توہین آمیز خاکوں کی اشاعت سے متعلق چند ضروری باتیں

   
مارچ ۲۰۰۶ء

ڈنمارک کے اخبار جیلنڈر پوسٹن میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع ہونے پر مسلم امہ میں جو اضطراب اور بے چینی پیدا ہوئی ہے وہ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور احتجاجی مظاہروں کا دائرہ مسلسل وسیع ہو رہا ہے- اخباری رپورٹوں کے مطابق اس روزنامہ نے باقاعدہ دعوت دے کر کارٹونسٹوں سے یہ خاکے بنوائے اور انہیں اہتمام کے ساتھ شائع کیا، اس پر ابتدا میں رسمی طور پر مختلف حلقوں کی طرف سے احتجاج ہوا جس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا بلکہ یورپ کے بعض دیگر ملکوں کے اخبارات نے بھی یہ خاکے شائع کرنا شروع کر دیے جس پر اضطراب کا دائرہ وسیع ہوا اور سعودی عرب کی طرف سے ڈنمارک سے اپنا سفیر واپس بلانے کے اعلان کے بعد عالمی سطح پر یہ مسئلہ موضوع بحث بن گیا۔

جیلنڈرپوسٹن کے متعلقہ ایڈیٹر فلیمنگ روز نے مسلمانوں کے احتجاج پر معذرت کرنے کی بجائے اپنے اس اقدام کے دفاع کا راستہ اختیار کیا ہے اور ڈنمارک کے وزیر اعظم نے بھی آزادی رائے کے عنوان سے اخبار کے اس عمل پر نوٹس لینے سے انکار کر دیا ہے جس نے مسلمانوں کے اضطراب اور غصہ میں اور زیادہ اضافہ کر دیا ہے- چنانچہ دنیا بھر کے مسلم ممالک بلکہ مغربی ممالک میں بھی مسلمانوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، ڈنمارک کی حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ مسلمانوں کی اس دل آزاری پر معذرت کرے، مسلم حکومتوں پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ ڈنمارک سے اپنے سفیر واپس بلائیں، اور اسلامی سربراہ کانفرنس کا باضابطہ اجلاس بلا کر مغربی حکومتوں پر واضح کیا جائے کہ مسلمان کسی حالت میں بھی جناب نبی اکرم ؐ کی شان اقدس میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتے اور یہ ان کے ایمان و عقیدہ کا مسئلہ ہے جس پر کسی قسم کی لچک اور مفاہمت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

گزشتہ دنوں اس سلسلہ میں مذکورہ اخبار کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مسلمان تنقید برداشت نہیں کرتے اور ان کے جذبات میں شدت اس وجہ سے ہے۔ مگر یہ بات قطعی طور پر غلط ہے اس لیے کہ جہاں تک اختلاف اور تنقید کا تعلق ہے مسلمانوں نے کسی دور میں بھی سنجیدہ اور علمی تنقید کا برا نہیں منایا، یہ تنقید علمی طور پر قرآن کریم پر بھی ہوتی رہی ہے اور جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی اور ارشادات و تعلیمات پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع سے جاری ہے، بالخصوص مستشرقین کی طرف سے اسلام اور پیغمبر اسلام ؐ کے اعتراضات کا جو معاملہ صدیوں سے چل رہا ہے اس پر مسلمانوں نے کبھی جذباتیت کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ علمی تنقید کا جواب علمی انداز میں دیا ہے، اور اس سلسلہ میں دونوں طرف کے وسیع اور متنوع لٹریچر کو دیکھتے ہوئے اس الزام کا وزن معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان تنقید برداشت نہیں کرتے۔ البتہ تنقید اور توہین میں فرق ہے اور یہ فرق آزادی رائے کے علمبردار مغرب کو بھی بہرحال ملحوظ رکھنا ہوگا، مسلمانوں نے علمی تنقید کا جواب ہمیشہ علمی زبان میں دیا ہے مگر توہین کبھی برداشت نہیں کی اور نہ ہی آئندہ کبھی برداشت کی جا سکتی ہے۔ اس کی بیسیوں مثالوں میں سے ایک مثال کو سامنے رکھ لیجئے کہ ہمارے اس معاشرے میں:

  • ایک ہندو عالم اور دانش ور پنڈت دیانند سرسوتی نے ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ نامی کتاب میں اسلام پر، قرآن کریم پر اور جناب نبی اکرمؐ پر سینکڑوں اعتراضات کیے جن کا علماء کرام نے علمی انداز میں جواب دیا،
  • لیکن ہندو مذہب ہی کے ایک مصنف راج پال نے جناب نبی اکرمؐ کی شان میں گستاخی اور توہین کا پہلو اختیار کیا تو اسے غازی علم الدین شہیدؒ نے جہنم رسید کر دیا۔

ایک ہی شہر (لاہور) میں تھوڑے سے وقفہ سے دو ہندو مصنفوں کے ساتھ مسلمانوں کا الگ الگ طرز عمل اس امر کی تاریخی شہادت ہے کہ مسلمانوں پر تنقید برداشت نہ کرنے کا الزام قطعی طور پر بے بنیاد ہے۔ البتہ توہین کا معاملہ جدا ہے، یہ جناب رسول اکرم کی ذات اقدس کے ساتھ مسلمانوں کی بے پناہ محبت کا اعجاز ہے کہ وہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کو کسی حالت میں برداشت نہیں کرتے اور یہ ان کے ایمان کا تقاضہ ہے۔ یورپ کے مستشرقین کا معاملہ بھی اسی نوعیت کا ہے کہ اسلام، قرآن کریم اور آنحضرتؐ کی ذات اقدس پر ان کے سینکڑوں اعتراضات ان کی کتابوں میں موجود ہیں اور مسلسل چھپ رہے ہیں، مسلمان دانشوروں نے ان پر سیخ پا ہونے کی بجائے ان کے علمی جوابات دیے ہیں اور علمی مکالمہ و مباحثہ کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔

اس لیے ڈنمارک کے مذکورہ اخبار کی اس حرکت اور اس پر ڈنمارک کی حکومت کے طرز عمل کو اس بے بنیاد الزام کی اوٹ میں چھپانے کی کوشش بے سود اور حقائق کے منافی ہے کیونکہ بات اختلاف و تنقید اور اعتراض کی نہیں، توہین اور تنقیص کی ہے، مغرب کا پریس اور حکمران آزادی رائے کے نام پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر اعتراض کا نہیں بلکہ توہین و تنقیص اور تمسخر استہزا کا حق مانگ رہے ہیں جو کسی صورت میں نہیں دیا جا سکتا۔ ہم اس سلسلہ میں ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کی حمایت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس صورتحال پر روایتی طرز عمل اختیار کرنے کی بجائے سنجیدگی سے کام لے اور ڈنمارک کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے ساتھ ساتھ مسلم سربراہ کانفرنس کا اجلاس طلب کرنے کا اہتمام کرے کیونکہ اس کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اور مسلمانوں کے اضطراب و احتجاج کا دائرہ مزید وسیع ہوتا چلا جائے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter