میڈیا اور ٹی وی کی تباہ کاریاں

   
فروری ۲۰۰۷ء

عید الفطر کے موقع پر عراق کے سابق صدر صدام حسین کو جس انداز سے پھانسی دی گئی اور اس کی جس بھونڈے انداز میں تشہیر کی گئی اسے دیکھ کر بعض اخباری اطلاعات کے مطابق اب تک پاکستان، سعودی عرب اور امریکہ سمیت مختلف مقامات پر سات بچے اس پھانسی کی نقل اتارتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ پاکستان میں رحیم یار خان کے مقام پر ایک بچے نے صدام حسین کی پھانسی کی فلم دیکھ کر اپنے گلے میں رسی ڈال لی اور لٹک کر جان بحق ہوگیا اور اسی طرح کے واقعات دوسرے مقامات میں بھی ہوئے۔

روزنامہ جنگ لندن ۳ جنوری ۲۰۰۷ء کی ایک خبر کے مطابق انسانی حقوق اور بچوں کی فلاح و بہبود کے متعدد اداروں نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس کا ذمہ دار الیکٹرانک میڈیا کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس قسم کی فلمیں یا جھلکیاں میڈیا پر نہیں دکھانی چاہئیں۔ خبر کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے ایک نمائندہ نے کہا ہے کہ میڈیا پر ایسی فلمیں دکھانے پر پابندی عائد ہونی چاہیے کیونکہ ایسی تصاویر کے دکھانے یا فلموں کی نمائش سے بچوں میں نفسیاتی بیماریاں پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ ادھر یونان کی متعدد تنظیموں اور ڈاکٹروں نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی فلموں کی نمائش پر فوری پابندی عائد ہونی چاہیے اور اقوام متحدہ اور یونیسکو کو اس بارے میں قانون سازی کرنی چاہئے۔ ان تنظیموں نے حکومت پاکستان سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان میں بچوں کے حقوق اور ان کی بحالی کے کام کے علاوہ ایسی تصویروں اور فلموں پر فوری پابندی عائد کرے جن کی وجہ سے بچوں کے اخلاق اور ان کے ذہن پر برے اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہو۔

یہ باتیں جو ٹی وی اور الیکٹرانک میڈیا کے دیگر ذرائع کے منفی کردار کے حوالہ سے مغربی ممالک کی تنظیموں نے کہی ہیں اگر کسی مسلمان ادارے یا دینی جماعت کی طرف سے کہی جائیں تو وہ بنیاد پرستی کا اظہار اور انتہا پسندی کی علامت قرار پائیں گی، لیکن ان خیالات کا اظہار یونیسکو کے نمائندہ اور ایک مغربی ملک یونان کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے کیا جا رہا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے دینی حلقوں کے اس موقف کی اخلاقی فتح ہے کہ میڈیا خواہ الیکٹرانک ہو یا پرنٹ میڈیا ہو اس کی آزادی کا دائرہ اس قدر وسیع اور بے بنیاد نہیں ہونا چاہیے کہ اخلاقی قدریں پامال ہونے لگیں اور ذہن برے اثرات قبول کرنے لگیں۔ اسلام یہی کہتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کو اپنی نشریات اور ابلاغیات میں اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ ان سے لوگوں کے عقائد، اخلاق اور عادات میں بگاڑ پیدا نہ ہو اور وہ معاشرہ میں منفی رجحانات کی تقویت کا ذریعہ نہ بنیں۔

گزشتہ ہفتے برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں وہاں کی سٹی پولیس کے چیف کے ساتھ چند دوستوں نے راقم الحروف کی ملاقات کا اہتمام کر دیا اور ان کے ساتھ کم و بیش اڑھائی گھنٹے کی گفتگو کے دوران یہ مسئلہ بھی زیر بحث آیا کہ سوسائٹی میں امن کے قیام کے لیے میڈیا کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ ان کا کہنا یہ تھا کہ میڈیا کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ وہ جو کچھ پیش کر رہا ہے اس سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور سوسائٹی اس سے کیا اثر قبول کرے گی بلکہ میڈیا کی ترجیحات میں سب سے زیادہ اہمیت خبریت وار تجسس کو حاصل ہوتی ہے جبکہ امن عامہ کے حوالہ سے اس کے منفی اثرات سامنے آرہے ہیں۔

بہرحال یہ خوشی کی بات ہے کہ ہماری بات آہستہ آہستہ لوگوں کو سمجھ آرہی ہے اور حالات و تجربات دنیا کو اس رُخ پر لا رہے ہیں کہ وہ آسمانی ہدایات اور قرآن و سنت کی تعلیمات کی طرف کان دھرے اور انہیں سمجھنے کی کوشش کرے، خدا کرے کہ ہم اسلام کی فطری تعلیمات کو آج کی دنیا کے سامنے اس کی قابل فہم زبان اور اسلوب میں پیش کرنے کی کوئی صورت نکال سکیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter