سرمائیکل اوڈوائر کی یادداشتوں پر مشتمل خودنوشت کا اردو ترجمہ ’’غیر منقسم برصغیر میری نظر میں‘‘ آج کل میرے مطالعہ میں ہے جو شفیق الرحمان میاں نے کیا ہے اور شبیر میواتی صاحب کے ذریعے مجھے میسر آیا ہے۔ سرمائیکل فرانسس اوڈوائر ۱۹۱۲ء سے ۱۹۱۹ء تک برطانوی حکومت کی طرف سے پنجاب کے گورنر رہے جبکہ انہوں نے برطانوی سول سروس کے تحت ۱۸۸۵ء سے ۱۹۲۰ء تک آئی سی افسر کے طور پر مختلف علاقوں میں خدمات سرانجام دیں۔ ان کی گورنری کا دور اس لحاظ سے بہت زیادہ اہم ہے کہ امرتسر کے جلیانوالہ باغ کا سانحہ اور گوجرانوالہ میں عوامی بغاوت کو کچلنے کے لیے برطانوی فضائیہ کی بمباری کے علاوہ تحریک ریشمی رومال کا تعلق بھی اسی دور سے ہے اور انہوں نے تحریک ریشمی رومال کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ کرتے ہوئے ریشمی خطوط کا راز منکشف ہونے کے بارے میں اپنے مشاہدات و تاثرات بلکہ کارکردگی کا بھی ذکر کیا ہے۔ سردست اس حصہ کے مطالعہ میں قارئین کو اپنے ساتھ شریک کرنا چاہتا ہوں، باقی حصوں کے بارے میں بھی کوئی مناسب موقع سامنے آیا تو قارئین کو باخبر کرنے کی کوشش کروں گا۔ سرمائیکل اوڈوائر لکھتے ہیں کہ:
’’ریشمی رومال منصوبے کی اطلاع ہمیں اگست ۱۹۱۶ء میں ملی اور ہم اس قابل ہوگئے کہ آغاز میں ہی اسے کچل ڈالیں۔ اس منصوبے کی بنیاد ۱۹۱۵ء و ۱۹۱۶ء میں کابل میں رکھی گئی، طے پایا کہ ایک طرف ترک اور عرب شریف مکہ کی سربراہی میں متحد ہو جائیں اور دوسری طرف افغان، سرحدی قبائل اور ہندوستانی مسلمان ایکا کر لیں اور اس طرح اسلام کی تمام طاقتیں برطانوی حکومت کے خلاف ایک نقطے پر آجائیں۔ اس لائحہ عمل کو عملی شکل دینا آسان تھا، وہ اس طرح کہ سرحدی قبائل ہندوستانی جنونیوں کے اکسانے پر حملہ کر دیتے، ادھر انہیں ہندوستان میں باغی مسلمانوں کی عمومی حمایت مل جاتی۔ یہ بھی امید کی جا رہی تھی کہ انقلاب پسند ہندو اور امریکہ پلٹ سکھ بھی باہم مل کر فورًا ان کے ساتھ ہو جائیں گے۔
سازش بڑی مہارت سے تیار کی گئی، پھر اس سازش کو ہندوستان، وسطی ایشیا، حجاز اور میسوپوٹیمیا میں دھکیلا گیا۔ اس پر عمل درآمد کے لیے تمام روایتی مشرقی طریقہ ہائے کار استعمال کیے گئے۔ مختلف ممالک میں ایلچی اور سفیر روانہ کیے گئے، ان کے پاس سے کوڈ ورڈز میں لکھے خطوط اور پیغامات برآمد ہوئے۔ اس مرحلہ میں سارے پراسرار معاملے کی کلید یعنی سلک لیٹرز (ریشمی خطوط) حیران کن طریقے سے میرے ہاتھ لگ گئے۔ جو نوجوان بھاگ کر کابل گئے ان میں سے دو ایک عمدہ مسلمان فوجی کے بیٹے تھے، وہ خان میرا پرانا دوست تھا۔ اس کے اصرار پر میں نے امیر (کابل) کو پیغام بھجوائے کہ ان نوجوانوں کو واپس آنے کی اجازت دے دی جائے ان سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی اور انہیں معاف کر دیا جائے گا۔ یہ طریقہ ناکام رہا۔ ان دونوں کا ایک خاندانی ملازم بھی ان کے ہمراہ کابل میں تھا، انہوں نے اسے اپنے باپ کے لیے ایک پیغام دے کر ہندوستان بھجوایا۔ اس ملازم کی آمد و رفت دیکھ کر بوڑھے باپ کو کچھ شک گزرا، جب اس کے ساتھ سختی کی گئی تو ملازم مان گیا کہ کابل سے وہ کچھ اور بھی لایا تھا۔ یہ وہی مشہور و معروف ’’سلک لیٹرز‘‘ تھے، وہ فارسی میں زرد ریشمی کپڑے پر لمبائی کے رخ لکھے گئے خطوط تھے۔ لکھنے والے کا خط اچھا تھا اور اس کپڑے کو کوٹ کی لائننگ کی اندرونی جانب سی دیا گیا تھا۔ وہ کوٹ حفاظتی نقطۂ نظر سے ایک مقامی ریاست میں رکھا گیا تھا۔ خان کی دھمکیاں کارگر ثابت ہوئیں اور وہ کوٹ پیش کر دیا گیا۔ خان نے وہ سلک لیٹرز کاٹ لیے کیونکہ وہ زیادہ فارسی نہیں جانتا تھا لہٰذا ان کا مطلب نہ سمجھ سکا۔ تاہم اسے یقین تھا کہ سلک لیٹرز کچھ نہ کچھ خفیہ معانی ضرور رکھتے تھے۔
کمشنر نے وہ مجھے بھجوا دیا اور ساتھ یہ بھی کہلا بھیجا کہ اس کے خیال میں وہ الفاظ بالکل بے معنی اور ناقابل فہم تھے۔ میں ابتدا میں ان کا پورا مفہوم نہ سمجھ سکا لیکن اتنا جان گیا کہ وہ کسی وسیع منصوبے کے بارے میں تھے۔ میں نے وہ سی آئی ڈی والوں کو بھجوا دیے جہاں سر چارلس کلیولینڈ نے معمہ بہت جلد حل کر لیا۔ وہ عبید اللہ اور انصاری (مولانا عبید اللہ سندھی اور مولانا منصور انصاری) نام کے دو مولویوں کی طرف سے لکھے گئے تھے جن کا تعلق دیوبند (یو پی) مکتب فکر سے تھا۔ وہ انہوں نے وہاں اور دہلی میں بیٹھ کر تبلیغ جہاد کے لیے لکھے تھے۔ ۱۹۱۵ء میں کابل جاتے ہوئے انہوں نے ہندوستانی جنونیوں سے بھی ملاقات کی تھی۔ وہاں ان کا پرجوش خیرمقدم کیا گیا۔ ترکی اور جرمنی کے مشن سے ان کا رابطہ ہوا۔ علاوہ ازیں ہندوستانی انقلاب پسندوں یعنی مہندرا پرتاب اور برکت اللہ سے بھی ان کی ملاقات کروائی گئی۔ اس طرح انہوں نے اپنے رابطوں کو فعال بنا لیا۔ انصاری پہلے ہی عرب جا چکا تھا اور واپس کابل بھی پہنچ گیا تھا۔ سلک لیٹرز پر ۹ جولائی ۱۹۱۶ء کی تاریخ درج تھی۔ سندھ میں ایک قابل بھروسا ایجنٹ مکتوب الیہ تھا۔ اسے تاکید کی گئی تھی کہ یا تو وہ خود لے جائے یا کسی قابل اعتماد پیغام رساں کے ہاتھ محمود حسن (شیخ الہندؒ) نام کے ایک مسلمان مذہبی راہنما کے پاس پہنچا دے جو پہلے ہی سازش کے فروغ کے لیے دیوبند سے مکہ جا چکا تھا۔ کابل اور ہندوستان میں تحریک میں ہونے والی پیش رفت، جرمن اور ترک مشنوں کی آمد، جرمن مشن کی روانگی، ہنگامی حکومت کی تشکیل اور طلبہ کی سرگرمیوں کے بارے میں تفصیلات ان لیٹرز کے اندر موجود تھی۔ ایک خدائی لشکر (جنود ربانیہ) کی تشکیل کے خدوخال بھی اس میں درج تھے۔ بتایا گیا تھا کہ تمام اسلامی حکمران متحد ہو کر برطانویوں کو نکال باہر کریں گے۔
اس سے قبل ۱۹۱۶ء میں بھی ’’ہنگامی حکومت‘‘ اس حد تک چلی گئی کہ ترکستان میں روسی گورنر جنرل کے پاس ایک مشن بھجوایا گیا۔ مشن اپنے ہمراہ جو خط لے کر گیا اس پر مہندر پرتاب کے دستخط تھے۔ ایک خط زار روس کو بھی بھیجا گیا جو سونے کی ایک پلیٹ پر کندہ تھا۔ دونوں خطوں میں لکھا گیا کہ روس برطانیہ کے ساتھ اتحاد ختم کرنے اور ہندوستان پر حملہ کرنے میں ان کے ساتھ تعاون پر غور کرے۔ روس کی شاہی حکومت نے تو مشن کو واپس لوٹا دیا لیکن ۱۹۱۷ء میں جب بالشویک (کمیونسٹ) برسراقتدار آئے تو انہیں یک دم اس مشن کی اہمیت کا ادراک ہوا۔ مقصد برطانیہ کی پشت میں خنجر گھونپنا تھا۔ وہ اس طرزعمل پر مستقل مزاجی اور تھوڑی بہت کامیابی کے ساتھ قائم بھی رہے۔
اس سے پہلے بھی ہندوستانی غداروں پر مشتمل ماہر اور مشاق اسٹاف کے تعاون سے اس طرح کے خطوط اچھی اور خوبصورت اردو میں تحریر کرائے گئے تھے۔ ان خطوط کی تہیں لگا کے اور انہیں لفافوں میں ملفوف کرتے وقت انتہائی نفاست کو پیش نظر رکھا گیا۔ ان پر امپریل چانسلر دان ہالویگ کے دستخط موجود تھے، ہندوستانی شہزادگان اور امراء و روساء کو خاص طور پر مخاطب کیا گیا تھا۔ ان خطوط میں ان سے وعدہ کیا گیا کہ اگر وہ برطانوی غلامی کا طوق اتار پھینکیں تو انہیں انتہائی شان دار مراعات سے نوازا جائے گا۔ لیکن وہ خطوط لے جانے والے جرمن مشن کو ہم نے شمالی ایران میں پکڑ لیا اور خطوط برآمد کر لیے۔ وہ خطوط آج بھی انڈین فارن آفس میں دلچسپ تاریخی دستاویز کے طور پر محفوظ ہیں۔ ان سازشوں سے پتا چلتا ہے کہ کابل میں ’’ہنگامی حکومت‘‘ اور ان کے اتحادیوں نے ’’خدائی لشکر‘‘ کی راہ ہموار کرنے میں کس قدر سرتوڑ کاوشیں کیں۔
مکہ میں مقیم جس ہندوستانی مولوی (شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ) کے نام سلک لیٹرز لکھے گئے وہ حجاز میں موجود ترک جرنیل غالب پاشا کے ساتھ رابطہ کر چکا تھا۔ جنرل پاشا جب مصر میں ہمارا جنگی قیدی بنا تو اس نے تسلیم کیا کہ مذکورہ ہندوستانی مولوی نے اس سے برطانویوں کے خلاف اعلانِ جہاد پر دستخط کرائے تھے۔ ’’غالب نامہ‘‘ کے نام سے موسوم اس اعلانِ جہاد کی نقول ہندوستان اور سرحدی قبائل میں تقسیم کی جا چکی تھیں۔ سلک لیٹرز نے مولوی کو اس قابل بنا دیا کہ وہ اس تحریک کو ایک قدم آگے بڑھائے، اس نے چاہا کہ ترک حکومت اور شریف مکہ کا فعال تعاون اسے حاصل ہو جائے کیونکہ جب خطوط تحریر کیے گئے اس وقت انہوں نے (شریف مکہ نے) ترکوں کے خلاف بغاوت نہیں کی تھی۔ اسکیم کے اس حصے کا تانا بانا ذہانت سے بنا گیا تھا اور اس دور کے حالات میں اس پر عملدرآمد کسی طرح بھی ناممکن نہیں تھا۔
خط میں آگے جا کر خدائی لشکر کی تشکیل کی جو تفصیلات ملیں وہ غیر حقیقی اور تخیلاتی تھیں۔ خط میں بتایا گیا تھا کہ مذکورہ لشکر کا صدر دفتر مدینہ میں ہوگا اور اس کا سپہ سالار وہی عظیم مولوی (شیخ الہند) ہوگا۔ قسطنطنیہ، طہران اور کابل میں علیحدہ مگر ماتحت کمانیں تجویز کی گئی تھیں، کابل کی کمان خط کے مصنف اور بڑے منصوبہ ساز عبید اللہ (مولانا عبید اللہ سندھی) کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ خطوط میں تین سرپرستوں اور ۱۲ فیلڈ مارشلوں کے نام بھی درج تھے جن میں ایک شریف مکہ تھا۔ ان کے علاوہ متعدد کمانڈروں کے نام بھی موجود تھے۔ لاہور سے بھاگ کر کابل پہنچنے والے طلبہ کو بھی فراموش نہیں کیا گیا تھا۔ ایک کو میجر جنرل، ایک کو کرنل اور ۶ کو لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے دیے گئے تھے۔ اسکیم کا یہ حصہ صرف کاغذ پر موجود تھا تاہم اس کے ذریعے ہمیں ہندوستان میں ان کے ہمدردوں اور بہی خواہوں کے بارے میں قابل قدر معلومات حاصل ہوگئیں اور ہم اس قابل ہوگئے کہ ان کے خلاف ضروری امتناعی اقدامات کر سکیں۔ پنجاب میں یہ اقدامات کم و بیش نصف درجن افراد کی جلاوطنی سے آگے نہ بڑھے جو ان کے فعال ترین ترک نواز ساتھی تھے۔ پنجاب میں مسلمانوں کی تحریکوں کا بیان مکمل ہوا چاہتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ ہندوؤں اور سکھوں کی انقلابی تحریکوں سے یکسر مختلف تھیں۔ البتہ کابل میں صورتحال مختلف تھی کیونکہ وہاں مسلمانوں کے روابط انقلاب پسند ہندوؤں کے ساتھ استوار تھے جو برلن اور ہندوستان دونوں سے متاثر تھے۔ یوں سینکڑوں لوگ سازشوں میں ملوث تھے اور انہیں سزائیں بھی سنائی گئیں، ان میں سے مسلمان بمشکل ایک یا دو تھے۔
جنگ کے دوران امیر حبیب اللہ (والیٔ افغانستان) نے ہمارے ساتھ اپنے معاہدے کی جو پاسداری کی وہ ہمارے لیے بہت بڑا اثاثہ ثابت ہوئی۔ اس کے جو سردار اور حکام اسے جرمنی اور ترکی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا کرنا چاہتے تھے وہ کھل کر ان کی مخالفت نہیں کر سکتا تھا۔ ان کے ایجنٹ دارالحکومت میں بھی موجود تھے جو اعلان جہاد کر سکتے تھے اور سرحدی قبائل اور ہندوستان میں چھوٹے مگر مضبوط مسلمان باغی طبقے کو افغانستان کے اندر بلا سکتے تھے۔ اس نے وقت کی ضرورت کے مطابق زمانہ سازی سے کام لیا اور مبینہ طور پر بڑی چابک دستی سے ترکی اور جرمنی کے مشنوں سے کہا کہ جس دن وہ اسے ہرات میں ایک لاکھ افراد پر مشتمل فوج دکھا دیں گے وہ سمجھے گا کہ وہ واقعی کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں۔ یہی مرحلہ تھا جب جرمن مایوسی اور غصے کے عالم میں کابل سے نکل گئے دراصل وہ کچھ کر کے نہ دکھا سکے۔‘‘
تحریک شیخ الہند جو ’’ریشمی رومال سازش کیس‘‘ کے نام سے برطانوی سی آئی ڈی کی رپورٹوں میں موجود ہے اور حضرت مولانا سید محمد میاںؒ کے قلم سے کتابی شکل میں مرتب ہو کر سامنے آچکی ہے، یہ اس کے بارے میں سرمائیکل اوڈوائر کے مشاہدات و تاثرات ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالہ سے جرمنی، ترکی، کابل اور دیگر متعلقہ ملکوں کے میسر ریکارڈ کو سامنے لانے کی بھی کوشش کی جائے۔ مگر ہماری مجبوری یہ ہے کہ جن کے پاس ذوق ہے وہ وسائل سے تہی دامن ہیں اور وسائل والے دوستوں کے نزدیک سرے سے یہ ’’دین کا کام‘‘ ہی نہیں ہے۔