کر رکھی تھی۔ میں جب کانفرنس کے پنڈال میں پہنچا تو کانفرنسوں کے حوالہ سے سرگودھا کی پرانی روایت کو پھر سے زندہ ہوتے دیکھا، ہزاروں افراد نظم و ضبط کے ساتھ قائدین کے خطابات سن رہے تھے، حضرت الامیر مولانا خواجہ خان محمد کے صاحبزادہ مولانا عزیز احمد کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے اور مولانا سید عبد المجید ندیم اپنے مخصوص انداز میں حاضرین سے مخاطب تھے۔ ان کے علاوہ کانفرنس سے مولانا عبد الغفور حقانی، مولانا اللہ وسایا، مولانا محمد اکرم طوفانی، مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی، سید سلمان گیلانی، قاری منصور احمد اور دیگر بہت سے سرکردہ علماء کرام نے خطاب کیا۔ اور کانفرنس کے اسٹیج پر ہی ایک نو مسلم سابق قادیانی نوجوان عرفان محمود برق سے بھی تعارف ہوا جو قادیانی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنی والدہ محترمہ سمیت مسلمان ہونے کے بعد قادیانیت کے تعاقب کے محاذ پر مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ انہوں نے اپنے قبول اسلام اور اس پر قادیانیوں کے ردعمل کا اپنے خطاب میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا اور زندگی بھر قادیانیت کا تعاقب جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے ’’قادیانیت ۔ اسلام اور سائنس کے کٹہرے میں‘‘ کے موضوع پر پونے چار سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل ایک ضخیم معلوماتی اور تجزیاتی کتاب لکھی ہے جس کے ملنے کا ایک پتہ ’’فکشن ہاؤس ۱۸ مزنگ روڈ لاہور‘‘ بھی ہے۔
راقم الحروف نے اپنے خطاب میں دو باتیں بطور خاص عرض کیں۔
- ایک یہ کہ جب مدینہ منورہ میں یہود کے قبیلہ بنو قینقاع کی عہد شکنی کے بعد ان کے ساتھ جنگ کی صورتحال پیدا ہوگئی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے محاصرے کا اعلان کر دیا تو دو شخص آنحضرتؐ کی خدمت میں آئے جن کے بنو قینقاع کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ ایک حضرت عبادہ بن صامتؓ تھے جن کے بنو قینقاع کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات تھے اور بہت سے معاملات و مفادات بھی ان سے وابستہ تھے مگر انہوں نے جناب نبی اکرمؐ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ جانتے ہیں کہ بنو قینقاع کے ساتھ تعلقات اور دوستی ترک کرنے میں مجھے کتنے نقصانات ہوں گے مگر میں سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے قربان کرتا ہوں۔ جبکہ عبد اللہ بن ابی کی صورتحال بھی اسی طرح کی تھی مگر اس نے آنحضرتؐ سے صاف کہہ دیا کہ مجھے یہ دوستی اور تعلقات ترک کرنے میں نقصان ہوگا جس کا میں متحمل نہیں ہوں۔ چنانچہ سورہ مائدہ میں ارشاد ہے:
’’اے ایمان والو! یہود و نصارٰی کو دوست نہ بناؤ، یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جس نے ان سے دوستی کی وہ انہی کے ساتھ شمار ہوگا، اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ لیکن اس کے باوجود آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ ان کی طرف دوڑے جاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں گردش زمانہ ہمارے خلاف نہ ہو جائے، پس ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح دے دیں یا کوئی اور فیصلہ صادر فرما دیں تو ان منافقوں کے پاس ندامت کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔‘‘
میں نے عرض کیا کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے، حضرت عبادہ بن صامتؓ اور عبد اللہ بن ابی کا کردار آج بھی زندہ ہے، دونوں کردار نظر آرہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کی فتح کے فیصلے کا منظر بھی دکھائی دینے لگا ہے۔ اس پس منظر میں میرا ان لوگوں سے سوال ہے جو ’’گردش زمانہ‘‘ کے بہانے یہود و نصارٰی کے پاس دوڑے دوڑے جاتے ہیں کہ اس کشمکش کے مستقبل کا جو منظر اب واضح طور پر دکھائی دینے لگا ہے اس کے بعد ان کے پاس ندامت کے سوا کیا چیز بچے گی؟
- دوسری گزارش میں نے قادیانیوں کے حوالہ سے کی جو مسلمانوں کی نئی نسل کی بے خبری سے فائدہ اٹھا کر ازسرنو متحرک ہو رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ چونکہ نئی نسل کے مسلمانوں کی اکثریت قادیانیت کی حقیقت سے بے خبر ہے اس لیے وہ اسے دام ہمرنگ زمین کا شکار بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن یہ ان کی بھول ہے۔ بلاشبہ نئی نسل کی اکثریت قادیانیت کے دجل و فریب سے باخبر نہیں ہے مگر انہیں اس سے آگاہ کرنے والے موجود ہیں اور ایک سابق قادیانی نوجوان عرفان محمود برق کی تقریر سے آپ نے اندازہ کر لیا ہوگا کہ جذبات کی شدت میں بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ اس لیے اگر قادیانی ۱۹۵۳ء، ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کا ماحول واپس لانا چاہتے ہیں تو ہم بھی اس کے لیے تیار ہیں لیکن اپنا نفع و نقصان وہ خود دیکھ لیں۔
قادیانی گروہ آج کل مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کی اس دور کی تحریروں کا حوالہ دیتے ہیں جن میں وہ اہل سنت کے عقائد کے ساتھ وابستگی کا اظہار کیا کرتے تھے۔ میں قادیانیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ فی الواقع اس دور کی طرف واپس جانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس سے خوشی ہوگی اور ہماری دعوت بھی ان کے لیے یہی ہے کہ وہ اس دور کی طرف واپس چلے جائیں۔ لیکن اس کے لیے انہیں مرزا غلام احمد کے نبوت اور مہدیت کے دعوؤں سے براءت کا اعلان کرنا ہوگا اور ملت اسلامیہ کے اجماعی عقائد کو قبول کرنا ہوگا۔ لیکن اگر وہ اپنے گمراہ کن عقائد پر قائم رہتے ہوئے مرزا غلام احمد قادیانی کی سابقہ عبارات کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں تو ان کی یہ فریب کاری کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔
میں نے عرض کیا کہ قادیانی اپنے مذہبی اور انسانی حقوق کے حوالہ سے بھی واویلا کر رہے ہیں اور ہمارے بعض دانشور بھی اس فریب کا شکار ہو کر ان کی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ جبکہ قادیانیوں کے جائز اور مسلّمہ حقوق کا ہم نے کبھی انکار نہیں کیا، اصل بات یہ ہے کہ قادیانی اپنے بارے میں نہ علماء امت کا فیصلہ قبول کر رہے ہیں، نہ پارلیمنٹ کے فیصلے کو مانتے ہیں اور نہ ہی عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ پوری امت کے مقابلہ میں کھڑے ہو کر خود کو مسلمانوں میں شامل ثابت کرنے اور اسلام کے نام پر حقوق حاصل کرنے کا دعوٰی کر رہے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوگا، انہیں امت کا اجماعی فیصلہ قبول کرنا ہوگا، دستور پاکستان کے ساتھ وفاداری کا اعلان کرنا ہوگا، عدلیہ کا فیصلہ تسلیم کرنا ہوگا اور عوام کے منتخب نمائندوں کے متفقہ دستوری فیصلے کے سامنے سرنڈر کرنا ہوگا۔ اگر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں تو وہ امت کے اور دستور و قانون کے باغی ہیں۔ وہ اپنے اس طرز عمل کے ساتھ اپنے جائز حقوق کو بھی مشکوک بنا رہے ہیں اور اس کی ذمہ داری صرف اور صرف قادیانیوں پر عائد ہوتی ہے۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت قادیانیوں کے مرکز چناب نگر میں بھی ۳۰ و ۳۱ اکتوبر کو سالانہ ختم نبوت کانفرنس منعقد کر رہی ہے جس کے لیے ملک بھر میں تیاری جاری ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سرگودھا کی طرح چناب نگر کی کانفرنس کو بھی کامیابی اور ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں، آمین ثم آمین۔