روزنامہ پاکستان لاہور (۹ اکتوبر ۲۰۰۹ء) کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ:
’’ایک امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے ہر چار میں سے ایک شخص مسلمان ہے اور ان کی مجموعی تعداد ایک ارب ستاون کروڑ ہے جس میں ساٹھ فیصد ایشیائی ملکوں میں رہتے ہیں۔ ’’فورم آف ریلیجین اینڈ پبلک لائف‘‘ کی رپورٹ تیار کرنے میں تین سال صرف ہوئے، اس میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کی کل تعداد میں سے بیس فیصد مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں رہتے ہیں، جرمنی میں لبنان سے زیادہ مسلمان ہیں جبکہ روس میں ان کی تعداد لیبیا اور اردن کے مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ براعظم یورپ میں تین کروڑ اڑتیس لاکھ مسلمان بستے ہیں جو یورپ کی کل آبادی کا پانچ فی صد ہیں۔‘‘
یہ رپورٹ ایک امریکی ادارے کی تیار کردہ ہے جو اس لحاظ سے حوصلہ افزا اور خوش کن ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد بحمد اللہ بڑھتی جا رہی ہے اور مسلمانوں کی آبادی کا تناسب جو کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک کل آبادی کا پانچواں حصہ بتایا جاتا تھا اب چوتھا حصہ بنتا جا رہا ہے۔لیکن اس کا دوسرا پہلو پریشان کن اور حوصلہ شکن ہے کہ آبادی میں اس اضافے اور اتنی بڑی تعداد ہو جانے کے باوجود مسلمانوں کی مجموعی حیثیت اور دنیا کی برادری میں ان کا مقام و مرتبہ دن بدن شکوک و شبہات اور طعن و اعتراضات کا ہدف بنتا جا رہا ہے:
- مسلمانوں کے ساٹھ کے لگ بھگ ممالک رسمی طور پر آزاد ملک کہلانے کے باوجود نہ صرف یہ کہ اپنی پالیسیوں اور معیشت و سیاست میں حقیقی طور پر آزاد نہیں ہیں بلکہ ٹیکنالوجی اور عسکریت میں بھی دوسروں کے رحم و کرم پر ہیں۔
- دنیا کا کوئی بھی مسلمان ملک اسلامی تعلیمات کے مطابق پورے طور پر ایک اسلامی ریاست کی حیثیت نہیں رکھتا اور ’’خلافت‘‘ جو مسلمانوں کے ملّی فرائض میں سے ہے دنیا کے کسی خطے میں قائم نہیں ہے۔
- اسلامی احکام و قوانین کے خلاف جن میں نفاذ شریعت اور جہاد سر فہرست ہیں مغرب نے تنفر کی جو فضا مسلسل لابنگ اور پروپیگنڈا کے ذریعے قائم کرنے کی کوشش گزشتہ دو صدیوں سے شروع کر رکھی ہے، مسلمانوں کے بہت سے طبقات بالخصوص حکمران گروہ اس دام ہمرنگ زمین کا شکار ہو چکے ہیں۔
- مسلمانوں کو تیل کے چشموں سمیت اپنے وسائل پر آزادانہ کنٹرول حاصل نہیں ہے۔
- اور بین الاقوامی تنازعات و معاملات کو نمٹانے والے فورم اقوام متحدہ میں مسلمانوں کو نہ پالیسی سازی میں کوئی حیثیت حاصل ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کی تشریحات میں مسلمانوں کے عقائد و جذبات کا کوئی لحاظ رکھا گیا ہے۔
چنانچہ آج ہماری مجموعی صورتحال وہی ہے جس کی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ارشاد گرامی میں نشاندہی فرمائی تھی:
’’حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب نبی اکرمؐ سے سنا وہ حضرت ثوبانؓ سے کہہ رہے تھے کہ اے ثوبان ! تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب دنیا کی قومیں تم پر حملہ آور ہونے کی ایک دوسرے کو یوں دعوت دیں گی جیسے کھانے کے پیالے پر تم ایک دوسرے کو کھانے کے لیے دعوت دیتے ہو؟ ثوبانؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! کیا ایسا ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ہو گا؟ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ نہیں تم اس وقت کثیر تعداد میں ہو گے لیکن تمہارے دلوں میں وہن ڈال دیا جائے گا، صحابہؓ نے پوچھا کہ وہن کیا ہے یا رسول اللہ؟ فرمایا تمہارا دنیا سے محبت کرنا اور جہاد کو نا پسند کرنا۔‘‘ (مجمع الزوائد للبیہقی ج۷ص۲۸۷)
آج ہماری صورتحال ایسی ہی ہے کہ تعداد کی کثرت اور مال و دولت اور وسائل کی فراوانی کے باوجود ہم دنیا بھر کی اقوام کے لیے تر لقمہ بنے ہوئے ہیں، جس کا جہاں جی چاہتا ہے حملہ کر دیتا ہے اور وجہ وہی ہے کہ ہم ملی طور پر دنیا کے وقتی مفادات سے آگے دیکھنے کو تیار نہیں ہیں اور جہاد ہمارے ہاں بھی رفتہ رفتہ کراہیت کا درجہ اختیار کرتا جا رہا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اجتماعی طور پر دین کی طرف واپسی اور اسلامی تعلیمات کی طرف رجوع کا راستہ اختیار کریں اور ملی خود مختاری اور وقار کی بحالی کا کوئی راستہ نکالیں کیونکہ اس کے بغیر موجودہ بحران سے نکلنے کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے۔