مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ

   
۳ نومبر ۲۰۱۵ء

جامعہ حمادیہ کراچی کے حضرت مولانا عبد الواحدؒ کی جدائی کا غم ابھی تازہ تھا کہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ بھی داغ مفارقت دے گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حضرت شاہ صاحبؒ ملک کے ان بزرگ اور مجاہد علماء کرام میں سے تھے جنہوں نے نہ صرف تعلیم و تدریس کی مسند کو آباد کیا بلکہ زندگی بھر نفاذ شریعت کی جدوجہد اور اسلامی اقدار و روایات کے تحفظ کی محنت میں مصروف رہے۔ وہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحقؒ کے نامور تلامذہ میں سے تھے اور انہی کی مسند پر بیٹھ کر ایک عرصہ تک حدیث شریف کا درس دیتے رہے جس سے پاکستان، افغانستان اور اردگرد کے دیگر ممالک کے ہزاروں علماء کرام نے فیض حاصل کیا۔ وہ حدیث میں اپنے شیخ حضرت مولانا عبد الحقؒ کے علوم کے وارث و ترجمان، جبکہ تفسیر قرآن میں ایک اور عظیم المرتبت شیخ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اور حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کے فیوض کے امین تھے۔ اس لیے بخاری شریف کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کے دورہ کی روایت بھی انہوں نے ہمیشہ قائم رکھی۔ انہوں نے مدینہ منورہ میں ممتاز عرب اساتذہ سے استفادہ کیا اور امام التابعین حضرت حسن بصریؒ کے تفسیری فیوضات پر گراں قدر مقالہ لکھ کر مدینہ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ وہ بیک وقت اکوڑہ خٹک، شیرانوالہ لاہور، اور مدینہ یونیورسٹی کی متنوع علمی روایات کے جامع تھے اور دینی صلابت کے ساتھ ساتھ توسع اور علمی رواداری کا عملی نمونہ بھی تھے۔

ایک بات میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ روسی استعمار کے خلاف افغان جہاد کو علمی و فکری آب یاری کاماحول اکوڑہ خٹک کی برکت سے میسر آیا اور وہی افغان مجاہدین اور ان کے بعد افغان طالبان کی جدوجہد میں پختگی اور سنجیدگی کا باعث بنا۔ اس سنجیدگی اور پختہ فکری کی قدر و قیمت عالم اسلام کے مختلف حصوں میں نفاذ شریعت کی متعدد تحریکات میں افراط و تفریط کا مشاہدہ کرتے ہوئے صحیح طور پر محسوس ہوتی ہے۔ اور اس پر حضرت مولانا عبد الحقؒ کی علمی عظمت، دینی حمیت اور فکری صلابت کے آگے سر نیاز بے ساختہ خم ہو جاتا ہے۔ حضرت شیخ الحدیثؒ کے اس علمی ورثہ کو سینے کے ساتھ لگانے والے چند گنے چنے افراد میں حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ نمایاں مقام رکھتے ہیں، جبکہ مولانا سمیع الحق اور مولانا انوار الحق کے ساتھ ان کی زندگی بھر کی رفاقت اپنے شیخ کے خاندان کے ساتھ ان کی بے لوث وفاداری کی علامت ہے۔

تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں اکثر یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ مستقبل کا کوئی بھی غیر جانبدار مؤرخ جب گزشتہ صدی کے دوران جہاد کے احیاء، خاص طور پر جہاد افغانستان کے پس منظر و نتائج اور دنیا بھر میں اس کے مثبت اور منفی اثرات کا تجزیہ کرے گا تو وہ اس کے علمی و فکری محاذ پر حضرت مولانا عبد الحقؒ ، حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ ، اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی خدمات اور کردار کو نظر انداز نہیں کر سکے گا۔ مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ اسی صف بندی کی سیکنڈ لائن کے بزرگ تھے اور ان کی ساری زندگی اسی محور کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔

وہ علماء اور مجاہدین کے صرف استاذ نہیں تھے بلکہ مربی اور پشت پناہ بھی تھے اور صحیح کاموں پر حوصلہ افزائی کے ساتھ غلط کاموں پر ٹوکنے کا ذوق اور معمول بھی رکھتے تھے۔ راقم الحروف کو ان سے نیاز مندی کا شرف حاصل رہا ہے۔ جامعہ نصرۃ العلوم میں متعدد بار تشریف لائے، حضرات شیخینؒ کے ساتھ گہری عقیدت و محبت رکھتے تھے جس کی برکات سے ہم بھی مستفید ہوتے رہے۔ مختلف تحریکات اور اجلاسوں میں ان کے ساتھ رفاقت رہی اور بہت سے معاملات میں مشاورت کا تعلق بھی رہا۔ اب وہ نہیں ہیں تو آنکھوں کے سامنے خلا خلا سا محسوس ہو رہا ہے۔ اس غم میں ان کے خاندان کے علاوہ مولانا سمیع الحقؒ دارالعلوم حقانیہ کے اساتذہ و طلبہ اور حضرت مرحوم کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مستفیدین کے ساتھ شریک ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

حضرت مولانا قاضی عبد الکریمؒ آف کلاچی، حضرت مولانا عبد الواحدؒ آف کراچی اور حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ کی یکے بعد دیگرے جدائی اس احساس کو گہرا کرتی جا رہی ہے کہ بڑے رخصت ہو رہے ہیں، جو فی الواقع بڑے تھے اور جن کی بڑائی پر ان کی زندگی خود گواہ ہے۔ حضرت مولانا عبید اللہ اشرفی، حضرت مولانا صوفی محمد سرور، حضرت مولانا سلیم اللہ خان، حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر اور حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی جیسے بزرگوں کا وجود غنیمت ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ تادیر سلامت رکھیں، آمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter