قصاص کے شرعی قانون کے خلاف مہم

   
ستمبر ۲۰۱۳ء

روزنامہ ’’اوصاف‘‘ اسلام آباد میں ۱۹ اگست ۲۰۱۳ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق:

’’پاکستان میں سزائے موت کو ختم کرنے اور پھانسی کی سزاؤں پر عملدرآمد کو روکنے کے لیے انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے صدر کی جانب سے حکومت پاکستان کو لکھے جانے والے خط پر وکلاء نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام نے جان کے بدلے جان کا حکم دیا ہے اور قاتل کو سزائے موت دینا فساد فی الارض کو روکنا ہے ،جبکہ اسلام ہمیں جان کے بدلے جان اور خون کے بدلے خون کا قانون دیتا ہے، لہٰذا کسی بھی غیر ملکی اور غیر اسلامی این جی اوز کے کہنے پر ملک میں سزائے موت کو ختم کرنا اور پھانسی کی سزا کو روکنا قرآن و حدیث کے منافی اقدام ہو گا اور اسلام ہمیں ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتا۔ سابق صدر لاہور بار شہزاد حسن شیخ اور سابق سیکرٹری سید اسد عباس زیدی نے کہا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے اور فطرت کو کبھی بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور دیگر بہت سے بین الاقوامی ادارے کچھ عرصہ سے مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ دنیا بھر میں موت کی سزا کو کلیۃً ختم کر دیا جائے اور اس کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان پر بھی دباؤ ہے جس میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان کے قانون میں جن جرائم میں موت کی سزا مقرر کی گئی ہیں انہیں تبدیل کر کے موت کی سزا کو یکسر ختم کر دیا جائے۔ حکومت پاکستان نے ملک کے قوانین میں تبدیلی کی تو اب تک کوئی بات نہیں کی لیکن گزشتہ کئی برسوں سے موت کی سزا عملاً معطل ہے اور جن مجرموں کو ملک کی عدالتیں موت کی سزا سنا چکی ہیں انہیں پھانسی دینے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس سلسلہ میں عالمی دباؤ بہت زیادہ ہے اور انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے صدر کا حکومت پاکستان کے نام مذکورہ خط بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔

پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے جس کے دستور کی بنیاد اسلام پر ہے۔ اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دیتے ہوئے دستور میں طے کیا گیا ہے کہ ملک میں قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نافذ نہیں کیا جائے گا اور قرآن و سنت کے قوانین کو بتدریج ملک میں نافذ العمل بنایا جائے گا۔ جبکہ اسلام میں صرف قتل پر نہیں بلکہ بہت سے دیگر جرائم پر بھی موت کی سزا مقرر کی گئی ہے اور یہ قوانین پاکستان کے قانونی نظام کا حصہ ہیں جن سے خدانخواستہ دستبرداری ملک کے بنیادی نظریہ سے دستبرداری اور دستور سے انحراف ہو گا۔

اس لیے ہم لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سیکرٹری صاحبان کے اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کی مکمل تائید کرتے ہیں اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس سلسلہ میں گومگو کی پالیسی ترک کرتے ہوئے واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرے اور صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر کی مسلم حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اجتماعی طور پر بے لچک انداز میں اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں پر واضح کریں کہ کسی مسلمان ملک کے مسلمان معاشرہ سے یہ مطالبہ ان کے مذہبی حقوق اور تہذیبی شناخت کے منافی ہے کہ وہ نعوذ باللہ قرآن و سنت کے واضح احکام سے روگردانی کا راستہ اختیار کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter