گزشتہ روز لاہور میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ایک مذاکرہ میں شرکت اور گفتگو کا موقع ملا جس کا عنوان تھا ’’امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال اور اسوہ نبویؐ‘‘۔ جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ قیامت تک ہر زمانے اور ہر قوم کے لیے اسوۂ حسنہ ہے اور ہر دور میں نسلِ انسانی اس سے راہنمائی حاصل کرتی ہے۔ آج بھی نسلِ انسانی اور خاص طور پر امتِ مسلمہ کے لیے یہی راہنمائی فلاح و نجات کا سب سے بڑا سر چشمہ ہے۔ امتِ مسلمہ اس وقت جن مسائل میں الجھی ہوئی ہے ان کی فہرست بہت طویل اور انہیں صرف شمار کیا جائے تو اس کے لیے خاصا وقت درکار ہے لیکن ان میں سے چند بڑے بڑے مسائل کا ذکر مناسب سمجھتا ہوں تاکہ یہ بات ہمارے ذہنوں میں تازہ ہو جائے کہ ہمیں اسوۂ نبویؐ سے کیسے راہنمائی حاصل کرنی ہے:
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں بہت سی باتیں نسل انسانی اور امت کی راہنمائی کے لیے فرمائی تھیں، ان میں سے دو باتوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ ’’کل امر الجاھلیۃ موضوع تحت قدمی‘‘ جاہلیت کی ساری قدریں آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں، یعنی نسل انسانی کو جاہلیت کے دور سے نکال کر علم اور روشنی کی طرف لے جا رہا ہوں۔ اور اس کے ساتھ ایک جاہلی قدر یعنی باہمی قتل و قتال کا ذکر کر کے فرمایا کہ ’’لا ترجعوا بعدی ضلالاً‘‘ میرے بعد پھر گمراہی کے دور کی طرف واپس نہ چلے جانا۔ ہمیں آج اس امر کا جائزہ لینا ہو گا کہ جن جاہلی اقدار کو جناب نبی کریمؐ نے پاؤں تلے روند کر علم اور روشنی پر مبنی سوسائٹی قائم کی تھی وہ جاہلی اقدار کہیں پھر تو ہمارے معاشرے میں واپس نہیں آگئیں؟
آج ہمارا حال یہ ہے کہ جناب رسالتمآب کا تذکرہ محبت اور عقیدت کے ساتھ کرتے ہیں اور ان کے مبارک تذکرے سے ثواب اور برکات بھی حاصل کرتے ہیں لیکن راہنمائی کے لیے اوروں کی طرف دیکھتے ہیں۔ جبکہ ہماری سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ عقیدت و محبت اور ثواب و برکات کے ساتھ ساتھ راہنمائی کے لیے بھی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کریں اور ان جاہلی اقدار سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں جو آج پھر سے ہماری سوسائٹی میں عام ہو گئی ہیں، اور اس معاشرہ کے احیا کے لیے محنت کریں جو آپؐ نے تئیس سال کی محنت سے قائم کر کے دنیا کے سامنے بطور مثال پیش کیا تھا۔
- بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلی امتیں اس لیے تباہی کا شکار ہوئیں کہ ان کے ہاں قانون کا نفاذ سب پر یکساں نہیں ہوتا تھا، غریب آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی تھی لیکن معاشرہ کے بڑے لوگ اور وی آئی پیز جرم کا ارتکاب کرتے تو وہ سزا سے بچ جاتے تھے۔ نبی کریمؐ نے اس صورت حال کو امتوں کی تباہی کا باعث قرار دیا ہے، جبکہ ہمارا عمومی مزاج ہی یہ بن گیا ہے کہ کوئی بڑا آدمی سنگین جرم بھی کرتا ہے تو اس کے لیے با قاعدہ گنجائشیں تلاش کی جاتی ہیں اور اسے سزا سے بچانے کے لیے پورا نظام متحرک ہو جاتا ہے۔
- جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیانت و امانت کو مسلمان فرد اور امت کا فریضہ قرار دیتے ہوئے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ امانت اور دیانت جب دنیا سے ختم ہو جائے گی تو یہ قیامت کا پیش خیمہ ہو گا۔ بددیانتی اور نااہلی کی ایک صورت آپؐ نے یہ بیان فرمائی کہ جب معاملات اور اختیارات نااہل لوگوں کے سپرد ہونے لگیں گے تو سمجھ لینا کہ قیامت قریب ہے۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم سب کرپشن، نااہلی اور بددیانتی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اسے فخر کی بات سمجھا جاتا ہے۔ عالم اسلام میں عمومی طور پر ہمارا حال یہ ہے کہ کرپشن اور بددیانتی کا دور دورہ ہے اور لوٹ کھسوٹ اور اختیارات کے غلط استعمال کے علاوہ تجارت اور کاروبار میں بھی ہماری ساکھ بری طرح مجروح ہو چکی ہے، تجارتی دنیا میں ہماری ساکھ سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے اور بین الاقوامی برادری میں ہمارا اعتماد کسی طرح بحال نہیں ہو رہا۔
- جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو دشمن کے مقابلہ میں ہر وقت تیار رہنے کا حکم دیا تھا اور جنگی قوت اس حد تک فراہم کرنے کی قرآن کریم نے ہدایت کی ہے کہ دشمن پر مسلمانوں کا رعب رہے یعنی دنیا میں جنگی طاقت کا توازن مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے، لیکن آج ہم سائنس، ٹیکنالوجی اور جنگی اسباب میں باقی دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ اس لیے آج ہم سے اسوۂ نبویؐ کا یہ تقاضہ ہے کہ ہم راہنمائی کے اصل سرچشمہ قرآن و سنت کی طرف رجوع کر کے دوسروں کی ذہنی غلامی سے نجات حاصل کریں، کرپشن اور نااہلی کی دلدل سے نکلنے کی کوشش کریں، قانون کی سب کے لیے یکساں عملداری کا اہتمام کریں، سائنس اور ٹیکنالوجی میں دوسری قوموں سے آگے بڑھنے کو اپنا ہدف قرار دیں، اور جاہلیت کی ساری قدروں کو پھر سے پاؤں تلے روندتے ہوئے صحابہ کرامؓ اور خلفائے راشدین کے دور کی مسلم سوسائٹی کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے محنت کریں۔
- جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکاری عمّال کے احتساب کی روایت قائم کی تھی۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب رسالتمآبؐ کے ایک نمائندہ خیبر میں زکوٰۃ و عشر وغیرہ کی وصولی کے لیے گئے تو واپسی پر انہوں نے محصولات کا حساب پیش کیا اور اس موقع پر ایک گٹھڑی الگ رکھ لی کہ یہ لوگوں نے مجھے ذاتی طور پر ہدیے دیے تھے۔ آپؐ اس پر سخت لہجے میں تنبیہ فرمائی کہ اگر تم اپنی ماں کے گھر میں بیٹھے ہوتے تو کیا یہ لوگ تمہیں وہاں بھی ہدیے پہنچاتے؟ یہ فرمایا کر وہ سامان بیت المال میں جمع کرا دیا۔ مطلب یہ ہے کہ جناب رسول اکرمؐ نے یہ سبق دیا کہ کسی سرکاری افسر کو جو مفادات اس کے عہدہ کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں وہ اس کا حق نہیں بلکہ سرکاری خزانے میں جمع ہونے چاہئیں، مگر آج ہمارا حال یہ ہے کہ سرکاری حیثیت سے اور منصب سے ناجائز مفادات حاصل کرنا ہمارا مزاج بن گیا ہے، جو افسر ایسا نہیں کرتا اسے بے وقوف سمجھا جاتا ہے اور یہی مزاج ہمارے معاشرہ میں کرپشن کے استحکام کا باعث بنا ہوا ہے۔
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کا خاتمہ کیا تھا اور معمولی سے لین دین میں بھی سود کو روا نہیں رکھا تھا۔ حضرت بلالؓ جناب نبی اکرمؐ کے لیے عمدہ کھجوریں لائے اور فرمایا کہ آپ کو اچھی کھجوریں کھلانے کے لیے میں نے عام کھجوریں زیادہ دے کر ان کے عوض عمدہ کھجوریں تھوڑی مقدار میں خریدی ہیں۔ حضورؐ نے اسے عین ربوا (سود) قرار دیتے ہوئے اس قسم کے سودے سے منع فرما دیا اور حکم دیا کہ اگر ایک ہی جنس کی گھٹیا قسم کا تبادلہ عمدہ قسم سے کرنا ہو تو ردی قسم پیسوں کے عوض فروخت کر کے پیسوں کے عوض اچھی کھجوریں لے لو تاکہ سود سے بچ جاؤ۔ مگر ہمارے ہاں سود ہمارے کاروبار اور معیشت کی رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔
- جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رعیت کے بارے میں ریاست کی معاشی ذمہ داریوں کو بیان فرمایا تھا اور ان کی تکمیل کے لیے بیت المال کا نظام قائم کیا تھا جسے خلفاء راشدین نے ایک پورے نظام کی شکل دی اور دنیا کو رفاہی ریاست یعنی ویلفیئر اسٹیٹ کا عملی نمونہ دکھایا۔ حتٰی کہ آج ویلفیئر اسٹیٹ کے اسی تصور اور نظام سے مغرب کے بہت سے ممالک نے رفاہی ریاست کا سسٹم قائم کیا ہے اور بعض ممالک تو ویلفیئر سوشل سسٹم اور قوانین کو حضرت عمرؓ کے نام سے باضابطہ موسوم کرتے ہیں، لیکن ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ دوسری اقوام اور ممالک تو خلافت راشدہ کے ویلفیئر سسٹم سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں مگر مسلمان ممالک میں اس وقت کوئی بھی ایسا ملک موجود نہیں ہے جسے خلافت راشدہ کی طرز پر رفاہی ریاست قرار دیا جا سکے۔
یہ سیرت طیبہ کے چند پہلو ہیں جن سے آج کے دور میں سب سے زیادہ راہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔