۱۹، ۲۰، ۲۱ مارچ کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ادارہ تحقیقات اسلامی کے زیراہتمام ’’اجتماعی اجتہاد: تصور، ارتقا اور عملی صورتیں‘‘ کے عنوان پر تین روزہ سیمینار کا انعقاد ہوا جس میں پاکستان کے مختلف مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام اور اہلِ دانش کے علاوہ متحدہ عرب امارات سے عرب دنیا کے ممتاز عالم و فقیہہ الاستاذ الدکتور وہبہ الزحیلی اور بھارت سے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا سید جلال الدین العمری، مولانا سعود عالم قاسمی اور جناب فہیم اختر ندوی نے شرکت کی۔ مجھے بھی شرکت اور گفتگو کی دعوت دی گئی تھی اس لیے پہلے دو دنوں کی تقریباً تمام نشستوں میں حاضر رہا۔ ۲۰ مارچ کو ظہر کے بعد کی نشست میں مجھے صدارت کا اعزاز بخشا گیا جبکہ میرے ذمہ ’’مغربی تہذیب و فلسفہ اور مسلم امہ کا ردعمل‘‘ کے عنوان پر مقالہ پیش کرنا اور ایک عمومی نشست میں ’’پاکستان میں اجتماعی اجتہاد کی کوششوں پر ایک نظر‘‘ کے موضوع پر زبانی اظہار خیال کرنا تھا اور بحمداللہ تعالیٰ دونوں ذمہ داریاں نبھانے کی سعادت حاصل ہوئی۔
میں جب اختتامی نشست میں پہنچا تو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر محمود احمد غازی خطاب فرما رہے تھے اور سینٹ آف پاکستان میں قائد ایوان جناب وسیم سجاد مسند صدارت پر رونق افروز تھے، جبکہ ڈاکٹر وہبہ زحیلی مہمان خصوصی کی نشست پر تشریف فرما تھے۔ ان کے علاوہ بین الاقوامی یونیورسٹی کے ری ایکٹر جسٹس خلیل الرحمن خان ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری اور اسی ادارہ کے شعبہ فقہ و قانون کے صدر ڈاکٹر محمد طاہر منصوری نے بھی اس نشست سے خطاب کیا۔ ان فضلاء نے اجتماعی اجتہاد کی اہمیت و ضرورت اور پاکستان میں اس کی ممکنہ عملی صورتوں اور امکانات پر سیر حاصل بحث کی اور اس کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا۔
مگر مجھے جسٹس خلیل الرحمن خان کی اس تجویز اور تجزیہ میں موجودہ معروضی صورتحال کی روشنی میں اہمیت و ضرورت کا پہلو زیادہ نمایاں نظر آیا کہ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان اور عدلیہ کے جج صاحبان کو قرآن و سنت کے احکام سے باخبر کرنے کے لیے ان اداروں کے ساتھ مستقل تحقیقی شعبے قائم کیے جائیں۔ پارلیمنٹ میں تجربہ کار اور جید علماء پر مشتمل ایک ریسرچ سیل ہونا چاہیے اور ایک بڑی لائبریری موجود ہونی چاہیے کہ اگر کوئی مسئلہ پارلیمنٹ میں پیش ہو تو ارکان اس سلسلہ میں دینی رہنمائی کے لیے اس سے رجوع کر سکیں اور انہیں اس بارے میں بریف کیا جا سکے۔ اسی طرح عدلیہ میں بھی اس قسم کے شعبوں کا قیام ضروری ہے۔ جسٹس (ر) خلیل الرحمن نے بتایا کہ بعض مسائل میں جج صاحبان اس لیے بھی صحیح فیصلہ نہیں کر پاتے کہ ان کے پاس دینی طور پر اس مسئلہ میں ضروری معلومات نہیں ہوتیں، انہیں اگر صحیح طور پر بریف کر دیا جائے تو وہ بہتر فیصلے کر سکتے ہیں۔ جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان کی یہ تجویز مجھے بہت اچھی لگی ہے اور اس نشست کے صدر جناب وسیم سجاد نے بھی اس میں دلچسپی لی ہے، میرا خیال ہے کہ اگر وسیم سجاد صاحب اس کی اہمیت کو محسوس کر لیں تو وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ اس پر عملدرآمد کا اہتمام کر سکتے ہیں۔
سیمینار کی ایک نشست میں مجھے دعوت دی گئی کہ ’’پاکستان میں اجتماعی اجتہاد کی کوششوں پر ایک نظر‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کروں، اس ضمن میں جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ پہلی بات میں یہ عرض کروں گا کہ جب ہم اجتماعی اجتہاد کی بات کرتے ہیں تو ’’اجتماع‘‘ کے لفظ سے کیا مراد ہوتا ہے؟ اس کے مختلف دائرے ہیں:
- ایک دائرہ یہ ہے کہ کسی مسئلہ پر اجتہادی نقطۂ نظر سے غور کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو یہ کام شخصی طور پر نہ کیا جائے بلکہ چند افراد مل کر اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوں۔ اس سلسلہ میں کراچی کی اس عملی و تحقیقی مجلس کی مثال دی جا سکتی ہے جس میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ، حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ، حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ اور دیگر اکابر علماء عملی مسائل پر باہمی مشاورت کے ساتھ رائے قائم کیا کرتے تھے۔ اس قسم کی مجالس کا اہتمام بریلوی اور اہلحدیث مکاتبِ فکر میں بھی یقیناً ہوتا ہوگا مگر میری معلومات میں اس کی مثال وہی ہے جس کا میں نے تذکرہ کر دیا ہے۔
- دوسرا دائرہ یہ کہ مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام باہم مل بیٹھ کر کسی اجتہادی مسئلہ پر غور کریں اور مشترکہ موقف قائم کریں، اس سلسلہ میں ۳۱ علماء کرام کے ۲۲ دستوری نکات سمیت متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
- تیسرا دائرہ یہ ہے کہ قدیم اور جدید ماہرین کا اجتماع ہو اور دینی علوم کے ماہرین کے ساتھ عصری قانون اور علوم کے ماہرین بھی اجتہاد کے عمل میں شریک ہوں۔
- جبکہ چوتھا دائرہ یہ ہے کہ مختلف ممالک کے علماء کرام بین الاقوامی ماحول میں اجتہاد کے عمل کا اہتمام کریں۔
پاکستان کے قیام کے بعد اس کی دستور ساز اسمبلی میں یہ بحث شروع ہو گئی تھی کہ پاکستان کا حکومتی نظام اور دستوری ڈھانچہ کیا ہوگا۔ ذہنوں میں خلافت کا وہ نظام بھی موجود تھا جس کا خاتمہ صرف ربع صدی قبل ترکی میں ہوا تھا، اور مغرب کی طرز کی سیکولر حکومتوں کا نظام بھی سامنے تھا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسلامی نظام کا نفاذ اس کا مقصد قرار پایا تھا، اس لیے یہ کشمکش دستور ساز اسمبلی میں کافی دیر تک چلتی رہی کہ پاکستان کے دستوری ڈھانچے کی نوعیت کیا ہو؟ اس دور میں دستور ساز اسمبلی کے اجلاسوں کی کاروائی اور مباحث پر نظر ڈال لی جائے تو اس کشمکش کا صحیح طور پر اندازہ ہو جائے گا۔ اس موقع پر دستور ساز اسمبلی میں حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور پارلیمنٹ سے باہر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ، مولانا عبد الحامد بدایونیؒ، مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ اور مولانا ظفر احمد انصاریؒ جیسے اکابر علماء کرام نے محنت کی اور اس کے نتیجے میں ’’قراردادِ پاکستان‘‘ منظور کی گئی جس نے پاکستان کی نظریاتی اساس متعین کر دی۔ اور یہ ایک اجتہادی عمل تھا جس کی پشت پر اپنے وقت کے سرکردہ علماء کرام تھے، لیکن جو پارلیمنٹ کے ذریعے عمل میں لایا گیا۔ پارلیمنٹ نے طے کیا کہ پاکستان میں:
- حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہوگی،
- حکومتی ڈھانچہ جمہوری ہوگا،
- اور عوام کے منتخب نمائندے اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسولؐ کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے ملک کا نظام چلائیں گے۔
یہ ایک درمیان کا راستہ تھا جو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جدید ریاستی تصورات کا لحاظ رکھتے ہوئے پاکستان کے دستوری ڈھانچے اور حکومتی نظام کے لیے اختیار کیا گیا، اور یہ اپنے دور کا بہت بڑا اجتہادی فیصلہ تھا۔
اس کے بعد قادیانی مسئلہ پر نظر ڈالیں۔ ایک مسلم معاشرہ میں نبوت کا دعویٰ اور اس کی پیروی کرنے والوں کے حوالہ سے قادیانیوں کے بارے میں عام مسلمانوں اور دینی حلقوں کا موقف وہی تھا جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اختیار کیا تھا، اور اس مسئلہ پر شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کا مستقل رسالہ ’’الشہاب‘‘ کے نام سے موجود ہے۔ جبکہ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کا موقف یہ تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر ایک اقلیت کے طور پر زندہ رہنے کا حق دیا جائے کیونکہ آج کے دور میں یہی قابلِ عمل ہے۔ چنانچہ پاکستان کے قیام کے بعد تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام نے قادیانیوں کے بارے میں وہ موقف اختیار کیا جو علامہ اقبالؒ کا تھا اور اسی پر اپنے مطالبات اور تحریک کی بنیاد رکھی اور اس کے مطابق پیشرفت کرتے ہوئے ۱۹۷۴ء میں دستوری طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کا درجہ دلوانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ فیصلہ بھی پارلیمنٹ کے ذریعے ہوا اور علماء کے متفقہ موقف کو عوام کی منتخب پارلیمنٹ نے دستوری حیثیت دے دی۔
پھر تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام ۲۲ دستوری نکات پر نظر ڈال لیجئے، یہ سارے کا سارا عمل اجتہادی تھا اور اجتماعی اجتہاد تھا جس میں تمام مکاتبِ فکر کے اکابر علماء کرام نے مل جل کر ملک کے دستوری نظام کے خدوخال طے کیے۔ یہاں ایک اور بات دلچسپی کی ہے کہ ۲۲ نکات کی ترتیب کے وقت کم و بیش تمام علماء کرام نے متفقہ طور پر ملک کے لیے وحدانی صدارتی طرز حکومت طے کیا تھا لیکن ۱۹۷۳ء کے دستور کی ترتیب و تشکیل کے موقع پر ملکی مفاد و ضرورت کے تحت علماء کرام نے اس پر نظرثانی کی ضرورت محسوس کی تو اس میں کسی تامل سے کام نہیں لیا اور وفاقی پارلیمانی نظام سے اتفاق کر لیا۔
یہ دونوں اجتہادی عمل تھے جن میں مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کرام شریک تھے اور یہ اجتماعی اجتہاد کا عملی مظاہرہ تھا۔
۱۹۷۳ء کے دستور کی تشکیل کے وقت بھی علماء کرام کو مختلف حوالوں سے اجتہادی عمل کا سامنا تھا، اس میں مسلمان کی قانونی تعریف کے تعین کا مسئلہ بھی تھا جس کا سلسلہ ۱۹۵۳ء کی تحریکِ ختمِ نبوت کے بارے میں جسٹس منیر انکوائری کمیشن کے دور سے چلا آرہا تھا۔ ۱۹۷۳ء کی دستور ساز اسمبلی میں ملک کے دو بڑے مذہبی مکاتبِ فکر دیوبندی اور بریلوی کے سرکردہ علماء کرام موجود تھے۔ مولانا مفتی محمودؒ تھے، مولانا عبد الحقؒ تھے، مولانا غلام غوث ہزارویؒ تھے، مولانا شاہ احمد نورانیؒ تھے، مولانا محمد ذاکرؒ تھے، مولانا عبد المصطفیٰ الازہریؒ تھے، مولانا ظفر احمد انصاریؒ تھے۔ انہوں نے باہمی اتفاق رائے سے مسلمان کی دستوری تعریف کا تعیّن کیا جسے دستور ساز اسمبلی نے منظور کر لیا۔ اور بلاشبہ یہ ایک اجتہادی عمل تھا جو اجتماعی صورت میں ظہور میں آیا تھا۔
اس وقت ایک اور چیلنج علماء کرام کے سامنے تھا، وہ یہ کہ ملک میں اسلامی نظام پورے کا پورا یکبارگی نافذ کیا جائے یا اس میں تدریجی طریق کار اختیار کیا جائے۔ اس پر علماء کرام کے حلقوں میں بحثیں ہوتی رہی ہیں لیکن دستور ساز اسمبلی میں سب علماء کرام نے اسلامی قوانین کے تدریجی نفاذ پر اتفاق کر لیا اور ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ تشکیل دے کر اسے ملکی قوانین کے جائزہ کے لیے سات سال کا وقت دیا گیا، میری طالب علمانہ رائے میں یہ بھی اجتہادی عمل تھا۔
یہاں ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ ہمارے ہاں علماء کرام نے اجتہاد میں ہمیشہ اجتماعیت کا راستہ اختیار کیا ہے اور اس کی تنفیذ میں پارلیمنٹ کی اہمیت اور اتھارٹی سے کبھی انکار نہیں کیا۔ انہوں نے جن مسائل میں بھی اجتہاد کیا اپنے فیصلوں کو قانونی شکل دینے اور ان کے عملی نفاذ کے لیے پارلیمنٹ ہی کو ذریعہ بنایا۔ اور میرے خیال میں اجتہاد کے عمل میں پارلیمنٹ کا یہی کردار اس کا صحیح مقام ہے کہ اہلِ علم کسی اجتہادی مسئلہ پر کوئی رائے اختیار کریں تو پارلیمنٹ اس پر بحث و تمحیص اور غور و خوض کے بعد اسے قانونی حیثیت دے اور اس کی تنفیذ کا اہتمام کرے۔
یہ فیصلے اجتماعی اجتہاد کے اس دائرے سے تعلق رکھتے ہیں جن میں مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کرام نے باہمی اشتراک و مباحثہ کے بعد اجتہادی فیصلے کیے ہیں، مگر قدیم اور جدید حوالہ سے بھی پاکستان میں اجتماعی اجتہاد پورے اہتمام کے ساتھ ہوتا آرہا ہے۔ اس سلسلہ میں وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جو دستوری ادارے ہیں اور ان میں دینی علوم کے ماہرین کے ساتھ ساتھ عصری قانونی نظام سے وابستہ تجربہ کار حضرات بھی شامل ہیں۔ بلکہ یوں کہنا شاید زیادہ مناسب ہو کہ عصری قانونی نظام کے ماہرین علماء کرام کے تعاون سے یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ ان دو اداروں کا اجتہادی کام اس قدر وقیع، جامع اور ہمہ گیر ہے کہ اسے نہ صرف پاکستان کو ایک صحیح اسلامی ریاست بنانے کے لیے بنیاد بنایا جا سکتا ہے بلکہ وہ پوری دنیا کے اسلام کے لیے ایک مثالی اور رہنما عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کے کام کے بارے میں چونکہ اس سیمینار میں دوسرے فاضل دوستوں نے تفصیل کے ساتھ بریفنگ دی ہے اس لیے اس ضمن میں تفصیلات بیان کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، البتہ یہ ضرور عرض کروں گا کہ اجتماعی اجتہاد کا یہ عملی کام بلاشبہ آج کے دور میں پورے عالمِ اسلام کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
اس کے ساتھ ہی میں ایک اور اجتہادی عمل کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا جو قدیم اور جدید کے امتزاج کے ساتھ پاکستان کے ایک کونے میں جاری ہے۔ ریاست آزاد جموں و کشمیر میں اس وقت بہت سے شرعی قوانین پر عمل ہو رہا ہے اور تحصیل و ضلع کی سطح کی عدالتیں شرعی احکام کے مطابق بیشتر مقدمات کے فیصلے کر رہی ہیں۔ اس کے لیے مشترکہ عدالتی نظام کا طریق کار اختیار کیا گیا ہے۔ تحصیل کی سطح پر سول جج اور شرعی قاضی اکٹھے بیٹھتے ہیں اور مقدمات کا مشترکہ فیصلہ کرتے ہیں، جبکہ ضلع کی سطح پر سیشن جج اور ضلع قاضی مل کر بہت سے مقدمات نمٹاتے ہیں۔ قضا کا تعلق بھی اجتہاد سے ہے اور اس طرح آزاد کشمیر کا مشترکہ عدالتی نظام آج کے دور اجتماعی اجتہاد ہی کی ایک شکل ہے جو عملاً موجود اور جاری ہے۔
میں نے قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک اجتماعی اجتہاد کی مختلف صورتوں اور اجتہاد کی عملی کاوشوں کا تذکرہ کیا ہے جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے علماء کرام نے نہ کبھی اجتہاد کی ضرورت سے انکار کیا ہے، نہ اجتماعی اجتہاد سے گریز کیا ہے، اور نہ ہی اجتہاد کے عمل میں پارلیمنٹ کے کردار سے صرف نظر کیا ہے۔ جبکہ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء کرام آج کے دور کے عملی تقاضوں کو ازخود محسوس کریں اور ۳۱ علماء کرام کے ۲۲ نکات کی طرح وقت کی ضروریات کا ازخود جائزہ لیتے ہوئے غیر سرکاری اور غیر سیاسی سطح پر اجتماعی اجتہاد کا کوئی فورم قائم کریں، ایسا قدم نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ بہت سے مسائل کا حل بھی ہے۔