جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’لتتبعن سنن من کان قبلکم حذو النعل بالنعل‘‘ تم پہلی امتوں کی قدم بہ قدم پیروی کرو گے۔ اس حدیث مبارکہ کی تشریح میں محدثین کرامؒ نے مختلف پہلوؤں پر بات کی ہے، ان میں سے ایک پہلو پر آج کچھ معروضات پیش کرنے کا ارادہ ہے۔اس تمہیدی گزارش کے ساتھ کہ انسان بنیادی طور پر اپنی خوبیوں اور کمزوریوں کے حوالہ سے شروع سے کم و بیش یکساں چلا آرہا ہے اور قیامت تک اس نے ایسا ہی رہنا ہے۔ اس کے اندر فطرت نے خیر و شر کی جو صلاحیتیں ودیعت کی ہیں، ان کا بنیادی ڈھانچہ ہر دور میں ایک ہی طرز کا رہا ہے، البتہ ان کے اظہار و استعمال میں ماحول اور زمانے کے اعتبار سے ضرور کمی بیشی ہوتی چلی آرہی ہے، جو آئندہ بھی جاری رہے گی۔ اس لیے یہ بات فطری ہے کہ بعد والے انسان پہلے والے انسانوں کی طرح مختلف حالتوں میں ان جیسا طرز عمل ہی اختیار کریں، جس پر انسانی تاریخ شاہد ہے۔
قرآن کریم نے حق و باطل کی کشمکش اور خیر و شر کی آمیزش کے حوالہ سے سابقہ اقوام بالخصوص بنی اسرائیل کے جو احوال و کیفیات تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں، آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ان کا اظہار اسی طرح ہو رہا ہے۔ جیسا کہ دوسری قوموں کی نقالی ہمارا اجتماعی مزاج بن گیا ہے اور یہ دیکھے بغیر کہ جس کام میں کسی دوسری قوم کی نقالی کر رہے ہیں، ان کو یہ کام کس وجہ سے کرنا پڑا اور اس کے اسباب کیا ہیں؟ ہم نے صرف نقل کرنی ہے تاکہ ہم کسی کام میں، وہ اچھا ہے یا برا، اس قوم سے پیچھے نہ سمجھے جائیں۔
مثال کے طور پر بات دیکھ لیں کہ سولہویں صدی عیسوی میں جرمنی کے ایک مسیحی مذہبی راہنما مارٹن لوتھر نے، جو فلسفہ کا استاذ بھی تھا، پاپائے روم کی مذہبی اتھارٹی کو چیلنج کر دیا اور یہ نظریہ پیش کیا کہ بائبل کو ہر شخص خود براہ راست سمجھ سکتا ہے ، اسے درمیان میں پادری اور پوپ کے واسطے کی ضرورت نہیں ہے، جبکہ راہنمائی کے لیے صرف بائبل کافی ہے اور کسی کی مذہبی راہنمائی درکار نہیں ہے۔ اس کے اس نظریہ نے یورپ میں قبولیت حاصل کی اور ایک نئے مسیحی فرقے پروٹسٹنٹ کی بنیاد پڑ گئی جو آج مسیحی دنیا کے دو بڑے فرقوں میں شمار ہوتا ہے اور یورپ میں اس کی اکثریت بتائی جاتی ہے۔
اس کی عالم اسباب میں بڑی وجہ یہ تھی کہ پوپ کو بائبل کی تشریح میں فائنل اتھارٹی کا جو درجہ حاصل تھا وہ کسی دلیل و استدلال کی بنیاد پر نہیں بلکہ صوابدیدی طور پر تھا۔ جبکہ پاپائیت اس دور میں بادشاہت اور جاگیرداری کے ظالمانہ و جابرانہ نظام میں شریک کار ہونے کے ساتھ ساتھ سائنس کے ارتقا و تحقیق کی مخالفت میں بھی پیش پیش تھی۔ اس لیے سائنس و ٹیکنالوجی کے ارتقا اور بادشاہت و جاگیردارانہ نظام سے نجات کے لیے پاپائیت کی بالادستی سے گلو خلاصی بھی یورپ کی معاشرتی ضرورت بن گئی تھی۔ جس کی وجہ سے مارٹن لوتھر کی آواز کو پذیرائی ملی اور اس کے نتیجے میں یورپ نے بادشاہت، جاگیرداری اور پاپائیت کی تکون سے آزادی حاصل کر لی جس پر وہ آج تک قائم ہے۔
اسے دیکھ کر ہمارے ہاں بھی کچھ لوگوں کو شوق چڑھا کہ قرآن کریم کو ہدایت کا واحد سرچشمہ مانا جائے اور اس کی تعبیر و تشریح کو ہر شخص کا براہ راست حق قرار دے کر درمیان سے علماء کرام، محدثین اور فقہاءؒ کے واسطے کی نفی کر دی جائے۔ جس کا نقش اول اکبر بادشاہ کا خود ساختہ ”دین الٰہی“ بنا اور اس کے بعد سے یہ آواز مختلف حلقوں کی طرف سے مختلف لہجوں کے ساتھ آج تک بلند ہوتی چلی آرہی ہے اور آج بھی پوری بلند آہنگی کے ساتھ سوسائٹی کے نقار خانے میں گونج رہی ہے۔ حدیث و سنت کے حجت ہونے سے انکار اور فقہ و شریعت کو بنیاد بنانے سے گریز کی فکری تحریکات کا تاریخی پس منظر کم و بیش اسی طرح کا ہے۔ حالانکہ اسباب و عوامل اور نتائج و عواقب دونوں حوالوں سے دونوں طرف کی صورتحال قطعی طور پر مختلف بلکہ متضاد ہے، جس کی طرف دیکھنے کی کسی کو بھی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی، مثلاً:
- بائبل کی تعبیر و تشریح میں پوپ کی اجارہ داری کی نفی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پاپائیت کے لیے بائبل کی تعبیر و تشریح کا جو اختیار سمجھا جاتا تھا وہ استدلالی نہیں بلکہ صوابدیدی تھا اور اس کی کسی بات سے اختلاف کی گنجائش نہیں تھی۔ جبکہ مسلمانوں کے ہاں قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح میں علماء و فقہاء کا حق استدلالی ہوتا ہے، کسی بھی موقف کے لیے قرآن و سنت سے دلیل ضروری سمجھی جاتی ہے، اور مختلف آرا میں سے کسی ایک کو ترجیح بھی دلیل کی بنیاد پر ہی دی جاتی ہے۔
- پاپائیت نے تاریک دور میں بادشاہت اور جاگیرداری کے جابرانہ نظام میں شراکت داری کر لی تھی اور اس کا کام بادشاہ اور جاگیردار کے مظالم کو جواز کی سند فراہم کرنے کے سوا کچھ نہیں رہ گیا تھا۔ جبکہ مسلمان علماء کرام اور فقہاء عظام ہر دور میں عوام اور مظلوم قوم کے ساتھ رہے ہیں اور چند شخصی مستثنیات سے ہٹ کر مذہبی قیادت کے اجتماعی کردار میں حکمران طبقات کی مداخلت سے آزاد دینی راہنمائی کا تسلسل قائم چلا آرہا ہے، جس کی جھلک آج بھی ہمارے معاشرے میں صاف نظر آتی ہے۔
- پاپائیت نے سائنس و ٹیکنالوجی کی مخالفت کی تھی، جبکہ مسلم علماء کرام اور دانشوروں نے ہر دور میں اس کی حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ سرکردہ اہل علم نے اس میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور آج بھی ان کا کردار یہی ہے جس کا اعتراف سنجیدہ مغربی دانشور بھی کر رہے ہیں۔
- تورات اور انجیل سمیت سابقہ آسمانی کتابیں محفوظ و مستند حالت میں موجود نہیں تھیں، حتیٰ کہ انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا کے بقول سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مستند سیرت بھی انہیں میسر نہیں تھی۔ جبکہ مسلمانوں کے پاس نہ صرف قرآن کریم بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت، خلفاء راشدینؓ کے فیصلے اور فقہاء عظامؒ کی تعبیرات و تشریحات کا عظیم علمی و فقہی ذخیرہ پورے اعتماد و استناد کے ساتھ آج بھی موجود و محفوظ ہے۔ اور یہ سب کچھ صرف کتابوں میں نہیں ہے بلکہ عملی طور پر اس کا معاشرتی ماحول اور تہذیبی تسلسل بھی ساتھ قائم چلا آرہا ہے۔
نتائج و عواقب کے حوالہ سے بھی ایک نظر ڈال لی جائے:
- مذہب کے علمی ترجمانوں کو درمیان سے ہٹا دینے کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ خود مذہب ہی معاشرے سے نکل گیا۔ آج یورپ کے مذہبی مراکز اور چرچ رونقوں سے محروم ہیں اور معاشرتی زندگی میں آسمانی تعلیمات پر عمل بلکہ احترام بھی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔
- مغرب میں آسمانی تعلیمات سے انحراف کے نتیجے میں ’’خاندانی نظام‘‘ خلفشار کا شکار نظر آتا ہے، رشتوں کا تقدس بلکہ وجود تک ختم ہو کر رہ گیا ہے، حتیٰ کہ ماں باپ کی ایک بڑی تعداد اولاد کی بجائے اولڈ پیپلز ہومز میں رہنے پر مجبور ہے۔
- مغرب روحانی سکون کی تلاش میں ہے اور وجدانیات کی طرف واپسی کے راستے تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ نفسیات اور سائیکالوجی کا سہارا لیے ہوئے ہے جو مغربی معاشرہ کو روحانی سکون فراہم کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں، جبکہ ایک بڑی تعداد نشہ کو سکون کا واحد ذریعہ سمجھ کر اس میں گم ہے۔
- مغرب نہ صرف خود معاشی عدم توازن کا شکار ہے بلکہ اس نے پوری دنیا کو معاشی ناہمواری کی طرف دھکیل رکھا ہے ، جس پر سابق پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ کی قائم کردہ کمیٹی کو یہ کہنا پڑا ہے کہ دنیا میں معاشی توازن کی بحالی کے لیے ان معاشی اصولوں کو اختیار کرنا ضروری ہو گیا ہے جو قرآن کریم نے بیان کیے ہیں۔ جبکہ شہزادہ چارلس معاشرتی اصولوں کے حوالہ سے یہی بات کہہ چکے ہیں۔
اسباب و عوامل اور نتائج و عواقب دونوں حوالوں سے صورتحال ہمارے سامنے ہے، جس میں المیہ کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ ہم سب کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہوئے بھی مغرب کی نقالی میں سرپٹ دوڑے جا رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ ہماری بریکیں ہی فیل ہو گئی ہیں۔ یہ صورتحال سب سے زیادہ مسلم علماء کرام، دانشوروں اور علمی مراکز کی توجہ کی طالب ہے کیونکہ ان امور کی نشاندہی، تجزیہ اور اس سے نکلنے کے راستے تلاش کرنے کا کام اور کسی نے نہیں کرنا، وہ کریں گے تو ہو گا اور نہیں کریں گے تو اس کے نتیجے میں انسانی سوسائٹی جس ہولناک تباہی کا شکار ہونے جا رہی ہے اس کی ذمہ داری سے عند اللہ و عند الناس کہیں بھی وہ بری الذمہ نہیں ہو سکیں گے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس اور ان کے لیے مخلصانہ محنت کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔