غزہ پر اسرائیلی فضائیہ کی بمباری اور زمینی فوجوں کی کاروائیاں مسلسل جاری ہیں، سینکڑوں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، مکانات جل گئے ہیں اور ہر طرف تباہی مچی ہوئی ہے، مگر عالمِ اسلام پر سکوت مرگ طاری ہے اور خاص طور پر مسلم حکمران بے حسی اور بے بسی کی عبرتناک تصویر بنے ہوئے ہیں۔ اسرائیل جب سے وجود میں آیا ہے اس کی طرف سے فلسطینی عوام کے خلاف جبر و تشدد اور ظلم و استبداد کا یہ عمل مسلسل جاری ہے، لاکھوں فلسطینی دنیا کے مختلف ممالک میں پناہ گزین ہیں اور جو لوگ اپنے ملک کے اندر ہیں گزشتہ ساٹھ برس سے حالت جنگ میں ہیں اور قربانیاں دیتے چلے جا رہے ہیں۔
اسرائیل کو اب سے پون صدی قبل یورپی طاقتوں نے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد اس کے عرب علاقوں کی بندر بانٹ کے دوران یہودیوں کے ساتھ برطانوی وزیر خارجہ بالفور کے معاہدے کے مطابق قائم کیا تھا، اور فلسطین کا کنٹرول سنبھال کر برطانیہ نے دنیا بھر سے یہودیوں کو جمع کرنے اور انہیں فلسطین میں بسانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی تھی۔ اس سے قبل یہودی دنیا بھر میں بکھرے ہوئے تھے اور کہیں بھی ان کی کوئی ریاست نہیں تھی، یہودیوں کی عالمی صہیونی تحریک نے خلافت عثمانیہ سے تقاضہ کیا کہ انہیں فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دی جائے کیونکہ وہ ان کا پرانا قومی وطن ہے لیکن عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید ثانیؒ نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا، ان کا کہنا یہ ہے کہ وہ فلسطین میں آباد ہو کر بیت المقدس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے اس کی اجازت نہیں دی۔
بعد میں جب پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کے ساتھ اس کی اتحادی خلافت عثمانیہ کو بھی شکست ہو گئی اور عرب علاقے اس کے ہاتھ سے نکل گئے تو یہودیوں نے برطانیہ سے رابطہ کیا اور اس کے وزیر خارجہ سے معاہدہ کر لیا جس کے تحت برطانیہ نے فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کرتے ہوئے انہیں وہاں بسانے اور ان کی ریاست قائم کرنے کا وعدہ کیا۔ چنانچہ فلسطین پر تسلط قائم ہوتے ہی برطانیہ نے دنیا بھر کے یہودیوں کو وہاں آکر آباد ہونے کی اجازت اور سہولت فراہم کر دی جس کے تحت دنیا کے مختلف ممالک سے یہودی وہاں آکر بسنے لگے اور زمینیں خرید کر وہاں مکانات اور کاروبار وغیرہ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس موقع پر مفتی اعظم فلسطین الحاج امین الحسینیؒ نے فتویٰ دیا کہ یہودیوں پر فلسطین کی زمین فروخت کرنا حرام ہے اس لیے کہ وہ اس کے ذریعے بیت المقدس کا کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں، جبکہ برصغیر پاک و ہند کے اکابر علماء نے بھی اس فتویٰ کی تائید کی جس کی تفصیل حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کتاب ’’بوادر النوادر‘‘ میں موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود فلسطین کی زمین فروخت ہوتی رہی اور جب یہودیوں نے فلسطین کے معتد بہٖ حصے کو خرید کر وہاں آبادی اختیار کر لی تو برطانیہ نے اقوام متحدہ سے رجوع کر کے فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ کرا لیا اور فلسطین کے ایک حصے کو یہودیوں کے قومی وطن کے طور پر ’’اسرائیل‘‘ کے نام سے اقوام متحدہ اور مغربی طاقتوں نے تسلیم کر لیا، تب سے فلسطینیوں کی مزاحمت اور اسرائیل کے وجود و تسلط سے آزادی کے لیے ان کی جنگ جاری ہے۔
دنیا بھر سے یہودیوں کی فلسطین میں آمد اور آبادکاری کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ برطانیہ اور دیگر مغربی طاقتوں نے فلسطین کو ان کا قومی وطن تسلیم کر کے ان کی ریاست قائم کرانے کا وعدہ پورا کیا، لیکن اس کا ایک پہلو اور بھی ہے جس کی طرف قرآن کریم میں اشارہ موجود ہے، سورۃ بنی اسرائیل کی ایک آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے خطاب کر کے فرمایا ہے کہ ’’ فاذا جاء وعد الاٰخرۃ جئنا بکم لفیفا‘‘ جب آخرت کے وعدہ کا وقت ہو گا تو ہم تمہیں سمیٹ کر لے آئیں گے۔ تفسیر بغوی میں اس کی ایک تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ جب حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نزول کا وقت قریب ہو گا تو دنیا بھر سے یہودیوں کو سمیٹ کر ایک جگہ جمع کر دیا جائے گا، چنانچہ اس حوالہ سے یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے جو پوری ہو چکی ہے کہ یہودی ایک مرکز میں جمع ہو چکے ہیں اور اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ البتہ تاریخی تناظر میں فلسطین کے ایک حصہ کو اسرائیل کے نام پر یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور مغربی طاقتوں نے فلسطینیوں کے لیے بھی ان کے قدیمی وطن کے ایک حصہ کو مخصوص کیا تھا اور اسرائیل کی طرح فلسطین کی آزاد ریاست قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا، جیسا کہ اقوام متحدہ کے فیصلے اور قراردادوں میں واضح طور پر موجود ہے کہ فلسطین کی آزاد ریاست قائم کی جائے گی اور فلسطینیوں کو آزادی کے ساتھ اس کا نظام چلانے کا حق دیا جائے گا، لیکن یہ حق آج تک نہیں دیا گیا اور میونسپلٹی طرز کی ایک فلسطینی اتھارٹی قائم کر کے فلسطینیوں کو ٹرخایا جا رہا ہے کہ ان کا الگ وطن قائم ہو گیا ہے۔
جبکہ اس مسئلہ پر عالمِ اسلام دو حصوں میں تقسیم ہے:
- سعودی عرب اور پاکستان سمیت بہت سے ممالک نے فلسطین کی تقسیم کو تسلیم نہیں کیا، وہ اسرائیل کو ایک جائز اور قانونی ریاست نہیں سمجھتے اور پورے فلسطین کو فلسطینیوں کا وطن قرار دیتے ہیں۔
- جبکہ مصر و شام اور دیگر بہت سے ممالک نے اسرائیل کو ایک جائز ریاست کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے اور ان کا مطالبہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کو بھی ایک مکمل آزاد اور خود مختار ریاست قائم کرنے کا حق دیا جائے اور اسرائیل کو اقوام متحدہ کی مقرر کردہ حدود میں واپس جانے اور ان علاقوں کو خالی کرنے پر مجبور کیا جائے جو اس نے بین الاقوامی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے ۱۹۶۷ء میں قبضہ کر لیے تھے اور بیت المقدس بھی انہی میں شامل ہے۔
فلسطینی جماعتوں الفتح اور حماس کا موقف بھی اسی طرح آپس میں مختلف ہے اور ہمارے خیال میں اسی اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نہ صرف یہ کہ فلسطین کی قومی خود مختاری میں مسلسل رکاوٹیں ڈال رہا ہے بلکہ وقفہ وقفہ سے مختلف بہانوں سے فلسطینیوں کو جبر و ظلم کا نشانہ بنانے میں مصروف ہے جس کی تازہ لہر غزہ پر اسرائیل کی مسلسل بمباری اور فوج کشی کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔
اس سلسلہ میں سب سے زیادہ افسوسناک رویہ مسلم اور عرب حکومتوں کا ہے کہ وہ اس اسرائیلی دہشت گردی اور بربریت کا نوٹس لینے میں سنجیدہ نہیں ہیں بلکہ زبانی جمع خرچ اور خالی مذمتی بیانات کے ساتھ وقت گزارنے میں مصروف ہیں۔ جبکہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ فوری طور پر مسلم سربراہ کانفرنس بلائی جائے اور بیت المقدس اور فلسطین کے مسئلہ پر پالیسی میں باہمی اختلاف کا ازسرِنو جائزہ لیتے ہوئے متفقہ موقف اور لائحہ عمل طے کیا جائے۔ حکومت پاکستان نے بھی اس حوالہ سے اسرائیل کی مذمت کی ہے اور سینٹ آف پاکستان میں قائد ایوان راجہ محمد ظفر الحق نے پاکستان کے موقف کی وضاحت کی ہے مگر ہماری گزارش ہے کہ حکومت پاکستان مذمتی بیان پر اکتفا کرنے کی بجائے اس مسئلہ پر عالم اسلام کو متفقہ اور مؤثر موقف پر لانے کے لیے متحرک کردار ادا کرے۔