برادر مسلم ملک ترکی کے حالیہ انتخابات میں جناب نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی کی جیت دنیا بھر میں اس وقت موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ اور اس پر جہاں عالمِ اسلام کے دینی حلقوں میں مسرت و اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے وہاں مغربی لابیوں اور ذرائع ابلاغ کی تشویش و اضطراب میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ترکی ایک زمانہ میں عالمِ اسلام کا بازوئے شمشیر زن تھا، اور ترک قوم نے خلافت ِعثمانیہ کا مرکز ہونے کے حوالے سے کم و بیش پانچ سو برس تک دنیائے اسلام کی قیادت کی ہے۔ استنبول خلافتِ عثمانیہ کا پایۂ تخت تھا اور حجاز مقدس سمیت مشرقِ وسطٰی کے بیشتر ممالک پر اس کا پرچم لہرا رہا تھا۔ مگر صلیبی جنگوں میں بہادر ترکوں کے ہاتھوں بار بار شکست کھانے کے بعد یورپی اقوام نے خلافتِ عثمانیہ ہی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے سازشوں کے جال بچھائے، اور بالآخر عرب قومیت اور ترک قومیت کو آمنے سامنے کھڑا کر کے یورپی قوموں نے ۱۹۲۴ء میں خلافتِ عثمانیہ کا بوریا بستر گول کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔
- عرب ممالک نے عرب قومیت کے نام پر ترکوں کی ’’غلامی‘‘ سے نجات حاصل کرنے کے لیے بغاوت کا راستہ اختیار کیا،
- اور ترک قوم پرستوں نے اتاترک مصطفٰی کمال پاشا کی قیادت میں خلافت کا ’’جوا‘‘ گلے سے اتار کر سیکولر اور جمہوریہ ترکی کی داغ بیل ڈالی۔ خلافت کے ساتھ اس کے اثرات و علامات سے جان چھڑانا بھی ضروری سمجھا گیا۔ عربی زبان ممنوع قرار پائی۔ تلاوتِ قرآن کریم، اذان اور نماز کی عربی میں ادائیگی کی ممانعت ہو گئی۔ بیشتر مساجد بند کر دی گئیں۔ برقع غیر قانونی قرار دیا گیا۔ دینی مدارس اور خانقاہیں مقفل کر دی گیں۔ اور ترکی کو مذہب کی ہر نشانی سے جبراً محروم کر کے لامذہب یورپ کی صفوں میں کھڑا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔
۱۹۵۰ء میں جلال بایار مرحوم نے مذہبی اقدار کے احیا اور مساجد کی بحالی کے نام پر الیکشن جیتا، اور صدر جلال بایار اور ان کے وزیر اعظم عدنان میندریس شہیدؒ نے ترکی کی اسلامی شناخت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی۔ مساجد آباد ہوئیں، قرآن کریم کی عربی میں اشاعت و تلاوت کی اجازت ملی، نماز اور اذان کی عربی میں ادائیگی جائز قرار پائی، سکولوں اور کالجوں میں اسلامیات کے شعبے دوبارہ کھلے۔ مگر یہ عمل ترکی کی سیکولر قوتوں کو راس نہ آیا اور جنرل جمال گورسل نے ایک فوجی انقلاب کے ذریعے جلال بایار اور عدنان میندریس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ دونوں پر مقدمہ چلایا گیا اور عدنان میندریس کو پھانسی دے دی گئی، جبکہ جلال بایار اپنی سابقہ فوجی خدمات کے باعث پھانسی کی بجائے قید کی سزا کے مستحق ٹھہرے۔ اس طرح لادینیت سے مذہب کی طرف ترکی کی واپسی کا قومی سفر جبراً روک دیا گیا۔
اب پھر کم و بیش ربع صدی کے بعد نجم الدین اربکان انہی راستوں پر چل رہے ہیں۔ ان کی رفاہ پارٹی عالم اسلام کے ساتھ تعلقات کی بحالی، اسلامی اقدار کے فروغ اور مغربی تہذیب کے اثرات سے نجات حاصل کرنے کے لیے حکمت و دانش کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، اور انہیں انتخابات میں عوامی تائید بھی حاصل ہو رہی ہے جو اسلام کے ساتھ ترک عوام کی وابستگی اور شیفتگی کی آئینہ دار ہے۔ گزشتہ بلدیاتی الیکشن میں رفاہ پارٹی کو استنبول اور انقرہ سمیت بہت سے شہروں میں بلدیاتی اقتدار حاصل ہوا ہے، اور اب قومی انتخابات میں رفاہ پارٹی نے ۲۱ فیصد ووٹ حاصل کر کے ۵۰۰ کے ایوان میں ۱۵۸ سیٹیں جیت لی ہیں اور وہ قومی اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے۔
رفاہ پارٹی کو اگرچہ حکومت بنانے کی پوزیشن حاصل نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اس کی یہ کامیابی پورے مغرب کے لیے پریشانی کا باعث بن گئی ہے اور اسے اقتدار سے ہر قیمت پر دور رکھنے کے لیے منصوبہ بندی ہو چکی ہے۔ بعید نہیں کہ رفاہ پارٹی کے برسراقتدار آ جانے کے امکان کو سامنے رکھتے ہوئے کسی نئے ’’جمال گورسل‘‘ کی پیٹھ تھپھپانے کا عمل بھی شروع ہو گیا ہو، اللہ تعالیٰ نجم الدین اربکان اور ان کے ساتھیوں کی حفاظت فرمائیں، آمین۔