تذکرہ تحریکات آزادی

   
۱۴ مارچ ۲۰۱۳

پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور برما پر مشتمل برصغیر میں برطانوی، فرانسیسی اور پرتگالی تجارتی کمپنیوں نے تجارت کے حوالہ سے آمد و رفت کا سلسلہ شروع کیا تھا مگر رفتہ رفتہ انہوں نے مغل حکمرانوں کو زوال پذیر ہوتا دیکھ کر اس خطے کے معاشی استحصال کے ساتھ ساتھ اس پر سیاسی حکمرانی کے خواب بھی دیکھنا شروع کر دیے جبکہ اورنگزیب عالمگیرؒ کی وفات کے بعد ہر طرف پھیل جانے والی طوائف الملوکی، باشندگان ہند کے باہمی خلفشار اور حکمران طبقات کی نا اہلی اور بے بصیرتی نے مغربی در اندازوں کا مسلسل راستہ ہموار کیا جس کے نتیجے میں برطانیہ، فرانس اور پرتگال سے تعلق رکھنے والی تجارتی کمپنیوں نے اپنی اپنی فوجیں منظم کیں اور دھیرے دھیرے مختلف علاقوں پر قبضہ جماتی چلی گئیں، حتیٰ کہ ان میں سے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی غالب آئی اور اس نے کم و بیش ایک سو برس کی مسلسل تگ و دو کے بعد پورے برصغیر پر تسلط جما لیا۔

مغربی استعمار کے اس تسلط اور متحدہ ہندوستان کو نو آبادی بنانے کی اس مغربی مہم کی راہ میں ہر دور میں حریت پسندوں نے مزاحمت کی کوشش کی لیکن وہ مختلف اسباب و عوامل کی وجہ سے پسپا ہوتے چلے گئے اور بالآخر ۱۸۵۷ء میں برطانوی حکومت نے اس پورے خطے کو نو آبادی قرار دے کر اپنی سلطنت میں شامل کر لیا جس کے بعد تحریک آزادی کا ایک نیا دور شروع ہوا اور کم و بیش نوے برس کی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں ۱۹۴۷ء میں برطانوی حکومت یہاں سے رخصت ہوئی اور یہ خطہ پاکستان، بھارت اور برما کی آزاد ریاستوں کی صورت میں دنیا کے نقشے پر اپنا مستقل تشخص قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ برطانوی استعمار کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے اور اس کے تسلط کے بعد اس سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جن لوگوں نے حریت پسندی کے جذبہ کے ساتھ جدوجہد کی اور قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی وہ یقیناً اس خطے کے تمام باشندوں کے محسنین ہیں اور ان کی قربانیوں کی وجہ سے ہی یہ اقوام و ممالک آج آزاد ممالک و اقوام کے طور پر متعارف ہیں۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ آج کی نئی نسل ان محسنین اور مجاہدین سے واقف نہیں ہے اور نہ ہی نئی نسل کو اپنے اس شاندار ماضی سے واقف رکھنے کے لیے حکومتی سطح پر بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی منصوبہ بندی یا سوچ موجود ہے۔ اس افسوسناک صورت حال کا ایک نا مبارک ثمرہ یہ بھی ہے کہ آزادی کی قدر و قیمت، اس کی اہمیت اور اس کے تحفظ کے جذبہ سے آج کا عمومی ماحول نا آشنا ہے اور آزادی حاصل کرنے کے باوجود ہم ابھی تک عالمی استعمار کے ریموٹ کنٹرول شکنجے میں اس بری طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ اس سے گلو خلاصی کی کوئی صورت بظاہر دکھائی نہیں دے رہی۔

آزادی کی جنگ لڑنے والوں اور اس کے لیے بے پناہ اور بے شمار قربانیاں دینے والوں میں علماء حق اور مسلمانوں کے دینی کارکن ہمیشہ سب سے نمایاں رہے ہیں اور ان ارباب عزیمت اور اصحاب ذوق کی قربانیوں کی وجہ سے نہ صرف برصغیر باشندگان وطن کو آزادی کی نعمت نصیب ہوئی ہے بلکہ بہت سے دوسرے ممالک کی مظلوم اور غلام اقوام نے بھی ان قربانیوں سے روشنی اور راہ نمائی حاصل کی ہے۔ لیکن ستم ظریفی کا ایک المناک پہلو ہے کہ خود مسلمانوں کے دینی حلقے، علماء کرام حتیٰ کہ دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ بھی اس جدوجہد اور قربانیوں سے واقف نہیں ہیں بلکہ جن بزرگوں اور اکابر کا نام لے کر ہم دنیا میں اپنا تعارف کراتے ہیں اور جن کی جدوجہد کے تسلسل کے ساتھ خود کو جوڑ کر عزت حاصل کرتے ہیں، ان کی حیات و خدمات اور جدوجہد سے ہمیں شناسائی حاصل نہیں ہے اور نہ ہی اس کی کسی سطح پر ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ کسی محفل میں موقع و محل کی مناسبت سے اکابر علماء حق کی جدوجہد اور تحریک آزادی کے راہ نماؤں کی خدمات اور کارناموں کا تذکرہ کرتا ہوں تو سننے والوں کے چہروں پر حیرت و اجنبیت کی جھلک نظر آنے لگتی ہے۔ کچھ دنوں سے میں نے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی ماہانہ فکری نشستوں میں اکابر علماء حق کا تذکرہ شروع کر رکھا ہے۔ ایک نشست میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی قومی و ملی خدمات کا تذکرہ کیا تو ایک پرانے دوست نے کہا کہ مجھے آج پہلی بار بہت سی باتیں معلوم ہوئی ہیں اور یہ پتہ چلا ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی زندگی کا یہ پہلو بھی ہے۔ اسی طرح ایک نشست میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی تحریک آزادی کے لیے خدمات کا تذکرہ کیا تو دینی مدارس کے اساتذہ کی سطح کے بعض شرکاء نے تعجب کا اظہار کیا کہ ہمیں تو ان باتوں کا علم نہیں تھا۔

اس پس منظر میں ہمارے فاضل دوست مولانا شفیع اللہ چترالی نے اس اہم ترین ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ’’تذکرہ تحریکات آزادی‘‘ کے عنوان سے آزادی کی مختلف تحریکات کے تعارف پر مشتمل ایک جامع کتاب مرتب کی ہے جسے میں نے ایک نظر دیکھا ہے اور اس میں بعض مقامات پر مشورے بھی دیے ہیں۔ آزادی کی تحریکات کے حوالہ سے اکابر کی بہت سی کتابیں اور تصنیفات موجود ہیں اور تاریخ کے ریکارڈ میں بہت بڑا ذخیرہ مطالعہ کے لیے میسر ہے لیکن ہماری اس طرف توجہ نہیں ہے اور مطالعہ و تحقیق کا ذوق کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے مولانا شفیع چترالی کی یہ کاوش قابل داد ہے جو انہوں نے بہت سی طویل کتابوں میں بکھری ہوئی معلومات کو اچھے ذوق اور اسلوب کے ساتھ جمع کر دیا ہے، میرے خیال میں ان کی یہ کتاب دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ ساتھ دینی جماعتوں کے کارکنوں کے لیے بھی اپنے اکابر کی قومی و ملی جدوجہد سے واقفیت کے حوالہ سے بہترین گائیڈ اور راہنما ثابت ہوگی۔ دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت اس کاوش کو قبول فرمائیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس سے استفادہ کرنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter