دیوبندی مدارس اور دہشت گردی

   
جون ۲۰۱۰ء

روزنامہ جنگ ملتان ۲۰ مئی ۲۰۱۰ء کی خبر کے مطابق امریکی کانگرس کی خارجہ امور کمیٹی میں دہشت گردی سے متعلقہ سب کمیٹی کے رکن ایڈورکسے نے کہا ہے کہ ہم نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ دیوبندی مدارس کو بند کرے کیونکہ وہ گریجویٹ دہشت گردوں کی کھیپ پیدا کر رہے ہیں اور امریکہ اور بھارت جیسے جمہوری ملکوں پر حملوں کے لیے دہشت گرد تیار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ۸۰۰ دیوبندی مدارس ہیں جن کا جہاد پر فوکس ہے اور یہ مدارس نوجوانوں کو بنیاد پرستی کی تعلیم اور دہشت گرد حملوں کی تربیت دیتے ہیں۔

دیوبندی مدارس پر یہ الزام آج کا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے جس کی بنیاد پر علماء دیوبند کے خلاف استعماری قوتوں اور ان کے گماشتوں کی طرف سے ہر سطح پر کردارکشی کی مہم جاری ہے لیکن زمینی حقائق اس الزام کی نفی کرتے ہیں۔ جہاں تک دینی تعلیمات کے تحفظ اور فروغ، اسلامی تہذیب و ثقافت کی بقا اور مغرب کی ثقافتی یلغار کے مقابلہ کی بات ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ دیوبندی مدارس گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے پورے حوصلہ اور اعتماد کے ساتھ یہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور آئندہ بھی اس کا عزم رکھتے ہیں۔ اگر مغرب اس محاذ پر دیوبندی مدارس کی استقامت کے ہاتھوں اپنی ہزیمت اور شکست کو بنیاد پرستی اور دہشت گردی سے تعبیر کرتا ہے تو یہ اس کی بوکھلاہٹ کا اظہار ہے ورنہ پاکستان میں ہزاروں دینی مدارس کے بارے میں خود حکومتی ادارے اس بات کی بار بار رپورٹ دے چکے ہیں کہ ان میں عسکری ٹریننگ نہیں دی جاتی۔ اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی قیادت حکومت کو متعدد بار یہ پیشکش کر چکی ہے کہ جن مدارس میں عسکری ٹریننگ دی جاتی ہے ان کی نشاندہی کی جائے ان کے خلاف کاروائی میں وفاق حکومت کا ساتھ دے گا۔ لیکن ان زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے بلکہ ان کی نفی کرتے ہوئے دیوبندی مدارس کو بار بار مورد الزام ٹھہرائے چلے جانا ستم ظریفی کی انتہا ہے۔

امریکی کانگریس کے مذکورہ رکن اس حقیقت سے یقیناً بے خبر نہیں ہوں گے کہ جن لوگوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے ان کو عسکری ٹریننگ خود امریکہ کی نگرانی اور سرپرستی میں سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کے دوران دی گئی تھی، اب اگر وہی تربیت خود امریکہ کے خلاف استعمال ہو رہی ہے تو یہ امریکی پالیسی سازوں کی نااہلی کی علامت ہے جسے دیوبندی مدارس پر خواہ مخواہ الزام تراشی کر کے چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پھر اس کھلی حقیقت سے کیسے آنکھیں بند کی جا سکتی ہیں کہ عالمی سطح پر جن گروپوں اور شخصیات کو امریکہ کی طرف سے سب سے بڑے دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے وہ دیوبندی مدارس کے نہیں بلکہ مغرب کی یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ ہیں اور امریکہ کی طرف سے عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دیے جانے والے نیٹ ورک میں شاید ایک بھی شخص کسی دینی مدرسہ سے تعلیم یافتہ نہیں ہے۔

ہم مذکورہ امریکی کانگریس مین اور ان کے ہمنواؤں سے یہ عرض کریں گے کہ وہ بوکھلاہٹ اور کھسیانے پن کی نفسیات اور ماحول سے باہر نکل کر کھلے ماحول میں زمینی حقائق کا سامنا کریں اور آج کی عالمی صورتحال کے پس منظر میں امریکی پالیسیوں کی ناکامی کے اسباب کو خود اپنے گھر میں تلاش کرنے کی کوشش کریں کہ امریکہ کے لیے اپنی پالیسیوں کو صحیح رخ پر لانے کے لیے اس کے سوا اب کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔

   
2016ء سے
Flag Counter