انسانی حقوق کا مغربی فلسفہ اور امتِ مسلمہ

   
۲۷ مارچ ۲۰۱۱ء

آج کا دور انسانی حقوق کا دور کہلاتا ہے اور مغرب کا دعوٰی ہے کہ اس نے دنیا کو انسانی اقدار اور انسانی حقوق سے متعارف کرایا اور نسل انسانی کے مختلف طبقات بالخصوص کمزور طبقوں کو حقوق کا شعور بخشا۔ اس سے قبل انسانی معاشرہ جہالت، جبر، ظلم اور تشدد کی ظلمتوں اور تاریکیوں کا شکار تھا، مغرب نے اس تاریکی اور ظلمت سے نسل انسانی کو نجات دلا کر روشن خیالی اور علم کے نئے دور کا آغاز کیا۔ مغرب کے معاشرتی، سائنسی اور ثقافتی انقلاب سے پہلے کا دور تاریکی، جبر اور جہالت کا دور کہلاتا ہے، جبکہ انقلاب فرانس کے بعد سے شروع ہونے والا دور روشنی، انصاف اور علم کا دور سمجھا جاتا ہے۔

مغرب اس دعوے کے ساتھ پوری دنیا کو مسخر کرنے میں مصروف ہے اور نسل انسانی کی مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کو ہمہ گیر یلغار کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ آج کی گفتگو میں ہم مغرب کے اس دعوے کا ایک نظر میں جائزہ لینا چاہتے ہیں اور یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ مغرب، دنیا کو تہذیب و ثقافت اور انسانی حقوق سے متعارف کرانے کے اس دعوے میں کہاں تک صداقت رکھتا ہے؟

جہاں تک مغربی ممالک کے اپنے پس منظر کا تعلق ہے، یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ یورپ میں بادشاہت، جاگیرداری اور پاپائیت کی تکون نے صدیوں تک عام انسانی آبادی کو انسانی عزت و وقار اور بنیادی حقوق سے محروم کیے رکھا ہے۔ اس دور میں مغربی معاشرے میں انسانی شرف اور شہری حقوق کا تصور کرنا بھی جرم سمجھا جاتا تھا اور عام انسان کی زندگی جانوروں سے بدتر دکھائی دیتی تھی۔ چنانچہ اس تکون کے خلاف عوامی بغاوت کے شعلے بھڑکے تو بادشاہت، جاگیرداری اور پاپائیت کے تینوں اداروں کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے خلاف نفرت کی بنیاد پر جس انقلاب نے مغربی معاشرے کو اپنے دامن میں سمیٹا، اس نے بادشاہت، جاگیرداری اور پاپائیت کو کارنر ہونے پر مجبور کر دیا۔ صدیوں کو محیط اس زمانے میں، جسے تاریک صدیوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اگر عام آدمی کی زندگی، اس کی بے بسی اور مجبوری کو دیکھا جائے تو ان میں سے کسی ایک کا نام لینے پر بھی مغربی باشندوں پر اضطراب اور بے چینی کی جو کیفیت دکھائی دینے لگتی ہے اس کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔

اس حوالے سے مغربی دنیا کا ماضی بلاشبہ قابل رحم ہے، لیکن کیا باقی دنیا کا پس منظر بھی یہی تھا؟ بالخصوص عالم اسلام کی صورتحال بھی کیا اسی طرح کی تھی، جسے مغرب تاریک دور قرار دے کر اپنے ردعمل کی لاٹھی سے ہانکنا چاہتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ تاریخ اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں دیتی اور اس پہلو سے دیکھا جائے تو مغرب کا یہ طرز عمل سراسر دھاندلی نظر آنے لگتا ہے اور وہ اپنے مخصوص پس منظر کو پوری دنیا کا پس منظر قرار دے کر اس کے ردعمل میں اپنے اقدامات کو پوری دنیا پر مسلط کرنے کے درپے ہے۔ خاص طور پر امت مسلمہ کا گزشتہ ڈیڑھ ہزار سالہ دور تو قطعی طور پر اس سے مختلف بلکہ متضاد ہے۔

اس موضوع پر بات کو آگے بڑھانے سے قبل ایک اور پہلو کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ مغرب کو چونکہ تاریک صدیوں کا سامنا کرنا پڑا اور شدید کرب و مجبوری کے طویل دور سے گزرنا پڑا ہے، اس لیے اس کا ردعمل بھی اتنا ہی شدید ہے جس میں وہ اعتدال اور توازن کا دامن ہاتھ میں نہیں رکھ سکا اور جبر کے مقابلے میں آزادی کی اس انتہا تک نسل انسانی کے ایک بڑے حصے کو لے جا کر اب پچھتانے پر مجبور نظر آتا ہے، جس انتہا نے انسانی معاشرے کی بنیادی اقدار کو پامال کر کے رکھ دیا ہے اور فرد کی آزادی اور انڈویجول ازم کے ہاتھوں خاندانی سسٹم کی تباہی مغربی معاشرے کا المیہ بن کر رہ گئی ہے۔ جبکہ اس سے ایک ہزار سال قبل اسلام نے جبر و ظلم اور وحشت و جہالت کی نفی کرتے ہوئے انسانی معاشرے کے ہر طبقے اور ہر فرد کو اس کے جائز حقوق سے نہ صرف روشناس کرایا تھا بلکہ عملاً وہ حقوق حقداروں کو دے کر اس کا عملی نمونہ بھی پیش کر دیا تھا۔

مثال کے طور پر عورت کے حقوق کو دیکھ لیجئے کہ جاہلیت کے دور میں عورت پر ہونے والے مظالم کا سدباب کر کے اسلام نے اسے انصاف اور حقوق سے بہرہ ور کیا، لیکن خاندانی نظام کے ناگزیر تقاضوں کو کراس کرنے کی بجائے مرد اور عورت دونوں کو اس فطری دائرے میں رکھتے ہوئے خاندانی نظام کا تحفظ بھی کیا۔ اس سلسلہ میں دور نبویؐ کے دو واقعات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا جو امام بخاریؒ نے بخاری شریف میں روایت کیے ہیں۔

  1. حضرت عمر بن الخطابؓ فرماتے ہیں کہ ہم قریش کے لوگ جاہلیت کے دور میں عورت کو کسی معاملے میں رائے کا حق نہیں دیتے تھے، مگر جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو انصار کی عورتوں میں رائے دینے اور کسی بات پر خاوند کو ٹوک دینے کا ماحول پایا جاتا تھا جس سے ہماری عورتوں نے بھی رنگ پکڑا۔ ایک روز کسی بات پر میری بیوی نے مجھے ٹوک دیا تو مجھے سخت غصہ ایا اور میں نے اسے ڈانٹ دیا کہ تم عورتوں کا اِن کاموں میں کیا دخل ہے؟ اس نے مجھ سے کہا کہ مجھ پر ناراض ہونے کی بجائے اپنی بیٹی کی خبر لو کہ وہ بھی رسول اکرمؐ کے ساتھ سوال و جواب کرتی ہے اور نبی اکرمؐ کی ازواج مطہرات میں عام طور پر ایسا ہوتا رہتا ہے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں فوری طور پر اپنی بیٹی حفصہؓ کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا جناب نبی اکرمؐ کی بیویاں کسی بات پر آپؐ کے ساتھ روک ٹوک کرتی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں اس طرح ہوتا ہے اور بسا اوقات بطور میاں بیوی ہمارے درمیان ناراضگی بھی ہو جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ کا ارشاد ہے کہ میں نے حفصہؓ کو سختی سے منع کیا کہ کم از کم تم نبی کریمؐ کے ساتھ اس طرح نہ کیا کرو، جو ضرورت ہو مجھ سے کہہ دیا کرو مگر آپؐ کے ساتھ کوئی سوال جواب نہ کیا کرو۔

    حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ حفصہؓ سے بات کرنے کے بعد جناب نبی اکرمؐ کی ایک اور زوجہ محترمہ ام المومنین ام سلمہؓ کے پاس گیا جو رشتہ میں حضرت عمرؓ کی کزن لگتی تھیں، ان سے بھی وہی بات کی تو ام المومنین ام سلمہؓ نے ناراضگی کا اظہار کیا اور الٹا حضرت عمرؓ کو ڈانٹ دیا کہ آپ ہر معاملے میں مداخلت کرتے ہیں اور اب میاں بیوی کے معاملات میں بھی دخل اندازی کے لیے آ گئے ہیں۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ام سلمہؓ کی بات سن کر میرا حوصلہ ٹوٹ گیا اور میں کسی اور سے بات کرنے کی بجائے سیدھا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور سارے واقعہ کی رپورٹ دی۔ جب میں نے ام سلمہؓ کی بات کا ذکر کیا تو حضورؐ مسکرائے اور فرمایا کہ ’’ھی ام سلمہ‘‘ (وہ آخر ام سلمہ ہے)۔

    یہ واقعہ بیان کر کے حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ہم جاہلیت کے دور میں عورتوں کو کسی درجہ میں شمار نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ان کا کوئی حق سمجھتے تھے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریف لا کر ہمیں عورت کے مقام و مرتبہ اور حقوق سے آگاہ کیا اور ہم نے عورتوں کو اہمیت دینا شروع کی۔

  2. اس کے ساتھ بخاری شریف میں مذکور ایک اور واقعہ پر نظر ڈال لیجئے کہ بریرہؓ نامی ایک صحابیہ جو لونڈی تھی اور مغیثؓ نامی نوجوان کے نکاح میں تھی۔ اس لونڈی کو حضرت عائشہؓ نے خرید کر آزاد کر دیا تو آزاد ہونے کے بعد اس عورت نے اپنا ایک حق استعمال کرتے ہوئے مغیثؓ کی بیوی کے طور پر اس کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا۔ مغیثؓ بہت پریشان ہوئے اور مختلف لوگوں سے سفارشیں کروائیں مگر بریرہؓ نے کسی کی بات سننے سے انکار کر دیا۔ جناب نبی اکرمؐ نے ایک دن مدینہ منورہ کی گلیوں میں مغیثؓ کو گھومتے دیکھا کہ وہ روتے ہوئے جا رہے ہیں اور یہ آوازیں دے رہے ہیں کہ کوئی ہے جو بریرہؓ کو منا دے اور وہ مجھ سے الگ نہ ہو؟ یہ کیفیت دیکھ کر حضورؐ نے خود بریرہؓ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کر سکتی ہے؟ بریرہؓ نے صرف اتنا پوچھا کہ یا رسول اللہؐ! کیا آپ مجھے حکم دے رہے ہیں یا بطور مشورہ یہ بات کہہ رہے ہیں؟ حضورؐ نے فرمایا کہ میری یہ بات حکم نہیں بلکہ صرف مشورہ ہے۔ تو بریرہؓ نے بے ساختہ کہہ دیا کہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ وہ مغیثؓ کے پاس واپس نہیں گئی اور آزادی کے بعد حاصل ہونے والا حق پوری آزادی کے ساتھ استعمال کیا۔

یہ دو واقعات میں نے اس لیے عرض کیے ہیں کہ عورت کے حقوق کا تصور مغربی دنیا نے شروع نہیں کیا بلکہ اس سے بارہ سو سال قبل جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے حقوق اور ظلم و جبر سے اس کی آزادی کی بات کی اور معاشرے میں عورت کی عزت و وقار کو بحال کیا۔ عورت کے حقوق اور آزادی کے حوالے سے اس نوعیت کے بیسیوں واقعات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جو دور نبویؐ اور خلافت راشدہ کے دور میں پیش آئے جن کی تفصیلات کا موقع نہیں ہے، مگر یہ بات تاریخی طور پر طے شدہ ہے کہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات اور عام شہریوں کے حقوق اور ان کی بنیادی ضروریات کی طرف مغرب کے معاشرتی انقلاب سے صدیوں پہلے جناب نبی اکرمؐ نے حقوق کی بات کی اور عورتوں، غلاموں، بچوں اور ماتحتوں کے حقوق کی نشاندہی کر کے ان کی ادائیگی اور بحالی کو اسلام کے عادلانہ نظام کا حصہ بنا دیا۔

انسانی اور شہری حقوق کے حوالے سے مغرب کے اس یکطرفہ دعوے کا چند اور حوالوں سے بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ مثلاً:

  • حکومت کا قیام جبر کی بجائے عوام کی رائے پر ہو، اس کا عملی نمونہ سب سے پہلے جناب رسول اکرمؐ نے پیش کیا کہ اپنا جانشین نامزد کرنے کی بجائے امت کی اجتماعی رائے پر اعتماد کیا اور آپؐ کے وصال کے بعد صحابہ کرامؓ نے باہمی بحث و مباحثہ کے ذریعے حضرت ابوبکرؓ کو خلیفہ اول کے طور پر منتخب کیا۔
  • حاکم وقت کا رائے عامہ کے سامنے جوابدہ ہونے کا تصور بھی اسلام نے دیا کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ نے اپنے پہلے خطبے میں عوام کو یہ حق دینے کا اعلان کیا کہ اگر میں صحیح طریقے سے حکومت کروں تو میرا ساتھ دو اور اگر غلط رخ پر چلنے لگوں تو مجھے پکڑ کر سیدھا کر دو۔ چنانچہ دنیا نے یہ مناظر دیکھے کہ حضرت عمرؓ جیسے با رعب حکمران کو بھی ایک عام آدمی خطبہ جمعہ کے دوران ٹوک دیا کرتا تھا۔
  • شخصی یا گروہی حکومت کی بجائے دلیل اور قانون کی حکومت کا تصور بھی ہمیں خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اس اعلان سے ملتا ہے کہ میں قرآن و سنت کے مطابق حکومت کروں گا، اگر میں اس دستور و قانون کا پابند رہوں تو تم پر میری اطاعت واجب ہے، اور اگر میں قرآن و سنت کی خلاف ورزی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں ہے۔ شخصی حکمرانی کی بجائے قانون اور دستور کی حکمرانی کے لیے حضرت ابوبکرؓ کا یہ تاریخی اعلان اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام دلیل اور قانون کی حکمرانی کا قائل ہے، اور مغرب میں دستوری حکومتوں کا آغاز ہونے سے ایک ہزار قبل دنیا نے اس کا عملی مشاہدہ کر لیا تھا۔
  • قانون کے سامنے سب کے برابر ہونے اور حکمرانوں کے عدالتی نظام کا پابند ہونے کی بات بڑے فخر کے ساتھ کی جاتی ہے، مگر یہ خوشگوار منظر بھی تاریخ کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال قبل دیکھ چکی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ امیر المومنین ہونے کے باوجود قاضی شریع کی عدالت میں ایک فریق کے طور پر پیش ہوئے اور مقدمہ گواہی مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ہار گئے۔
  • حکمرانوں اور عوام کے مل کر رہنے اور ان کے معیار زندگی میں یکسانیت کی بات بھی کی جاتی ہے۔ جبکہ اس سلسلہ میں بھی اسلامی خلافت کو سبقت حاصل ہے کہ خلیفہ منتخب ہونے کے بعدجب بیت المال سے ان کا وظیفہ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو یہ طے پایا کہ مدینہ منورہ کے ایک متوسط شہری کے معیار زندگی کو سامنے رکھ کر خلیفہ کا وظیفہ مقرر کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے پوری خلافت کے دوران اسی وظیفے پر گزارا کیا۔ جبکہ حضرت عمرؓ نے خلافت سنبھالتے ہی اعلان کیا کہ ان کا کوئی افسر باریک لباس نہیں پہنے گا، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائے گا، ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا، اور گھر کے باہر ڈیوڑھی نہیں بنائے گا۔ یہ باتیں اس دور میں معاشرتی امتیاز اور اسٹیٹس سمبل سمجھی جاتی تھیں، چنانچہ حضرت عمرؓ نے یہ اعلان کر کے اصول بتا دیا کہ ایک اسلامی ریاست کے حکمران عام شہریوں سے امتیاز رکھنے والا معیار زندگی اختیار نہیں کریں گے اور عام لوگوں جیسی زندگی گزاریں گے۔

یہ چند مثالیں اس لیے ہم نے عرض کی ہیں کہ مغرب کا یہ کہنا کہ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے تصور کا آغاز وہاں سے ہوا ہے، اسے مغربی ممالک کی حد تک تو تسلیم کیا جا سکتا ہے، لیکن دنیا کی باقی اقوام بالخصوص اسلام پر اس پس منظر کا اطلاق کرنا اور تاریک صدیوں کے ردعمل میں تشکیل پانے والے مغربی فلسفے کو عالم اسلام پر مسلط کرنے کی مہم سراسر نا انصافی ہے۔ اس لیے کہ اسلام اس سے بہت پہلے سے انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی بات کر رہا ہے، حتٰی کہ امت مسلمہ کی تاریخ میں جن حکمرانوں کو خلافت کی بجائے ملوکیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ان کے ادوار حکومت میں بھی عوام کو ان کے حقوق عام طور پر حاصل رہے ہیں، بالخصوص عدلیہ کا آزادانہ کردار تو بدنام ترین مسلم حکمرانوں کے دور میں بھی پورے وقار اور اعتماد کے ساتھ جاری رہا ہے۔ جبکہ انقلاب فرانس سے پہلے مغربی معاشروں میں عورتوں، مزدوروں، کسانوں اور عام شہریوں کو جس اندوہناک صورتحال کا صدیوں تک سامنا رہا ہے وہ صورتحال مسلم خلافت کے کسی دور میں بھی اس درجے پر نظر نہیں آتی۔

پھر یہ امتیاز بھی اسلامی تاریخ کا حصہ ہے کہ ملت اسلامیہ میں مذہبی قیادت کا ادارہ بحیثیت ادارہ ہمیشہ عوام کے ساتھ رہا ہے اور ظلم و جبر کے خلاف مسلم علماء کی قربانیاں تاریخ کے ایک اہم باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس لیے مغرب کی تاریک صدیوں کے حوالے سے مغرب کے پس منظر اور ردعمل کو مغرب کی حد تک تسلیم کرتے ہوئے ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ مغرب کے پس منظر کو عالم اسلام کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے اور اس کا ردعمل مسلم امہ پر مسلط کرنے کی روش پر نظرثانی کی جائے، کیونکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات نے مغرب کے انقلاب سے بارہ سو سال قبل نسل انسانی کو حقوق، انصاف اور علم کی شاہراہ پر گامزن کر دیا تھا۔

   
2016ء سے
Flag Counter