۲۶ اگست کو وحدت روڈ مسلم ٹاؤن لاہور میں جمعیۃ علماء اسلام کے زیر اہتمام ’’ختم نبوت کانفرنس‘‘ سے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جمعیۃ علماء اسلام لاہور کا شکرگزار ہوں کہ اس کانفرنس میں تحریک تحفظ ختم نبوت کے حوالہ سے مجھے کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع دیا، اللہ تعالیٰ جزائے خیر سے نوازیں، آمین۔
نوے سال کی طویل جدوجہد کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخی فیصلہ کیا تھا جسے نصف صدی گزر چکی ہے اور آج ہم تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد کے اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔ اس مرحلہ میں ضروری ہے کہ ہم تحریک تحفظ ختم نبوت کی معروضی صورتحال کا جائزہ لیں اور اب تک کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالتے ہوئے آئندہ کی حکمت عملی طے کریں۔
اس سلسلہ میں پہلی گزارش یہ ہے کہ دستور و پارلیمنٹ کے اس فیصلہ کو ابھی تک قادیانیوں نے تسلیم نہیں کیا جبکہ ان کے سرپرست عالمی ادارے اور بین الاقوامی لابیاں بھی اس فیصلہ کو تبدیل کرانے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور ہم دستوری و قانونی طور پر عجیب سے مخمصہ کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس پس منظر میں ہمیں اس امر کا جائزہ لینا چاہیے کہ ملک میں دستور و قانون کی بالادستی اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والی بہت سی جماعتوں اور حلقوں کو خلافِ قانون قرار دے کر ان کے خلاف ایکشن کی جو روایت چلی آ رہی ہے قادیانیوں کو بھی اس کے دائرے میں لینا ضروری ہو گیا ہے، اور حکومت سے یہ مطالبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر قادیانی دستور کو تسلیم نہ کرنے پر بضد ہیں تو ان کے خلاف دستور کی رٹ کو چیلنج کرنے پر کاروائی کی جائے اور اس وقت تک انہیں سرگرمیوں سے قانوناً روک دیا جائے جب تک وہ دستور کی بالادستی اور قوم کے متفقہ فیصلہ کو تسلیم کرنے کا دوٹوک اعلان نہیں کرتے۔
دوسری گزارش یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ تحفظ ختم نبوت کے لیے محنت کرنے والی جماعتیں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، مجلس احرار اسلام، انٹرنیشنل ختم نبوت اور شبان ختم نبوت عوامی محاذ پر تو مسلسل سرگرم عمل ہیں اور عوام میں بیداری قائم کرنے کے لیے بہت محنت کر رہی ہیں مگر قادیانیوں نے یونیورسٹیوں، تعلیمی اداروں، ابلاغ کے ذرائع، بیوروکریسی، سیاست دانوں، وکلاء اور دیگر حلقوں میں محنت کا جو جال پھیلا رکھا ہے ان دائروں میں جو کام ہونا چاہیے وہ نظر نہیں آ رہا۔ اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد کرنے والی جماعتوں اور اداروں کو اس خلا کو پر کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔
تیسری گزارش یہ ہے کہ بین الاقوامی اداروں اور لابیوں کی قادیانیوں کے حق میں سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، انسانی حقوق کمیشن اور دیگر بین الاقوامی ادارے قادیانیوں کی کمین گاہیں ثابت ہو رہی ہیں جن کے ذریعے سے وہ وسیع تر مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان اداروں تک ہماری رسائی دیکھنے میں نہیں آ رہی اور جن فورموں میں یہ مسائل زیربحث آتے ہیں اور وہ فیصلے کیے جاتے ہیں جو حکومتوں کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، ہم ان اداروں اور فورموں میں پہنچ کر اپنا موقف واضح نہیں کر پا رہے جو بہت بڑے نقصان کا باعث ہے۔ یہ ذمہ داری اصل میں تو ملک کی وزارت خارجہ اور وزارت مذہبی امور کی ہے کہ وہ ان عالمی سرگرمیوں پر مسلسل نظر رکھیں اور باقاعدہ محکمانہ طور پر ملک کے قانون و دستور اور قوم کے متفقہ فیصلوں کے خلاف سازشوں کی نشاندہی کر کے ان کے تدارک کے لیے عالمی ماحول میں محنت کریں۔ لیکن اگر وہ نہیں کر رہے تو اس محاذ پر کام کرنے والی جماعتوں کو کوئی صورت ضرور نکالنی چاہیے اور قادیانیوں کی ان یکطرفہ سرگرمیوں کے سدباب کے لیے کوئی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے، اور اس سلسلہ میں ہمارے ہم خیال نظریاتی حضرات مغربی ممالک میں موجود ہیں ان سے رابطہ کر کے مختلف ورکنگ گروپ بنائے جا سکتے ہیں۔
جبکہ چوتھی بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ۱۹۵۳ء، ۱۹۷۴ء، اور ۱۹۸۴ء کی تحریکاتِ ختم نبوت میں تمام مذہبی حلقے اور طبقات مشترکہ طور پر سرگرم عمل تھے جس سے قومی تحریک کا ماحول بن گیا تھا۔ آج وہ صورتحال نہیں ہے، ہماری محنت سمٹ کر محدود ہوتی چلی جا رہی ہے۔ جبکہ قادیانیوں کی ملکی اور بین الاقوامی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان تحریکات میں تمام مسالک کی قیادتیں فرنٹ پر تھیں اور مشترکہ جدوجہد ہوئی تھی، ان کے ساتھ وکلاء حضرات، تاجر برادری، اساتذہ اور طلبہ کی تنظیمیں بھی متحرک تھیں۔ یہ ماحول دوبارہ واپس لانے کی ضرورت ہے ورنہ قادیانی سازشوں اور ان کے حق میں بین الاقوامی حلقوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کرنا مشکل ہو جائے گا۔
میں نے ان چار حوالوں سے تحریک ختم نبوت کی معروضی صورتحال کا ذکر کیا ہے اس لیے کہ نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی ہم مطالبات کے ماحول میں کھڑے ہیں جبکہ قادیانی قوم و ملت اور دستور و قانون کا فیصلہ ماننے سے صاف انکاری ہیں۔ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ گزشتہ نصف صدی کے دوران اپنی کارکردگی کا کھلے دل سے جائزہ لیں، خلا اور کوتاہیوں کا ادراک کریں اور ترجیحات ازسرنو مرتب کر کے نئے عزم اور حوصلہ کے ساتھ اس جدوجہد کو آگے بڑھائیں تاکہ تحفظ ختم نبوت کے تقاضوں کو مؤثر طریقہ سے پورا کر سکیں، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔