ایک اور بات جو کی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے رواج میں اور جاہلیت کے حج کے سسٹم میں جو تبدیلی کی، وہ یہ تھی کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگ حج کے لیے آتے تھے، بہت سے عرب قبائل حج کے لیے آتے تھے تو ان کے لوگ ننگے طواف کرتے تھے، مرد بھی ننگے ہوتے تھے، عورتیں بھی ننگی ہوتی تھیں۔ مرد تو بالکل عریاں ہوتے تھے، لباس کا کوئی دھاگہ بھی ان کے جسم پر نہیں ہوتا تھا، اور عورتیں پہلوانوں والی ایک لنگوٹی سی باندھے ہوتی تھیں۔ اور ان کا فلسفہ یہ تھا کہ جب ہم پیدا ہوئے تھے اللہ کے طرف سے آئے تھے تو ننگے آئے تھے، اللہ کے گھر حاضری دیں گے تو ننگے حاضری دیں گے۔ اس زمانے میں رواج یہ بن گیا تھا کہ قریشیوں میں سے اگر کوئی، قریشی ‘’حمس‘‘ کہلاتے تھے، برتر بزرگ قسم کا قبیلہ کہلاتا تھا، آج کل کہہ لیں جیسے وی آئی پی کہلاتے تھے، تو قریش کے قبیلے میں سے کوئی آدمی کسی آنے والے کو چادر دے دیتا کوئی لباس دے دیتا تو وہ لباس تبرک سمجھ کر پہنتے تھے۔ لیکن اگر کوئی قریشی کسی عورت کو کسی مرد کو لباس نہ دیتے تو ننگے ہی طواف کرتے تھے اور یہ سلسلہ جاری تھا۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرما دی اور حج کا لباس متعین کر دیا کہ مرد دو چادروں میں آئیں گے اور عورتیں مکمل لباس میں آئیں گی، چنانچہ آج تک یہی صورتحال ہے۔
یہ بھی حج کے نظام کی ایک بڑی خوبی ہے اور اس کا بڑا امتیاز ہے کہ کوئی بادشاہ ہے تو دو چادریں ہیں، کوئی مزدور ہے تو دو چادریں ہیں، کوئی مالک ہے تو دو چادریں ہیں، کوئی نوکر اور خادم ہے تو دو چادریں ہیں، کوئی پیر ہے تو دو چادریں ہیں، مرید ہے تو دو چادریں ہیں۔ پورے عرفات کے میدان میں ایسا عجیب منظر نظر آتا ہے کہ لاکھوں لوگ ہیں ایک ہی لباس میں، بالکل ایسے کہ کوئی امتیاز نہیں ہے، کوئی فرق نہیں ہے، کچھ پتہ نہیں چلتا کہ یہ آدمی دنیا کے اعتبار سے کس لیول کا ہے اور کس گریڈ کا ہے، وہاں سب برابر ہیں۔