شاہکوٹ کے مولانا عبد اللطیف انور گزشتہ دنوں انتقال کر گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دینی و مسلکی کارکنوں کی موجودہ کھیپ شاید اس نام سے اتنی مانوس نہ ہو مگر دو عشرے قبل کے تحریکی ماحول میں یہ ایک متحرک اور جاندار کردار کا نام تھا۔ شیرانوالہ لاہور اور جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ گہری عقیدت اور بے لچک وابستگی رکھنے والے مولانا عبد اللطیف انور رحمہ اللہ تعالیٰ کا نام سامنے آتے ہی نگاہوں کے سامنے ایک بے چین اور مضطرب شخص کا پیکر گھوم جاتا ہے جو ملک میں نفاذ شریعت، تحفظ ختم نبوت، تحفظ ناموس صحابہؓ اور مسلک علماء دیوبند کی ترجمانی و پاسداری کے لیے نہ صرف فکر مند رہتا تھا بلکہ ہر وقت متحرک رہنا اور اپنے مشن کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کرنا اس کے مزاج کا حصہ بن گیا تھا۔
مولانا عبد اللطیف انورؒ شاہکوٹ کی ایک مسجد کے خطیب تھے اور ایک عرصہ تک جمعیۃ علماء اسلام ضلع شیخوپورہ کے امیر رہے۔ شاہکوٹ اب نئے بننے والے ضلع ننکانہ صاحب کا حصہ ہے۔ مسجد کے ساتھ جامعہ اشرفیہ کے نام سے ایک دینی درسگاہ بھی ہے، یہ مسجد اور درسگاہ اس پورے علاقہ میں دینی اور مسلکی سرگرمیوں کا مرکز سمجھی جاتی ہے اور اس کی وجہ مولانا مرحوم کی شبانہ روز محنت اور ان کا عزم و استقلال ہے۔
مولانا عبد اللطیف انورؒ دینی و مسلکی محاذ پر متحرک رہنے کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست کا بھی ایک جاندار کردار تھے۔ علاقہ میں ان کی برادری کے خاصے لوگ آباد تھے جو ان کی قوت ہوا کرتے تھے۔ لوکل سیاست سے لے کر قومی انتخابات تک ان کا کردار ہوتا تھا، سماجی خدمات میں پیش پیش رہتے تھے، تھانے کچہری کے کاموں میں ہمیشہ متاثرین اور مظلوموں کے ساتھ ہوتے تھے۔ پنجاب کی سیاست میں کوئی مقام حاصل کرنے کے لیے بنیادی شرط یہی ہوا کرتی ہے اور ہماری دینی جماعتیں اس کی طرف توجہ نہ دینے کی وجہ سے انتخابات میں کوئی پوزیشن حاصل نہیں کر پاتیں۔ ہم مذہبی تعلق اور روحانی وابستگی کے حوالہ سے ووٹ کے طلبگار ہوتے ہیں جو پنجاب کے مزاج کے ہی خلاف ہے۔ میں اکثر عرض کیا کرتا ہوں کہ پنجاب کا عمومی مزاج یہ ہے کہ مولوی کہیں سے آئے یہ اسے قبول کر لیتا ہے، مسجد بنا کر دیتا ہے، مدرسہ بھی بنا دیتا ہے، اس کو چلانے کا خرچہ بھی دیتا ہے، مسلکی محاذ آرائی اور دینی تحریکات میں دست و بازو بھی بن جاتا ہے، حتیٰ کہ رشتہ بھی دے دیتا ہے، مگر ووٹ نہیں دیتا۔ ووٹ صرف اس کو ملتے ہیں جو سماجی خدمت میں اور تھانے کچہری کے کاموں میں پیش پیش ہو، اور بوقت ضرورت لوگوں کے کام آئے۔ مولانا عبد اللطیف انورؒ اس ضرورت اور فن سے آشنا تھے اس لیے علاقائی سیاست میں ان کا نمایاں کردار ہوتا تھا اور بسا اوقات وہ ’’بادشاہ گر‘‘ بھی بن جایا کرتے تھے۔
۲۲ اکتوبر کو راقم نے پیر حافظ محمد ریاض قادری، محترم میاں محمد افضل اور حافظ محمد بلال کے ہمراہ شاہکوٹ حاضری دی اور مولانا عبد اللطیف انورؒ کے فرزند و جانشین مفتی محمد طیب اور دیگر احباب سے تعزیت کے ساتھ ساتھ مولانا مرحوم کی قبر پر فاتحہ خوانی اور دعا کی سعادت حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔