’’آن لائن‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے قومی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے اسلامی تحریکات کو ایک بار پھر ہدف تنقید بنایا ہے اور کہا ہے کہ وہ مختلف ممالک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ صدر پیوٹن نے اپنے انٹرویو میں اس خدشہ کا اظہار بھی کیا ہے کہ اسلامی شدت پسند دنیا میں اسلامی خلافت لانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
ہمارے خیال میں اسلامی تحریکات کے خلاف روس، امریکہ اور ان کے دیگر اتحادیوں کے غیظ و غضب کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ مغرب نے اب سے پون صدی قبل جس ’’خلافت‘‘ کو صدیوں کی مسلسل سازشوں کے بعد ختم کردیا تھا اور اپنے زعم میں یہ خیال کرلیا تھا کہ اب دنیا میں کہیں بھی کوئی ریاست اسلام کی بنیاد پر قائم نہیں ہو سکے گی، ان کا اندازہ بلکہ پروگرام غلط ثابت ہوا ہے اور صرف پون صدی کے بعد پورے عالم اسلام میں نہ صرف جہاد کے جذبات اور جدوجہد از سر نو منظم ہوگئی ہے بلکہ مختلف ممالک میں خلافت اسلامی کے دوبارہ احیا کی تحریکات بھی فطری انداز میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ اس لیے صدر پیوٹن کا یہ خوف ان کے خیال میں بجا ہے لیکن ہم ان سے گزارش کرنا چاہیں گے کہ اس پر اس قدر سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ:
- اسلامی احکام کی رو سے خلافت کا نظام قائم کرنا مسلمانوں کے دینی فرائض میں شامل ہے کیونکہ اگر دنیا کے کسی خطے میں خلافت کا نظام موجود نہیں ہے تو شرعی احکام کی رو سے دنیا بھر کے مسلمان ایک دینی فریضہ کے تارک اور گنہگار قرار پاتے ہیں۔ امام ولی اللہ دہلویؒ اور دیگر فقہاء کرامؒ کی تصریحات کے مطابق خلافت کا قیام دینی فریضہ ہے اور اس کی حیثیت ملت اسلامیہ کے لیے فرض کفایہ کی ہے کہ کسی خطہ میں اسلامی خلافت کا نظام قائم ہوجائے تو دنیا بھر کے سب مسلمانوں کی طرف سے فرض ادا ہوجائے گا لیکن اگر کہیں بھی اسلامی خلافت کا نظام موجود نہیں ہے تو دنیا بھر کے تمام مسلمان بلا امتیاز اس شرعی فریضہ کے تارک اور گنہگار ہیں۔
- پھر اسلامی تحریکات خلافت کا نظام روس اور امریکہ کی سرزمین پر قائم کرنے کا نعرہ نہیں لگا رہیں کہ پیوٹن اور ان کے دیگر ہمنواؤں کو واویلا کرنے کی ضرورت پیش آئے بلکہ مسلمان صرف اپنے ملکوں میں نفاذ اسلام کی بات کرتے ہیں اور اس سرزمین پر نظام خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں جو ان کے پاس ہے اور جس میں وہ اکثریت کے ساتھ رہتے ہیں۔
اس طرح خلافت کا قیام مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا حق بھی ہے کہ وہ اپنی سرزمین اور اپنی سوسائٹی میں جس طرح کا نظام وہ چاہیں قائم کر سکتے ہیں۔ اس لیے روسی صدر کا یہ کہنا کہ اسلامی تحریکات دنیا میں خلافت کا نظام لانا چاہتی ہیں، خلاف واقعہ تو نہیں لیکن مسلمانوں کے مذہبی فرائض اور ملی حقوق میں ناروا مداخلت کی حیثیت ضرور رکھتا ہے اور اسلام کے خلاف مغربی لیڈروں کی معاندانہ ذہنیت کا آئینہ دار ہے۔