بعض دینی جماعتوں کا یہ مطالبہ گوجرانوالہ کی مقامی اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ جمعہ کے روز سرکاری تعلیمی اداروں میں جمعہ کی نماز کے لیے چھٹی کا وقت مسلسل کم کیا جا رہا ہے ، اس مقصد کے لیے پہلے بارہ بجے تعلیمی اداروں میں چھٹی کر دی جاتی تھی، پھر اس کا وقت ساڑھے بارہ کیا گیا اور اب ایک بجے تک اس وقت کو بڑھا دیا گیا ہے، جس سے اساتذہ اور طلبہ کے لیے جمعہ کی نماز باجماعت ادا کرنا مشکل ہو گیا ہے، بالخصوص وہ اساتذہ جو مساجد میں خطابت و امامت کی ذمہ داری بھی ادا کرتے ہیں زیادہ دقت محسوس کر رہے ہیں۔
جمعہ کے روز ہفتہ وار تعطیل کا مسئلہ بہت اہمیت رکھتا ہے اور دینی حلقوں کا ایک عرصہ سے مطالبہ ہے کہ ہفتہ وار تعطیل جمعہ کے روز کی جائے جو فضیلت کا دن ہے اور نماز جمعہ اور خطبہ و خطاب وغیرہ اہتمام کے ساتھ پڑھنے اور سننے کے لیے بھی اس سے آسانی رہتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس سلسلہ میں قومی حلقوں میں بحث چلی تو بعض حضرات نے سوال اٹھایا کہ کیا جمعہ کے روز چھٹی کا قرآن و حدیث میں کوئی حکم موجود ہے؟ ہم نے یہ عرض کیا کہ قرآن و حدیث میں ہفتہ وار تعطیل کا ہی کوئی صریح حکم موجود نہیں ہے، البتہ جب ہم اپنی سہولت اور حالات کے تحت کر رہے ہیں اور ہفتہ وار تعطیل کرنے کا ہم نے فیصلہ کر رکھا ہے تو اس کے لیے جمعہ کا دن ہر لحاظ سے بہتر اور مناسب ہے:
- ہفتہ میں سب سے زیادہ فضیلت والا دن ہونے کے حوالہ سے،
- نماز جمعہ کی پورے اہتمام کے ساتھ ادائیگی کے حوالہ سے،
- اور امتِ مسلمہ کی سابقہ روایات کے حوالہ سے بھی کہ ہمارے ہاں اسلامی اقتدار کے تمام ادوار میں جمعۃ المبارک کے روز چھٹی کی روایت چلی آرہی ہے۔
اس پر بعض حلقوں کی طرف سے کہا گیا کہ مغربی ملکوں میں ہفتہ وار چھٹی اتوار کو ہوتی ہے تو کاروباری لحاظ سے ان کے ساتھ چھٹی کرنا زیادہ مناسب ہے۔ ہم نے گزارش کی کہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں جمعہ کے روز چھٹی ہوتی ہے، ان کے ساتھ کاروباری موافقت کے لیے جمعہ کی چھٹی ہی موزوں ہے، مشرق وسطیٰ ہمارے قریب ہے، وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وقت کا فاصلہ بھی کم ہے۔ جبکہ مغربی ملکوں کے ساتھ وقت کا فاصلہ زیادہ ہے مثلاً امریکہ کے ساتھ ہماری صورتحال یہ ہے کہ وہاں دن ہے تو ہمارے ہاں رات ہے اور ہمارے ہاں رات ہے تو وہاں دن ہے، چنانچہ اس علاقہ کے ساتھ کاروباری اوقات کی موافقت تو ہفتہ میں کسی دن بھی نہیں ہو سکتی۔ جبکہ سعودی عرب کے ساتھ وقت کا صرف دو گھنٹے کا فرق ہے اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ یہ فرق ایک گھنٹے کا رہ جاتا ہے، ان کے ساتھ کاروباری اوقات کی موافقت روزمرہ ایک دو گھنٹے کے فرق کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ اس لیے کاروباری اوقات میں موافقت کے پہلو سے دیکھا جائے تو بھی جمعۃ المبارک کی چھٹی ہی ہمارے حالات و ضروریات کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔
مگر ہمیں مغرب کی ہر بات میں پیروی کا اس قدر شوق ہے کہ اپنی ضروریات اور حالات پر نظر کیے بغیر ہم ہر معاملہ میں مغربی ممالک کے ساتھ موافقت کے لیے تیار رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جنرل پرویز مشرف کو اپنے دور حکومت میں یہ شوق چرایا کہ چونکہ مغربی ملکوں میں موسم سرما میں گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کر دی جاتی ہیں اس لیے ہمیں بھی ایسا کرنا چاہیے۔ ہم نے گزارش کی کہ ان کی ضرورت تو سمجھ میں آتی ہے کہ موسم سرما اور موسم گرما میں دن اور رات کا فرق وہاں بسا اوقات آٹھ نو گھنٹے تک چلا جاتا ہے، اس لیے انہیں چند ماہ کے دوران گھڑی کو ایک گھنٹہ آگے پیچھے کر کے اپنے روزمرہ کے معمولات سیٹ کرنا پڑتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں دن اور رات میں اتنا زیادہ تفاوت نہیں ہوتا اس لیے ہمیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر جنرل صاحب موصوف نے ایک سال ایسا کرنے کا شوق پورا کیا لیکن جلدی ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ یہ محض تکلف تھا جو مغرب کی پیروی کے شوق میں روا رکھا گیا تھا چنانچہ اگلے سال وہ حکم واپس لے لیا گیا۔
اسی طرح کی صورتحال جمعۃ المبارک کی چھٹی کے بارے میں بھی ہے۔ ہماری دینی روایات، مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ کاروباری ہم آہنگی، اور مِلی جذبات کی پاسداری کا تقاضہ بہرحال یہ ہے کہ ہفتہ وار تعطیل جمعہ کے روز کی جائے۔ مگر یہ دیکھے بغیر کہ بہت سے مغربی ممالک کے دفاتر اور کاروباری مراکز جس وقت مصروف عمل ہوتے ہیں اس وقت ہمارے ہاں روزانہ دفاتر اور ادارے اپنا کام مکمل کر کے بند ہو چکے ہوتے ہیں، صرف ان کے ساتھ اتوار کے دن کی موافقت کے شوق میں ہم نے اتوار کی چھٹی کو گلے کا ہار بنا رکھا ہے۔ سابق وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنے دورِ حکومت میں اس صورتحال کو سمجھتے ہوئے جمعۃ المبارک کی ہفتہ وار چھٹی کا اعلان کر دیا تھا جو کافی عرصہ جاری رہی اور سب ملکوں کے ساتھ ہمارا کاروبار بھی چلتا رہا، مگر میاں محمد نواز شریف نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں اسے تبدیل کر کے اتوار کی چھٹی پھر سے بحال کر دی۔
ان حالات میں ہم حکومت سے گزارش کریں گے کہ ہفتہ وار تعطیل جمعہ کے روز کرنے کا فیصلہ بحال کیا جائے اور اگر خدانخواستہ ایسا نہیں کیا جاتا تو جمعہ کے روز نماز جمعہ کی صحیح طور پر ادائیگی کے لیے چھٹی کا وقت مختصر کرتے چلے جانے کے طرز عمل پر بہرحال نظرثانی کی جائے، کیونکہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے اہتمام اور اس کے لیے کاروبار وغیرہ چھوڑ دینے کا حکم تو قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ موجود ہے، کیا حکومتی دانشور اس کے لیے بھی خودساختہ دلائل کے کسی گورکھ دھندے میں پڑنا ضروری سمجھتے ہیں؟