امریکی کانگریس کا ناشتہ اور مسلم لیڈرز

   
یکم فروری ۲۰۰۳ء

’’آن لائن‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈونیشیا کی دو اسلامی تنظیموں کے سربراہوں نے امیگریشن قوانین اور عراق کے خلاف امریکی موقف پر احتجاج کرتے ہوئے امریکی کانگریس کی طرف سے دی جانے والی ناشتے کی دعوت کو مسترد کر دیا ہے۔ اسلامی تنظیموں کے سربراہ ہاشم موزاذی نے کہا ہے کہ میں عراق کے خلاف اختیار کی گئی امریکی پالیسی کے خلاف احتجاج کے طور پر اس دعوت میں نہیں جا رہا۔ انڈونیشیا کی ایک اور بڑی اسلامی تنظیم ’’محمدیہ‘‘ کے چیئرمین صارفی معارف نے بھی اس دعوت کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکی کانگریس کی طرف سے ناشتے کی دعوت کو اس لیے بھی مسترد کیا ہے کہ امریکہ میں مقیم انڈونیشیا کے باشندوں کو رجسٹریشن کرانے کا پابند بنایا گیا ہے۔

انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے عالم اسلام کا سب سے بڑا ملک ہے اور مشرق بعید میں ہزاروں جزیروں پر مشتمل ہے۔ اس خطہ میں آباد مسلمانوں کی غالب اکثریت حضرت امام شافعیؒ کی فقہ کی پیروکار ہے اور مختلف اسلامی تنظیمیں وہاں دینی مقاصد کے لیے کام کر رہی ہیں جن میں سب سے قدیمی جماعت ’’نہضۃ العلماء‘‘ ہے۔ انڈونیشیا ایک عرصہ تک ولندیزی استعمار کے تحت ہالینڈ کی نوآبادی رہا ہے اور وہاں کے علماء نے بھی استعماری تسلط کے خلاف آزادی کی جنگ میں سرگرم کردار ادا کیا ہے۔

انڈونیشیا نے معروف قوم پرست راہنما ڈاکٹر عبد الرحیم احمد سوئیکارنو مرحوم کی قیادت میں ولندیزی استعمار سے آزادی حاصل کی تھی اور وہی آزاد انڈونیشیا کے پہلے صدر قرار پائے تھے۔ لیکن چونکہ ان کا رجحان بائیں بازو کی طرف زیادہ تھا اور انہیں ایک سوشلسٹ لیڈر کے طور پر پہچانا جاتا تھا اس لیے ان کا شمار ابتدا سے ہی امریکہ کے معتوب مسلمان لیڈروں میں ہونے لگا۔ وہ دبنگ آدمی تھے اور نہ صرف انڈونیشیا کی قومی خودمختاری کو برقرار رکھنے کے علمبردار تھے بلکہ انہوں نے عالمی سطح پر بھی امریکہ اور روس کی سرد جنگ میں کسی ایک کا حاشیہ بردار نہ بننے والے ملکوں کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ عالمی سطح پر غیر جانبدار بلاک کی تشکیل میں ان کا اہم حصہ رہا ہے بلکہ غیر جانبدار ممالک کی سب سے پہلی کانفرنس انڈونیشیا کے شہر پنڈونگ میں ہوئی تھی جس میں ان ممالک کو ایک فورم پر جمع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس مہم میں ان کے ساتھ یوگوسلاویا کے مارشل ٹیٹو، بھارت کے پنڈت جواہر لال نہرو اور مصر کے صدر جمال عبد الناصر مرحوم نے بھی نمایاں حصہ لیا تھا۔ ابتدا میں اس گروپ کی اٹھان ایسی تھی کہ لگتا تھا آئندہ دنیا کی قیادت یہی لیڈر کریں گے۔ یہ میرا بچپن کا دور تھا مگر اخبار بینی کا شوق اور سیاسیات سے دلچسپی اس وقت بھی اس حد تک ضرور تھی کہ عالمی لیڈروں کے بیانات اور سرگرمیاں پڑھ کر ذہن ان کے بارے میں ترجیحات قائم کر لیتا تھا۔ سچی بات ہے کہ اس دور میں مارشل ٹیٹو، ڈاکٹر عبد الرحیم احمد سوئیکارنو، جمال عبد الناصر، پنڈت جواہر لال نہرو، الجزائر کے احمد بن بیلا، سوڈان کے ابراہیم عبود اور پاکستان کے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے بیانات شوق سے پڑھا کرتا تھا اور مجھے یہ بیانات بہت اچھے لگا کرتے تھے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ استعمار دشمنی ہم دیوبندیوں کے خمیر میں داخل ہے، اس لیے استعمار اور سامراج کے خلاف جس منہ سے بھی کوئی آواز سنائی دے ہمیں وہ چہرہ اچھا لگنے لگتا ہے۔ اس حوالہ سے دیوبندی ذوق کا اندازہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے اس جملہ سے کیا جا سکتا ہے کہ ’’میں ان چیونٹیوں کو شکر کھلانے کے لیے تیار ہوں جو انگریز کو کاٹیں‘‘۔ بلکہ شاہ جیؒ سے منسوب یہ جملہ بھی بعض احرار خطباء سے میں نے سنا ہے کہ ’’میں ان سوروں کا ریوڑ چرانے کے لیے تیار ہوں جو انگریز سامراج کی کھیتی اجاڑیں‘‘۔

مذکورہ بالا مسلم لیڈر چونکہ استعمار کے خلاف بات کرتے تھے اور قومی خودمختاری اور آزادی کے نعرے ان کی زبان پر ہوتے تھے اس لیے باقی تمام امور سے قطع نظر ان کی اس بات پر جی خوش ہوتا تھا۔ مگر ’’غیر جانبدار بلاک‘‘ جس عزم اور دعوے کے ساتھ اٹھا تھا اس کا وہ طمطراق زیادہ دیر تک قائم نہ رہا۔ علاقائی تضادات اور لوکل سیاست کے مفادات کا جال شاطر استعمار نے اس ہوشیاری کے ساتھ پھیلایا کہ یہ سارا گروپ تتربتر ہو کر رہ گیا۔ پنڈت نہرو کے غبارے سے ہوا چین کا ہوّا دکھا کر نکال دی گئی۔ الجزائر کے احمد بن بیلا داخلی سیاست کی نذر ہو گئے۔ جمال عبد الناصر کے دانت اسرائیل کے ذریعے کھٹے کر دیے گئے۔ سوڈان کے مرد آہن جنرل ابراہیم عبود کو انقلاب نے چاٹ لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اعلان تاشقند کی بھینٹ چڑھ گئے۔ جبکہ ڈاکٹر سوئیکارنو کے خلاف امریکی سی آئی اے نے خود محاذ سنبھال لیا اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے انڈونیشیا کے لاکھوں عوام موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔

مسلمان ملکوں کی آزادی اور خودمختاری کے ساتھ ڈاکٹر سوئیکارنو مرحوم کی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں وہ کھل کر پاکستان کی حمایت کے لیے میدان میں آ گئے، خود اس کی پشت پر کھڑے ہو گئے، اپنی بحریہ کا کنٹرول پاکستان کے سپرد کر دینے کی پیشکش کی اور ’’گنجنگ انڈیا‘‘ (انڈیا کو تباہ کر دو) کا نعرہ مستانہ بلند کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کو ملنے والی سزا کے اسباب و جرائم میں ایک بڑا سبب اور جرم یہ بھی تھا۔

آج انڈونیشیا میں ڈاکٹر سوئیکارنو مرحوم کی بیٹی میگاوتی سوئیکارنو پتری حکمران ہیں، جیسے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی بیٹی بے نظیر بھٹو دو بار وزیر اعظم رہ چکی ہیں۔ لیکن اگر ان بیٹیوں کی سیاسی کارکردگی کی رپورٹ ان کے باپوں کو آج بھی پیش کر دی جائے تو عالم برزخ میں ان دونوں لیڈروں کی گردنیں شرم و ندامت سے جھک جائیں۔

انڈونیشیا اس کے بعد سے مسلسل سازشوں کی زد میں ہے، مسیحی مشنریوں کا سب سے بڑا نیٹ ورک اس وقت انڈونیشیا کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ پورے انڈونیشیا میں ہزاروں این جی اوز کا جال بچھا ہوا ہے جو لادینیت کے فروغ، مغربی کلچر کے پرچار اور دینی اقدار کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ فوج اور سول سروس میں مسیحی افسروں کو منظم اور مربوط بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ مشرقی تیمور انہی سازشوں کے نتیجہ میں انڈونیشیا سے الگ ہو کر ایک آزاد مسیحی ریاست کا روپ دھار چکا ہے جس کی اقوام متحدہ اور عالمی برداری نے مکمل حمایت بلکہ پشت پناہی کی ہے اور بعض دیگر جزائر میں بھی اس نوعیت کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ قادیانیوں کا ایک بڑا نیٹ ورک بھی اس وقت انڈونیشیا میں ہے، وہ وہاں کی سیاست میں خاصے دخیل ہیں، پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی موجود ہے، مرزا طاہر احمد چند سال قبل جب انڈونیشیا گئے تو انہیں سرکاری پروٹوکول دیا گیا اور پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک تقریب سے انہوں نے خطاب بھی کیا۔

اس پس منظر میں انڈونیشیا سے یہ خبر آئی ہے کہ وہاں کی دو اسلامی جماعتوں نے امریکی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے امریکی کانگریس کی طرف سے دی جانے والی ناشتے کی دعوت کو مسترد کر دیا ہے۔ امریکی کانگریس کی ناشتے کی اس دعوت کا کافی دنوں سے چرچا ہے اور اس کی خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔ پاکستانی لیڈروں میں محترمہ بے نظیر بھٹو اس دعوت میں شرکت کا اعلان کر چکی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کے لیڈر میاں شہباز شریف کے اچانک امریکہ پہنچنے کے پیچھے بھی ہمیں یہی دعوت کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ امریکی کانگریس عراق پر حملے اور مشرق وسطٰی کی نئی جغرافیائی تقسیم کے عملی آپریشن سے قبل عالم اسلام کی مسلم لیڈرشپ کو اعتماد میں لینا چاہتی ہے اور اس کا ممکنہ ردعمل معلوم کرنا چاہتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے ناشتے کی یہ میز بچھائی جا رہی ہے اور عالم اسلام کے مختلف حصوں کے مسلمان لیڈر اسے اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہوئے بھاگم بھاگ امریکہ پہنچ رہے ہیں۔

مسلمانوں لیڈروں کو ناشتے پر اکٹھا کرنے کی یہ تگ و دو بتاتی ہے کہ مشرق وسطٰی میں امریکی ایجنڈے کی تکمیل کی طرف پیش قدمی کا فیصلہ کن مرحلہ آ پہنچا ہے۔ عراق صرف بہانہ ہے اور سلامتی کونسل کی قراردادیں صرف آڑ ہیں، اصل مقصد تیل کے چشموں کا کنٹرول حاصل کرنا ہے، مشرق وسطٰی کا جغرافیہ تبدیل کرنا ہے، ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کے نقشے میں رنگ بھرنا ہے، اور عالم اسلام کے قلب میں اس پر ایک ایسا خوفناک وار کرنا ہے کہ وہ اس کے بعد صدیوں تک کچھ کرنے بلکہ کچھ کہنے کے قابل بھی نہ رہے، یہ استعمار کا پروگرام ہے، دجالی گروہوں کا ایجنڈا ہے اور قبضہ گروپ کی منصوبہ بندی ہے۔ کائنات کے اصل حاکم کا پروگرام کیا ہے، یہ پردہ راز میں ہے اور ہمیشہ آخر وقت تک پردہ راز میں ہی رہتا ہے، اس کا علم دنیا کو اسی وقت ہوتا ہے جب ’’انا ربکم الاعلٰی‘‘ کا نعرہ لگانے والا فرعون بحیرہ قلزم میں ڈبکیاں کھا رہا ہوتا ہے۔

ہم انڈونیشیا کی دو مسلم تنظیموں کے سربراہوں کو ان کے اس اعلان پر مبارکباد دیتے ہیں، ان کا یہ بائیکاٹ امریکی کانگریس کے ناشتے کی میز بچھنے میں تو رکاوٹ نہیں بنے گا اور نہ ہی اس ناشتے میں شریک ہونے والے نام نہاد مسلم لیڈروں کے کانوں پر کوئی جوں رینگے گی لیکن اس سے اسلامی غیرت کا اظہار ضرور ہوتا ہے، یہی غیرت ہمارا آخری آثاثہ ہے اور یہی ان شاء اللہ تعالٰی ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کا نقطۂ آغاز ہو گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter