ایران کے اہل سنت علماء کی حالت زار

   
اپریل ۱۹۹۶ء

روزنامہ نوائے وقت لاہور ۷ مارچ ۱۹۹۶ء کے مطابق ایران کے دو سُنی علماء مولانا عبد المالک اور مولانا عبد الناصر، جو کراچی میں گزشتہ آٹھ برس سے جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، قتل کر دیے گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے قاتلوں کا پتہ نہیں چل سکا اور ان کی لاشیں تدفین کے لیے ایران روانہ کر دی گئی ہیں۔

اول الذکر مولانا عبد المالک مرحوم ایران کے بزرگ سنی عالم دین حضرت مولانا عبد العزیزؒ کے فرزند ہیں۔ مولانا عبد العزیزؒ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے شاگردوں میں سے تھے، ایرانی بلوچستان کے صدر مقام زاہدان کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب تھے اور ایران کے علمائے اہل سنت کے مسلّمہ قائد تھے، بادشاہت کے خلاف انقلاب میں ایرانی علماء کے ساتھ صفِ اول میں تھے، انقلابی کونسل اور مجلسِ دستور ساز کے رکن رہے ہیں۔ راقم الحروف کو حضرت مولانا عبد العزیز مرحوم سے دو بار ملاقات کا موقع ملا ہے۔ ایک بار کراچی میں (غالباً ۱۹۷۸ء میں) ملاقات ہوئی اور دوسری بار ۱۹۸۷ء میں تہران میں ان کی زیارت نصیب ہوئی جب پاکستان کے علماء اور دانشوروں کے ایک وفد کے ہمراہ ایران کے محکمہ اوقاف کی دعوت پر ایران کا دورہ کرنے والوں میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔

مولانا مرحوم اس وقت ایران کے انقلابی راہنماؤں سے الگ ہو چکے تھے اور ناراض اور معتوب حضرات میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ انہیں شکایت تھی کہ ہم بادشاہت کے خلاف انقلاب میں شیعہ علماء کے ساتھ شریک رہے ہیں لیکن انقلاب کے استحکام کے بعد ہمیں نظر انداز کر دیا گیا ہے، اور انقلابی کونسل اور مجلسِ دستور ساز میں ہمارے ساتھ جو وعدے کیے گئے تھے، وہ بھلا دیے گئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایران میں اہل سنت کو دستور میں تسلیم شدہ حقوق نہیں دیے جا رہے، مطالبہ کرنے والے علماء گرفتار کر لیے جاتے ہیں، اہل سنت کو ان کی اکثریت کے صوبوں میں بھی غیر سنی اور غیر مقامی حکام سے سابقہ درپیش ہے، طلبہ کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ نہیں ملتا، اور پاکستان کے تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند ایرانی طلبہ کو پاسپورٹ نہیں دیا جاتا، جبکہ اس سال صرف قم کے دینی مدارس میں ایک ہزار سے زائد پاکستانی طلبہ مذہبی تعلیم حاصل کر رہے تھے، اہل سنت کے علماء اور دینی حلقوں پر ریاستی جبر کا خوف ہر وقت مسلط رہتا ہے اور خفیہ ایجنسیاں مسلسل ان کا تعاقب کرتی ہیں۔

ستم کی بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کے ٹھیکیدار ادارے اور مسلمانوں کی عالمی تنظیمیں اس صورتحال پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور ایران کے مظلوم سُنی مسلمانوں کے جائز حقوق کے لیے کوئی آواز اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔ جبکہ ایرانی سنیوں کی بے بسی کی حالت یہ ہے کہ تہران میں کم و بیش دس لاکھ سنیوں کی آبادی کو پورے شہر میں ایک مسجد بنانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ اور دو سال قبل مشہد کے کوچہ خامنائی میں اہل سنت کی ’’مسجد فیض‘‘ بلڈوزروں کے ساتھ مسمار کر دی گئی ہے۔ یہ مسجد راقم الحروف نے ۱۹۸۷ء میں دیکھی تھی اور اس میں اپنے وفد کے بعض ارکان کے ہمراہ نمازِ فجر بھی ادا کی تھی لیکن اب اس مسجد کا نام و نشان تک باقی نہیں ہے۔

اس پس منظر میں ایران کے سینکڑوں سنی علماء ریاستی جبر کے ہاتھوں بے بس ہو کر مختلف ممالک میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، لیکن مولانا عبد المالکؒ اور مولانا عبد الناصرؒ کی مظلومانہ شہادت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی خاموش جلاوطنی بھی بعض حلقوں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے اور ان کا تعاقب مسلسل جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ ان شہیدوں کے درجات بلند فرمائیں، انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں، اور ایران کے مظلوم اور بے بس علماء اہل سنت کی دستگیری فرماتے ہوئے اپنے جائز حقوق کے لیے ان کی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار فرمائیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter