(۲۵ فروری ۲۰۰۰ء کو مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی وفات پر ایک تعزیتی نشست منعقد ہوئی۔ اس تعزیتی ریفرنس کے حوالے سے روزنامہ نوائے وقت، لاہور یکم مارچ ۲۰۰۰ء میں جناب اعجاز میر کی رپورٹ شائع ہوئی، جس میں سے مولانا راشدی کا خطاب یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔)
مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ بھارت کے مظلوم مسلمانوں کے لیے بہت بڑے سہارے اور ڈھارس کی حیثیت رکھتے تھے اور صرف قلم اور زبان کی دنیا کے آدمی نہیں تھے بلکہ انہوں نے عملی میدان میں بھارتی مسلمانوں کی جرأت مندانہ قیادت کی۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ مسلمانوں کے خاندانی قوانین کے تحفظ کے لیے قائم ہونے والے کل جماعتی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سربراہ تھے اور انہوں نے آخر دم تک اس ذمہ داری کو پوری جرأت و استقامت کے ساتھ نبھایا۔
بھارت میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور ان پر ایک عرصہ سے یہ دباؤ چلا آ رہا ہے کہ وہ نکاح، طلاق اور وراثت سے متعلقہ خاندانی قوانین میں مذہبی احکام سے دستبردار ہو کر ہندوؤں اور دیگر غیر مسلمانوں کے ساتھ مشترکہ خاندانی قوانین (کامن سول کوڈ) کو قبول کر لیں لیکن مسلمان اس کے لیے تیار نہیں ہیں، اور مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی سربراہی میں تمام مسلم جماعتوں اور مکاتبِ فکر کے نمائندوں پر مشتمل آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اس سلسلہ میں مسلمانوں کی قیادت کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کے شخصی اور خاندانی قوانین کو ابھی تک تحفظ حاصل ہے۔
اس سلسلہ میں اپنی وفات سے صرف دو ماہ قبل مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے ممبئی میں ہونے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ملک گیر اجتماع میں جو خطبہ صدارت پیش کیا اس میں انہوں نے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ نکاح، طلاق اور وراثت میں مذہبی احکام سے دستبردار ہونے کی دعوت کو ہم ارتداد کی دعوت سمجھتے ہیں اور اس کا اسی طرح مقابلہ کریں گے جس طرح ہمارے اسلاف نے ارتداد کی دعوت کا ہمیشہ کیا ہے۔
اسی طرح بھارت کے سب سے بڑے صوبہ یوپی میں بی جے پی کی حکومت نے جب سرکاری تعلیمی اداروں میں روزانہ صبح ’’بندے ماترم‘‘ کا ترانہ گانے کو تمام طلبہ اور طالبات کے لیے لازمی قرار دیا تو مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے اعلان کیا کہ اس ترانے کے بعض اشعار شرکیہ ہیں اور ہم مسلمان ہیں، کوئی شرکیہ ترانہ نہیں گا سکتے، اس لیے ہم موت قبول کر لیں گے مگر ہمارے بچے سکولوں میں یہ ترانہ نہیں پڑھیں گے۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے اس دوٹوک اور شدید احتجاج پر یو پی حکومت کو بالآخر اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔
مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے عالمِ اسلام کو سب سے زیادہ جس فتنے سے خبردار کیا اور اس کے لیے مسلسل محنت کی وہ ’’نیشنلزم‘‘ کا فتنہ ہے۔ مولانا ندویؒ کا کہنا ہے کہ وطنی قومیت کا یہ فتنہ عالمِ اسلام کا شیرازہ بکھیرنے اور خلافتِ اسلامیہ کو ختم کرنے کے لیے سازش کے تحت کھڑا کیا گیا ہے، اس لیے مسلمانوں کو اس فتنے سے نجات حاصل کرنی چاہیے اور مِلی سوچ اور جذبات کو فروغ دینا چاہیے۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ بہت سی علمی و روحانی نسبتوں کا مجموعہ تھے۔ ان کا خاندانی تعلق امیر المومنین سید احمد شہیدؒ کے خاندان سے تھا اور وہ رائے بریلی کی عظیم خانقاہ دائرہ شاہ علم اللہؒ کے مسند نشین تھے۔ علمی طور پر وہ ندوۃ العلماء کے نمائندہ تھے اور روحانی طور پر انہیں حضرت مولانا محمد زکریا سہارنپوری سے خلافت و اجازت حاصل تھی، اور بلاشبہ وہ ہمارے ان عظیم اسلاف و اکابر کی آخری نشانی تھے جو ہم سے جدا ہو گئے ہیں۔
اس تعزیتی ریفرنس کا مقصد جہاں مولانا ندویؒ کی خدمات پر خراجِ عقیدت پیش کرنا اور ان کے ساتھ اپنی نسبت کا اظہار ہے وہاں نئی نسل کو ان کے کارناموں کا تعارف کرانا بھی ہے جو نئی پود کا حق ہے کیونکہ ان جیسے بزرگوں اور اکابر کی خدمات اور کارناموں سے سبق حاصل کر کے ہی ہماری نئی نسل آنے والے دور میں ملتِ اسلامیہ کی صحیح طور پر خدمت اور رہنمائی کر سکتی ہے۔