مسلمانوں کا ایمانی جذبہ بالآخر رنگ لایا ہے اور ہالینڈ (نیدرلینڈز) کی حکومت نے گستاخانہ خاکوں کے ان مجوزہ نمائشی مقابلوں کو منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا ہے جو دس نومبر کو وہاں کی پارلیمنٹ میں منعقد کرائے جانے والے تھے۔ پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ’’تحریک لبیک یا رسول اللہؐ‘‘ کی ریلی کے اسلام آباد پہنچنے پر تحریک کے راہنما پیر محمد افضل قادری کو مذاکرات میں بتایا ہے کہ ہالینڈ کے وزیرخارجہ نے انہیں فون پر اطلاع کی ہے کہ یہ پروگرام منسوخ کر دیا گیا ہے جس پر تحریک نے اسلام آباد میں اس سلسلہ میں وہ اپنا دھرنا ختم کر دیا ہے جس کے لیے اس کے کارکن لاہور سے ریلی کی شکل میں اسلام آباد پہنچے تھے۔
میں بدھ کے روز کھوڑ (اٹک) میں تھا جہاں جامعہ ابوہریرہؓ میں سیدنا حضرت عثمان بن عفانؓ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ظہر کے بعد منعقدہ اجتماع میں شرکت کی جبکہ عشاء کے بعد ٹیکسلا کے مدرسہ عبیدیہ زاہدیہ کی مسجد نفیس میں علماء کرام کی ایک نشست سے خطاب کیا۔ رات وہیں قیام رہا، جمعرات کو مجھے ظہر تک ظفروال ضلع نارووال پہنچنا تھا جہاں ہمارے نومسلم فاضل دوست مولانا محمد عبد اللہ نے علماء کرام کی نشست کا اہتمام کر رکھا تھا اور نماز مغرب کے بعد بھی ایک نشست میں شریک ہونا تھا۔ صبح آٹھ بجے ڈائیوو بس کے ذریعے راولپنڈی سے سیالکوٹ کے لیے روانہ ہوا تو جہلم ٹرمینل پہنچنے پر معلوم ہوا کہ تحریک لبیک یا رسول اللہؐ کی جو ریلی کل شام کو لاہور سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئی تھی وہ ابھی کھاریاں اور سرائے عالمگیر کے درمیان ہے جس کی وجہ سے ٹریفک بلاک ہے اور آنے جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ڈائیوو بس کے عملہ نے اعلان کیا کہ وہ راستہ صاف ہونے تک آگے سفر نہیں کریں گے چنانچہ وہاں بیٹھے رہنے کی بجائے میں جہلم شہر میں اپنی ہمشیرہ کے ہاں چلا گیا۔ ظفروال اطلاع کر دی کہ آج کے پروگراموں میں حاضر نہیں ہو سکوں گا اور پاکستان شریعت کونسل کے صوبائی سیکرٹری جنرل مولانا مفتی محمد نعمان پسروری سے عرض کیا کہ وہ ان اجتماعات میں میری نمائندگی کریں۔ تحریک لبیک یا رسول اللہؐ کے بارے میں کسی وقت تفصیل کے ساتھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں سردست اتنی بات عرض کرنا مناسب خیال کرتا ہوں کہ تحفظ ختم نبوت، تحفظ ناموس رسالت اور نظامِ مصطفٰی کے نفاذ کی جدوجہد میں اس تازہ خون کا کردار اہم ہوتا جا رہا ہے اور مستقبل میں اس حوالہ سے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ جبکہ بہت سے تحفظات کے باوجود مجھے اس بات پر اطمینان محسوس ہو رہا ہے کہ تحریک کے قائدین نے اپنی جدوجہد کو انہی تین اہم ترین قومی و ملی مسائل پر مرکوز کیا ہوا ہے اور مسلکی اختلافات و تنازعات سے اس مہم کو الگ تھلگ رکھا ہوا ہے جو بہرحال قابل ستائش ہے اور جن مقاصد کے لیے وہ تگ و دو میں مصروف ہیں ان کے لیے یہ ضروری بھی ہے۔
نیدرلینڈز پارلیمنٹ کے اپوزیشن لیڈر اور پارٹی فار فریڈم کے سربراہ گرٹ ولڈرز (Geert Wilders) کی طرف سے اس مجوزہ نمائش کی منسوخی کی اطلاع سے یہ وقتی مسئلہ تو ختم ہو گیا ہے جس پر اس کے خلاف احتجاجی مہم میں حصہ لینے والے تمام شخصیات، ادارے، حکومتیں اور جماعتیں مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مگر اصل مسئلہ ابھی باقی ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین کو بین الاقوامی سطح پر جرم قرار دلوانے کے لیے قانون سازی ضروری ہے جو ظاہر ہے کہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کے ماحول میں ہی ہوگی اور اس کے لیے اسلامی تعاون تنظیم (آرگنائزیشن آف اسلامک کواپریشن) کو اساسی کردار ادا کرنا ہوگا۔
جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے مہتمم مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی نے گزشتہ روز فون پر مجھ سے کہا کہ عالمی سطح پر اس سلسلہ میں بات کہنے کے لیے کوئی موقف مرتب ہونا چاہیے تو میں نے سرسری طور پر ایک مختصر مضمون لکھ کر انہیں بھجوایا جو اگرچہ مجوزہ نمائش کی منسوخی کے اعلان سے پہلے کا ہے مگر میرے خیال میں بین الاقوامی ماحول میں اپنا موقف پیش کرنے کے لیے اسے سامنے رکھا جا سکتا ہے، یہ مختصر تحریر نذر قارئین کی جا رہی ہے۔
’’انسان کی عزت و تکریم تمام آسمانی مذاہب کے ساتھ ساتھ آج کے فلسفۂ انسانی حقوق کا بھی حصہ ہے۔ بلکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کا عنوان ہی انسان کی عزت و وقار کا تحفظ و احترام ہے، اسی وجہ سے دنیا کے ہر ملک میں ہتکِ عزت اور ازالۂ حیثیت عرفی کو جرم قرار دیا گیا ہے اور اس کی کوئی نہ کوئی سزا مقرر کی گئی ہے۔ مگر بعض مغربی دانشور نسلِ انسانی کی سب سے زیادہ معزز و محترم شخصیات حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی عزت و ناموس کو وہ مقام و احترام دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتے جو کسی بھی ملک کے ایک عام شہری کو حاصل ہے۔ یہ صورتحال کسی صورت میں قابل قبول اور جائز نہیں ہے بلکہ اس لحاظ سے یہ عمل دوہرے جرم کے مترادف ہو جاتا ہے کہ اس سے دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کے جذباتِ عقیدت مجروح ہوتے ہیں اور انہیں شدید تکلیف و اذیت پہنچتی ہے۔ چنانچہ نیدرلینڈز کی پارلیمنٹ میں ۱۰ نومبر ۲۰۱۸ء کو جن گستاخانہ خاکوں کی نمائش کا پروگرام بنایا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے آخری مقدس پیغمبرؐ کی اہانت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے اور انہیں ذہنی اذیت پہنچانے کی وجہ سے دوہرا جرم ہے، اس لیے ہم نیدرلینڈز کی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس مجوزہ نمائش کو ہر صورت میں روکے اور اس پر پابندی لگائے ورنہ وہ اس جرم میں برابر کی شریک متصور ہوگی اور اس کے منطقی نتائج سے بچنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔‘‘
ہالینڈ میں ۱۰ نومبر کو ہونے والی اس نمائش کی منسوخی کا اعلان تو کر دیا گیا ہے مگر اس سلسلہ میں بین الاقوامی سطح پر قانون سازی کا اصل مرحلہ ابھی باقی ہے جس کے لیے حوصلہ و تدبر، حکمت و دانش اور اجتماعیت کے ساتھ مؤثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔