تحفظ ناموس رسالت ۔ جدوجہد کی موجودہ صورتحال

   
مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
۲۶ اکتوبر ۲۰۲۱ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ کالعدم تحریک لبیک کی طرف سے سڑکوں پر دھرنا اور احتجاج کئی دنوں سے جاری ہے اور کئی دنوں تک چلے گا، اس سلسلہ میں صورتحال اور اپنا موقف عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا اقوام متحدہ، یورپی یونین اور تمام بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ چلا آ رہا ہے کہ جس طرح کسی بھی ملک میں عام شہری کی توہین جرم سمجھی جاتی ہے، حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین کو بھی بین الاقوامی سطح پر جرم تسلیم کیا جائے۔ لیکن اس کے لیے بین الاقوامی ادارے تیار نہیں ہیں۔ مثلاً‌ ایک عام شہری کی حیثیت سے قانوناً میری توہین جرم ہے اور قانون مجھے تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن مغرب کے بہت سے ملکوں اور بین الاقوامی اداروں کے قانون میں انبیائے کرام کی توہین جرم نہیں ہے۔ ہمارا ان سے مطالبہ یہ ہے کہ جس طرح عام آدمی کی توہین جرم ہے اس طرح انبیائے کرام کی توہین کو بھی جرم تسلیم کیا جائے۔

اور ان میں فرق بھی تسلیم کیا جائے، مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ پاکستان میں ایک عام شہری کی توہین جرم ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کی توہین بھی جرم ہے، لیکن کیا یہ دونوں برابر کے جرم ہیں؟ نہیں! بلکہ دونوں میں فرق ہے۔ برطانیہ میں ایک عام شہری کی توہین جرم ہے اور ملکہ برطانیہ کی توہین بھی جرم ہے، تو کیا یہ دونوں برابر کے جرم ہیں؟ امریکہ میں ایک عام شہری کی توہین جرم ہے اور جارج واشنگٹن کی توہین بھی جرم ہے، تو کیا یہ دونوں برابر کے جرم ہیں؟ نہیں! تو ہمارے دو مطالبے ہیں۔ ایک یہ کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین کو جرم تسلیم کیا جائے اور اس کے ساتھ یہ فرق بھی تسلیم کیا جائے کہ ایک عام شہری کی توہین اور سطح کا جرم ہے اور حضرات انبیائے کرام کی توہین اور سطح کا جرم ہے جسے ہر جگہ یہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

جبکہ ہمارا یہ مطالبہ ماننے کی بجائے بین الاقوامی ادارے ہم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ پاکستان میں تحفظ ناموس رسالت کے قانون کو منسوخ کیا جائے۔ ہمارے ملک کے قانون میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرات انبیاء کرامؑ اور مذہبی شخصیات کی توہین جرم ہے اور انبیائے کرام کی توہین پر قتل کی سزا بھی مقرر ہے جسے پارلیمنٹ نے طے کیا ہے اور عدالت نے تسلیم کیاہے، یہ متفقہ قومی فیصلہ ہے۔ لیکن ہمارا مطالبہ ماننے کی بجائے ہم سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ یہ قانون ختم کریں۔ یہ ہے اصل جھگڑا۔ وہ ہماری بات نہیں مان رہے اور ہم ان کی بات نہیں مان رہے اور نہیں مانیں گے ان شاء اللہ العزیز، ان کو ہی بالآخر درست بات ماننی پڑے گی۔

جبکہ واقعاتی بات یہ ہے کہ پاکستان میں ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے قوانین کو بین الاقوامی مداخلت سے بچانے کے لیے عوامی سطح پر مختلف جماعتیں کام کر رہی ہیں۔ ختم نبوت کانفرنسیں، ناموس رسالت کانفرنسیں ہو رہی ہیں، ریلیاں اور احتجاج کیا جا رہا ہے جو کہ ہمارا حق ہے۔ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پرامن طریقے سے اپنی بات پیش کرنا اور اس کے لیے مظاہرہ کرنا ہمارا قانونی حق ہے۔ اسی تناظر میں علامہ خادم حسین رضوی مرحوم و مغفور نے ’’تحریک لبیک پاکستان‘‘ کے عنوان سے ایک مہم شروع کی تھی کہ ہم ختم نبوت اور ناموس رسالت کے تحفظ کے قوانین کو منسوخ نہیں ہونے دیں گے۔ اس دوران فرانس کے وزیر اعظم نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز گفتگو کی جس پر دنیا بھر میں احتجاج ہوا۔ پاکستان میں بھی احتجاج ہوا، ہم نے بھی احتجاج کیا اور مطالبہ یہ ہوا کہ احتجاج کے طور پر پاکستان سے فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجا جائے۔ یہ سفارتی احتجاج کا معروف طریقہ ہے، کوئی نئی بات اور کوئی انجانی بات نہیں ہے۔ بہت سے معاملات میں مختلف ممالک اپنے سفیر کو واپس بلا لیتے ہیں یا کسی ملک کا سفیر واپس بھیج دیتے ہیں۔ بہت دفعہ ایسا ہوا ہے اور سفارتی سطح پر کسی ملک کی پالیسی کے خلاف احتجاج کا یہ معروف طریقہ ہے۔ اس پر علامہ رضویؒ نے راولپنڈی فیض آباد میں دھرنا دیا اور ان سے وعدہ معاہدہ ہوا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے مولانا سعد رضوی صاحب نے دھرنا دیا پھر ان سے معاہدہ ہوا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ تحفظ ناموس رسالت کے قانون کے مسئلے پر اور فرانسیسی سفیر کو احتجاجاً ملک بدر کرنے کے مسئلے پر جو وعدے اور معاہدات تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ حکومت نے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے، بلکہ ان مطالبات پر غور کرنے کے لیے اور مطالبات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جو کمیٹی بنی تھی مبینہ طور پر آج تک اس کی میٹنگ نہیں ہوئی۔ اس پر تحریک لبیک والے پھر سڑکوں پر آگئے، لاہور اور اس وقت مریدکے میں دھرنا چل رہا ہے اور ان کے راستے بند کیے جا رہے ہیں۔

یہ صورتحال ہے اور آئندہ دو تین دنوں میں حالات زیادہ بگڑنے کا خدشہ ہے۔ اس پر ہمارا موقف وہی ہے جو دیگر جماعتوں کا ہے اور تمام جماعتیں ان کی حمایت کر رہی ہیں۔ لیکن آج صبح قومی سطح پر ملک کی دو بڑی شخصیات مولانا مفتی منیب الرحمن اور پیر آف پگارہ شریف کی طرف سے ایک تفصیلی مشترکہ اعلامیہ آیا ہے جو انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ مولانا مفتی منیب الرحمن اور پیر آف پگارا نے اپنے تفصیلی اعلامیہ میں جو موقف پیش کیا ہے ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ ہماری روایت آپ کو معلوم ہے کہ گوجرانوالہ میں جب کوئی مسئلہ ملکی سطح پر ہو تو ہم اکٹھے ہوتے ہیں۔ ابھی عصر سے پہلے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کی مشترکہ میٹنگ تھی جو کہ حضرت علامہ خالد حسن مجددی کی صدارت میں ہوئی جس میں اہل حدیث، بریلوی، دیوبندی، جماعت اسلامی سب حضرات کے نمائندے شریک تھے۔ ہم نے اس میٹنگ میں گوجرانوالہ کے تمام مکاتب فکر کے علماء کی طرف سے اس مسئلے پر مفتی منیب الرحمن صاحب اور پیر آف پگارا شریف کے اعلامیہ کی مکمل حمایت کی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جو معاہدے حکومت نے کیے تھے تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ وعدے پورے کرے، جبکہ ان وعدوں پر وزراء کے دستخط موجود ہیں۔ یہ بات غلط ہے کہ ہم وقتی طور پر معاہدہ کر کے مکر جائیں۔ لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت کو وہ معاہدے پورے کرنے چاہئیں۔ اگلی بات یہ کہ اگر ان وعدوں، معاہدوں کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے تحریک لبیک والے سڑکوں پر آئے ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔ سڑکوں پر کون نہیں آتا؟ کیا یہ پہلی دفعہ آئے ہیں؟ سڑک پر پراَمن احتجاج کرنا، مارچ کرنا آئینی اور اصولی حق ہے۔ احتجاج کے سلسلے میں کون سی پارٹی آج تک اسلام آباد نہیں گئی۔ پاکستان تحریک انصاف گئی ہے، جمعیۃ علماء اسلام گئی ہے، علامہ طاہر القادری گئے ہیں۔ جب باقی پارٹیوں کو پرامن طریقے سے اسلام آباد جانے کا حق ہے تو تحریک لبیک کو کیوں نہیں ہے؟ ان کا بھی قانونی حق ہے کہ یہ دھرنا دیں۔ ہاں اگر یہ کوئی خلاف قانون حرکت کرتے ہیں تو حکومت ان کو پکڑے لیکن اگر گارنٹی کے ساتھ پرامن طریقے سے کسی طرح کی بداَمنی کیے بغیر جاتے ہیں تو رکاوٹیں کھڑی کرنا سراسر زیادتی ہے۔ آج مجھ سے ایک دوست نے پوچھا کہ سڑکیں کیوں بند ہیں۔ میں نے کہا کہ تحریک لبیک نے بند نہیں کیں بلکہ پولیس نے بند کی ہوئی ہیں، کنٹینر پولیس نے کھڑے کیے ہیں۔

بعض لوگوں کو خیال ہوگا کہ یہ مسلکی مسئلہ ہے، ایسی بات نہیں بلکہ یہ ہر مسلمان کا مسئلہ ہے۔ یہ دیوبندی بریلوی مسئلہ نہیں ہے، وہابی سنی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کے ساتھ تعلق مسلمان کا بحیثیت مسلمان مسئلہ ہے اور آج گوجرانوالہ کے علماء کی قیادت نے طے کیا ہے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔ ہم نے آج دو فیصلے کیے ہیں۔ ایک یہ کہ جمعہ کے دن تمام مکاتب فکر کے علماء اپنے اپنے خطبات میں ان مطالبات کی حمایت میں گفتگو کریں۔ اور دوسرے یہ کہ جمعرات کو تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کی مشاورتی میٹنگ مرکزی جمعیت اہلحدیث کی دعوت پر طلب کر لی گئی ہے۔

آج علماء ہماری دعوت پر اکٹھے ہوئے تھے اور جمعرات کو ہم مرکزی جمعیت اہلحدیث کی دعوت پر اکٹھے ہوں گے۔ ہم تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے قوانین کو کسی قیمت پر نہیں بدلنے دیں گے اور اس کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ دھرنے والے دوست ہمارے بھائی ہیں، اس ملک کے شہری ہیں، لہٰذا مطالبہ کرنا، دھرنا اور احتجاج کرنا ان کا حق ہے اور اس کے اظہار سے ان کو روکنا زیادتی، ناانصافی اور قانون کا غلط استعمال ہے۔ قانون کو ہاتھ میں لینا بھی غلط ہے اور قانون کا ناجائز استعمال بھی غلط ہے۔ اور یہ بات سب جانتے ہیں، انتظامیہ بھی ، ادارے بھی اور آپ بھی کہ ہم نے قانون کو کبھی ہاتھ میں نہیں لیا اور نہ ہی قانون کو ہاتھ میں لینے کی حمایت کرتے ہیں بلکہ جس نے قانون کو ہاتھ میں لیا ہم نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور مضبوط آواز اٹھائی ہے، لہٰذا قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پرامن طریقے سے احتجاج ہمارا حق ہے اور ہم یہ حق کسی کو غصب نہیں کرنے دیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ!

2016ء سے
Flag Counter