گزشتہ دنوں پاکستان کی وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ کسی جرم میں کسی عورت کو سزائے موت نہیں دی جائے گی۔ اس پر ملک بھر میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور اسے قرآن و سنت کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔
دراصل یہ فیصلہ اس مسلسل مہم کا حصہ ہے جو مغربی حکومتوں اور لابیوں کے دباؤ کے باعث پاکستان کو بنیاد پرستی کے الزام سے بچانے اور ایک روشن خیال ملک ثابت کرنے کے لیے موجودہ حکومت ایک عرصہ سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سے قبل اقلیتوں کو دوہرے ووٹ کا حق دینے اور توہینِ رسالتؐ کے جرم کو پولیس کی دست اندازی سے مستثنیٰ کرنے کے بارے میں وفاقی کابینہ کے فیصلے بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھے۔ اور سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کو عملاً ختم کرنے اور وفاقی شرعی عدالت کو غیر مؤثر بنانے کی کارروائیاں بھی اسی مہم کا حصہ ہیں۔
اسلام کے قانونی نظام میں جرائم پر عورت اور مرد یکساں سزا کے مستحق ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایک عورت کو چوری پر ہاتھ کاٹنے اور ایک عورت کو بدکاری پر رجم کی سزا دی۔ لیکن مغربی لابیاں اور حکومتیں پاکستان کے بارے میں مسلسل یہ پروپیگنڈا کر رہی ہیں کہ اس ملک میں عورتوں اور اقلیتوں کو تحفظ حاصل نہیں ہے، اور وفاقی کابینہ کے مذکورہ فیصلے اسی دباؤ پر فدویانہ ردعمل کے اظہار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عورت کے لیے سزائے موت منسوخ کرنے کے اس فیصلے سے دیگر قوانین کے علاوہ قصاص کا قانون، رجم کا قانون اور توہینِ رسالتؐ پر موت کی سزا کا قانون ادھورے اور غیر مؤثر ہو گئے ہیں، اور پاکستان ایک نظریاتی مسلم ملک کی بجائے سیکولر اور لامذہبی ریاست کی طرف ایک قدم اور بڑھ چکا ہے۔
اس پر دینی حلقوں کا ردعمل بجا ہونے کے باوجود ناکافی ہے، کیونکہ ضرورت صرف بیانات کی نہیں ایک منظم تحریک کی ہے، جو رائے عامہ کی قوت کے ساتھ اس قسم کے اقدامات کا راستہ روک سکے۔ اللہ کرے کہ ہمارے دینی راہنماؤں میں اخباری بیانات اور بند کمروں کی قراردادوں سے آگے بڑھ کر بھی کچھ کرنے کی ضرورت کا احساس اور حوصلہ پیدا ہو جائے، آمین۔