’’میثاق النبیین‘‘ اور فلسطین کا حالیہ بحران

   
جامع مسجد مہاجرین، جھاوریاں، سرگودھا
۱۹ اکتوبر ۲۰۲۳ء

مجلس علماء جھاوریاں کے زیر اہتمام جامع مسجد مہاجرین جھاوریاں ضلع سرگودھا میں ’’سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے موضوع پر ایک اجتماع سے گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے بارے میں قرآن مجید نے بیسیوں نہیں سینکڑوں آیات میں ذکر کیا ہے، اور اس کا سب سے پہلا مرحلہ جو قرآن مجید نے ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نسلِ انسانی کو پیدا کرنے سے پہلے میں نے حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی ارواح کو اکٹھا کیا اور ان سے ایک عہد لیا تھا جسے ’’میثاق النبیین‘‘ کہتے ہیں۔ یہ عہد جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہے ’’واذ اخذ اللہ میثاق النبیین‘‘ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں سے میثاق لیا۔ وعدہ یکطرفہ ہوتا ہے اور میثاق دو طرفہ ہوتا ہے۔ ایک کام ایک فریق نے کرنا ہوتا ہے،اور ایک کام دوسرے فریق نے کرنا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام سے میثاق لیا تھا یعنی ایک کام کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا تھا اور ایک کام کا وعدہ انبیاء کرامؑ نے کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’لما اٰتیتیکم من کتاب و حکمۃ‘‘ کہ میں تمہیں کتاب ، وحی، شریعت اور حکمت دوں گا اور نبی بنا کر بھیجوں گا، تم دنیا میں جا کر اپنا اپنا وقت گزارو گے اور لوگوں کو میری توحید کی دعوت دو گے۔ ’’ثم جاءکم رسول مصدق لما معکم‘‘ جب تم سارے پیغمبر اپنی مدت پوری کر چکے ہو گےپھر تم سب کے بعد ایک رسول آئے گا، اس آخر الزمان پیغمبر کا کام یہ ہوگا کہ وہ تم سب کی تعلیمات کی تصدیق کرے گا۔ وہ دنیا کو بتائے گا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے بھی ٹھیک کہا تھا، حضرت نوح علیہ السلام نے بھی درست کہا تھا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی صحیح کہا تھا۔ دو کام تمہارے ذمے ہیں ’’لتؤمنن بہ ولتنصرنہ‘‘ البتہ ضرور تم اس پر ایمان لاؤ گےاور اس کی مدد کرو گے۔ اس میں البتہ اور ضرور کی دو تاکیدیں شامل ہیں۔ یہ فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرامؑ سے پوچھا ’’ءاقررتم واخذتم علیٰ ذٰلکم اصری؟‘‘کیا تم اقرار کرتے ہو اور اس پر مجھ سے عہد کرتے ہو؟ انبیاء کرام نے کہا ’’ اقررنا ‘‘ جی ہم اقرار اور عہدکرتے ہیں۔ ’’قال فاشہدوا وانا معکم من الشاہدین‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا گواہ ہو جاؤ، میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔

یہ میثاق اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ذکر کیا ہے۔ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو جب ترتیب سے بیان کریں گے تو سب سے پہلے ’’میثاق النبیین‘‘ کا ذکر آئے گا ۔ اس عہد کے مطابق اللہ رب العزت نے تو اپنا کام یہ کیا کہ حضرات انبیاء کرامؑ کو وحی، کتاب اور حکمت عطا کی۔ اب ہم اس پر بات کرتے ہیں کہ حضرات انبیاء کرامؑ نے جو کام اپنے ذمے لیے تھے انہوں نے یہ کب، کہاں اور کیسے کیے تھے؟ وعدہ کرنے والے پیغمبر ہیں اور وعدہ اللہ رب العزت سے کیا ہے تو اس سے پکا وعدہ کونسا ہو سکتا ہے؟ صرف وعدہ نہیں کیا بلکہ گواہی اور شہادت بھی دی۔ لیکن حضرات انبیاء کرامؑ تو دنیا میں آ کر اپنا اپنا وقت گزار کر چلے گئے جبکہ حضور نبی کریمؐ سب سے آخر میں آئے تھے تو اس عہد کے مطابق انبیاء کرامؑ کب حضور نبی کریمؐ پر ایمان لائے اور انہوں نے آپؐ کی مدد کہاں کی ؟

یعنی ’’لتومنن بہ‘‘ کہاں ہوا تھا اور ’’لتنصرنہ‘‘ کہاں ہوا تھا؟ مفسرین اس پر بحث کرتے ہیں اور سب سے جامع بحث خاتم المحدثین مولانا سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ نے کی ہے، انہوں نے بہت عقدے کھولے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایمان لانے کے وعدے کی تکمیل معراج کی رات مسجد اقصیٰ میں ہوئی تھی۔ معراج کی حکمتوں میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت نے پیغمبروں سے وعدہ لے رکھا تھا کہ تم سب نے جناب نبی کریمؐ پر ایمان لانا ہے۔ انہوں نے اقرار کیا تھا تو اس وعدے کی تکمیل کے لیے معراج کی رات اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرامؑ کو اکٹھا کیا۔ حضورؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب میں مسجد اقصیٰ پہنچا تو انبیاءؑ کی صفیں بنی ہوئی تھیں، جبریل علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور مصلیٰ پر کھڑا کر دیا کہ نماز آپ پڑھائیں گے ۔ جب تمام انبیاء کرامؑ نے ”پیچھے اس امام کے“ کہہ کر حضور ؐ کی اقتدا میں نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا وعدہ پورا ہوگیا۔ مسجد اقصیٰ کے ساتھ ہمارے اور تعلق بھی ہیں لیکن ہمارا سب سے بڑا تعلق یہ ہےکہ وہ جناب نبی کریمؐ کو امام الانبیاءؑ کا منصب ملنے کی جگہ ہے، اللہ رب العزت نے آپؐ کو عملاً امام الانبیاء مسجد اقصیٰ میں بنایا تھا۔

دوسرا وعدہ ’’لتنصرنہ‘‘ کہاں پورا ہوا کہ تم سب انبیاء کرام نبی آخر الزمانؐ کی مدد کرو گے۔ اس پر مفسرین کرامؒ فرماتے ہیں کہ فرض دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک فرضِ عین اور دوسرا فرضِ کفایہ۔ فرض عین وہ ہوتا ہے جو سب نے کرنا ہوتا ہے۔فرض کفایہ وہ ہوتا ہے جو چند لوگ کر لیں تو سب کی طرف سے ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پانچ وقت کی نماز فرضِ عین ہے، جبکہ نمازِ جنازہ فرضِ کفایہ ہے۔ ویسے آج کل ہماری ترتیب الٹ ہے، ہم نماز جنازہ کو فرضِ عین سمجھتے ہیں اور پانچ وقت کی نماز کو فرضِ کفایہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں آج کل یہی ہے کہ جنازہ پر تو لازماً جانا ہے، لیکن فرض نماز کوئی بھائی یا چچا پڑھ آئے گا تو سب کی طرف سے ہو جائے گی۔ لیکن اصل یہ ہے کہ پانچ وقت کی نماز تو سب نے پڑھنی ہے، البتہ جنازہ کچھ نے پڑھ لیا تو سب کی طرف سے ہو جائے گا، ہاں اگر کسی نے بھی جنازہ نہیں پڑھا تو سب گنہگار ہوں گے۔

یہ بات سامنے رکھ مفسرین کرامؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ’’لتؤمنن بہ‘‘ کا وعدہ معراج کی رات پورا کروایا جبکہ ’’لتنصرنہ‘‘ کے وعدے کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک جلیل القدر پیغمبر حضرت عیسٰی علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا تھا جو سب انبیاء کی طرف سے فرض کفایہ ادا کریں گے۔ وہ انتظار میں ہیں کہ کب اللہ کا حکم ہو تو وہ زمین پر آئیں۔ یہودیوں نے دعوٰی کیا تھا کہ ہم نے حضرت عیسٰیؑ کو سولی پر چڑھا دیا ہے۔ عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہےکہ حضرت عیسیٰؑ سولی چڑھ گئے تھے، صلیب اسی کا نشان ہے۔ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق وہ تین دن قبر میں رہے پھر زندہ کر کے آسمانوں پر اٹھائے گئے ۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ یہ بات غلط ہے ’’وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم‘‘ کہ نہ وہ انہیں قتل کر سکے اور نہ سولی چڑھا سکے بلکہ وہ شبہ میں پڑ گئے تھے۔ ’’بل رفعہ اللہ الیہ‘‘ ہم نے ان کو اوپر اٹھا لیا تھا۔ یہودیوں کا دعویٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا ہے اور عیسائیوں کا دعوٰی ان کے قتل ہو جانے کا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ دونوں دعوے غلط ہیں۔ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نہ سولی چڑھے، نہ قبر میں گئے، نہ قتل ہوئے، نہ موت آئی، ویسے ہی زندہ آسمانوں پر اٹھا لیے گئے تھے جہاں وہ زندہ سلامت موجود ہیں، قیامت کے قریب تشریف لا کر دنیا میں زندگی گزاریں گے، شادی ہوگی، بچے ہوں گے اور جب انتقال ہوگا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر میں دفن ہوں گے۔ اس وقت حضرت عیسٰی علیہ السلام کی عمر ۲۰۲۳ سال ہو چکی ہے اس لیے کہ سنِ عیسوی کا آغاز ولادتِ عیسٰیؑ سے ہوتا ہے، اس طرح دنیا میں سب سے لمبی عمر کے انسان حضرت عیسٰی علیہ السلام ہیں۔

ایک دفعہ ایک صاحب نے کہہ دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام غیر معروف شخصیت ہیں۔ میں نے کہا کہ ہم سے پوچھو، ہمیں تو یہ بھی پتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شادی کس خاندان میں ہوگی، کتنے بچے ہوں گے، بچوں کے نام کیا ہوں گے؟وہ زندگی میں کیا کریں گے؟ کس کو قتل کریں گے اور کہاں کریں گے؟ پھر وفات ہوگی تو کہاں دفن ہوں گے؟ ہم نے ان کے لیے قبر کی جگہ بھی رکھی ہوئی ہے۔ جب فائنل راؤنڈ ہوگا تو دو مسیح آپس میں ٹکرائیں گے مسیح ابن مریم اور مسیح دجال۔ اور یہ لُدکے مقام پر ہوگا جس کا جدید نام تیل ابیب ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام اور دجال کا آمنا سامنا ہوگا ،حضرت عیسٰی ؑ لد میں اسے قتل کریں گے، اس کے بعد اسلام کی حکمرانی قائم ہوگی۔

اللہ رب العزت نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو تمام انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی نمائندگی کے طور پر زندہ رکھا ہوا ہے اور امت مسلمہ جب انتہائی مایوسی کو پہنچے گی تو وہ تشریف لائیں گے۔ جیسے ہم مایوسی کو پہنچ رہے ہیں، کیا آپ سے فلسطین کا منظر دیکھا جا رہا ہے؟ اس وقت بے بسی کا منظر برداشت نہیں ہو رہا۔ جب یہ بے بسی انتہا کو پہنچے گی تو بالآخر وہ مرحلہ آئے گا جب اللہ کے ایک بندے یعنی امام مہدی علیہ الرضوان کا ظہور ہو گا، جبکہ دوسرے یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام آسمان سےآئیں گے۔ دونوں مل کر دجال کے فتنے کو ختم کریں گے اور خلافتِ اسلامیہ کا آغاز ہوگا، اور یہ ’’میثاق النبیین‘‘ میں انبیاء کرام ؑ کے وعدے کی تکمیل ہوگی۔ پھر بہار کا وقت آئے گا کہ زمین پر ’’لا الہٰ الا اللہ‘‘ کہنے والوں کے سوا کوئی نہیں ہوگا۔

مسجد اقصیٰ کے ساتھ ہمارے بہت سے واسطے ہیں لیکن سب سے بڑا واسطہ یہ ہے وہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو امام الانبیاءؑ کا منصب حاصل ہونے کا مرکز ہے جہاں آپؐ کو تمام انبیاءؑ کا امام بنا کر اللہ رب العزت نے انبیاء کرامؑ کے ’’لتؤمنن بہ‘‘ کے وعدے کی تکمیل فرمائی تھی۔ایک اور تاریخی حوالہ دیتا ہوں کہ فلسطین مسلمانوں کے تصرف میں کب آیا تھا؟ حضرت عمر ؓکے زمانے میں فلسطین فتح ہوا تھا اور اس کے فاتح عظیم مسلم جرنیل ’’امین ہذہ الامۃ‘‘ حضرت ابو عبیدہ عمرو بن الجراحؓ ہیں۔ مسلمانوں نے فلسطین کس سے لیا تھا؟ یہودیوں سے تو عیسائیوں نے قبضے میں لیا تھا جب حضرت عیسٰیؑ کے رفع کے نوے سال بعد روم کے بادشاہ طیطس رومی نے یہودیوں کو فلسطین سے نکال بھگایا تھا اور ہیکلِ سلیمانی گرا دیا تھا۔ اس کے بعد تقریباً پانچ صدیاں عیسائیوں کا قبضہ رہا ہے۔ حضرت ابو عبیدہ عمرو بن الجراحؓ نے عیسائیوں سے بیت المقدس لیا تھا۔ پھر ہم سے عیسائیوں نے ہی صلیبی جنگوں میں چھینا تھا،تقریباً‌ نوے سال ان کے قبضہ میں رہا، پھر صلاح الدین ایوبیؒ نے واپس لیا تھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے حوالے سے ہمارا اصل جھگڑا عیسائیوں کے ساتھ ہے، یہودی درمیان میں کہاں سے آگئے؟ جب حضرت ابو عبیدہ عمرو بن الجراحؓ نے فلسطین اور یروشلم کو فتح کیا تو عیسائی علماء سے کہا کہ قبضہ ہمارے حوالے کرو۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس کا چارج آپ کے حوالے نہیں کریں گے، ہم نے اپنی کتابوں میں جو پڑھ رکھا ہے اس کے مطابق آپ اپنے بڑے امیر کو بلائیں، ہم دیکھیں کریں گے اگر وہ ہمارے حساب کتاب کے مطابق ہوئے تو ہم چارج ان کے حوالے کر دیں گے۔ چنانچہ حضرت ابو عبیدہؓ نے امیر المومنین حضرت عمر بن خطابؓ کو دعوت دی کہ ایک دفعہ تشریف لائیں، وہ تشریف لائے لیکن اس وقت وہاں طاعون پھیلا ہوا تھا، اس وجہ سے انہیں واپس جانا پڑا۔ پھر کچھ عرصہ بعد دوبارہ تشریف لائے اور جب بیت المقدس میں داخل ہوئے توہ وہ کیفیت دیکھنے کی ہے۔

حضرت عمر ؓمدینہ منورہ سے آ رہے تھے، اونٹ تھوڑے تھے اور مسافر زیادہ تھے، اس لیے حضرت عمر ؓاپنے غلام کے ساتھ باری باری سواری پر سوار ہوتے تھے۔ جب بیت المقدس شہر میں داخل ہونے کا وقت تھا تو سواری کی باری غلام کی تھی، اس نے عرض کیا کہ حضرت! اب ہم شہر میں داخل ہو رہے ہیں، پروٹوکول کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ سوار رہیں۔ لیکن حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ نہیں! یہ تیرا حق ہے تو سوار ہوگا اور لگام میرے ہاتھ میں ہوگی۔ جب اس کیفیت میں حضرت عمرؓ فلسطین میں داخل ہوئے تو عیسائی علماء نے ہتھیار ڈال دیے کہ یہی وہ بندہ ہے جسے ہم نے چارج دینا ہے۔ اس کی ایک علامت یہ بھی ہےکہ جب وہ داخل ہوگا تو اونٹ پر غلام سوار ہوگا اور امیر کے ہاتھ میں لگام ہوگی۔ عیسائیوں نے بیت المقدس کا چارج حضرت عمر ؓکے حوالے کر دیا۔

میں نے سیرت طیبہ اور حضرت عمرؓ کے حوالے سے دو واقعات عرض کیے ہیں۔ درمیان کے سارے مراحل چھوڑتے ہوئے چودہ سو سال پھلانگ کر موجودہ صورتحال پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔

اسرائیل ۱۹۴۸ء میں بنا تھا ، غلط اور ناجائز ، لیکن برطانیہ نے بنایا تھا اور اقوام متحدہ نے منظوری دی تھی۔ اس وقت ہمارے قومی لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے اعلان کیا تھا کہ یہ ناجائز ریاست ہے ہم اسے کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ ہمارا قومی موقف تب سے یہی ہے۔ دیکھیں، کسی علاقے میں لوگ آ کر آباد ہونا چاہیں، اگر انہیں علاقے کے لوگ قبول کریں تو ٹھیک ہے۔ لیکن علاقے کے لوگوں کو وہاں سے نکال کر کسی اور کو لا کر وہاں آباد کرنا، یہ دنیا کے کس قانون کی رو سے انصاف ہے؟ آج کی دنیا سے پہلا سوال یہ ہے کہ جب یہودیوں کو برطانیہ ساری دنیا سے اکٹھا کر کے فلسطین میں لایا تھا تو کیا وہاں کے لوگوں سے پوچھا تھا؟ وہاں کے لوگ تو رضامند نہیں تھے، ان کو نکالا گیا تھا، بھگایا گیا تھا، اور زبردستی بستیاں خالی کروا کے یہودیوں کو قبضہ دلوایا گیا تھا۔

جبکہ بیت المقدس تو اقوام متحدہ کی تقسیم میں بھی اسرائیل کا حصہ نہیں ہے کہ یروشلم کو بین الاقوامی حیثیت دی گئی تھی۔ اسرائیل نے جس طرح ۱۹۶۷ء میں بیت المقدس پر ناجائز قبضہ کیا تھا اسی طرح آج غزہ پر ناجائز قبضہ کرنا چاہتا ہے،جو کہ اقوام متحدہ کے نقشے کے مطابق فلسطین کا حصہ ہے۔ اتنی دھاندلی، اتنا ظلم۔ اور منافقت کی انتہا ہے کہ امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے چند روز قبل خود کہا تھا کہ غزہ پر اسرائیل کا قبضہ غلطی ہو گی، اور اب اسرائیل کو سپورٹ کرنے کے لیے جوبائیڈن سب سے آگے ہے۔ مغربی ممالک بدمعاشی اور دھکے کے ساتھ غزہ پر اسرائیل کا قبضہ کروانا چاہتے ہیں، زبان سے کہتے ہیں کہ غلط قبضہ ہو گا لیکن عملاً قبضہ کروا رہے ہیں، ورنہ اکیلے اسرائیل کو یہ کہاں حوصلہ ہو سکتا ہے؟

اس صورتحال میں فلسطینی اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ خواہ مخواہ شکوک و شبہات پیدا کرنا کوئی انصاف کی بات نہیں ہے۔ جس علاقے پر کوئی قبضہ کرنا چاہے یا قبضہ کر لے اور اس کے خلاف علاقے کے لوگ مزاحمت کریں تو یہ آزادی کی جنگ ہوتی ہے اور فلسطینی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، وہ اپنے ملک پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کو تسلیم نہیں کر رہے اور مزاحمت کر رہے ہیں۔ لیکن مسلمان حکمران کہاں ہیں؟ اسرائیل کی مدد کرنے والے تو اسرائیل میں پہنچے ہوئے ہیں مگر فلسطین کی حمایت کرنے والے کہاں ہیں؟ ان سے اتنا بھی نہیں ہوا کہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا سربراہی اجلاس بلا کر زبان سے ہی کوئی بات کہہ دیں۔ اپنے گھر میں بیٹھے جو مرضی کہتے رہو۔ کیا وہاں ان کی مدد کے لیے کوئی جانے کو تیار ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ ہم بے غیرت ہو گئے ہیں، ہم امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں۔ معاملہ دین ، جہاد اور حمیت کا ہوتا ہے لیکن ہم این او سی امریکہ سے لیتے ہیں۔ اس لیے میں عرض کروں گا کہ یہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے، ملی حمیت اور غیرت کا مسئلہ ہے، ہمیں فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، جس کے تین دائرے ہیں:

  • پہلا دائرہ یہ ہے اللہ کرے ہمارے حکمرانوں کی حمیت جاگے کہ جو لوگ فلسطینیوں کی مدد کے لیے وہاں جا سکتے ہیں انہیں وہاں پہنچائیں۔ اگر اپنے کندھے یہ بوجھ برداشت نہیں کرتے تو دنیا بھر سے جو مجاہدین وہاں جانا چاہتے ہیں ان کو تو جانے کے راستے دیں تاکہ وہ جا کر ان کے ساتھ لڑیں۔ فلسطینیوں کی اصل حمایت یہ ہے کہ ان کے ساتھ کھڑے ہو کر یہودیوں سے لڑا جائے۔ میں چھوٹی سی مثال دینا چاہوں گا۔ مشرقی یورپ کے بوسنیا اور سربیا کے مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا، وہاں ہم نے مسلمانوں کا قتل عام روکنے کے لیے جو مدد کی تھی، وہ اب کیوں نہیں کر سکتے؟ اس لیے مسلم حکمرانوں سے گزارش ہے کہ مہربانی کریں کہ کم از کم اتنا ہی کر دیں جتنا بوسنیا اور سربیا میں کیا تھا۔
  • دوسرا دائرہ ہے کہ اگر اس کا حوصلہ نہیں ہے تو فلسطین کی سفارتی جنگ میں کردار ادا کریں۔ فوری طور پر یہ تقاضہ ہے کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کی میٹنگ بلائی جائے اور بیٹھ کر اس مسئلے پر غور کریں۔ ہمارے دو بڑے فورم ہیں، عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم، یہ دونوں اکٹھے ہوں، نہتے فلسطینیوں کا حال پوچھیں اور عالمی فورم پر فلسطین کی سفارتی جنگ لڑیں۔ دیکھیں، کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کا ہے لیکن عالمی سطح پر اس کی جنگ پاکستان لڑ رہا ہے۔ فلسطینیوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کا وکیل کوئی نہیں ہے۔ ہم کشمیریوں کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرتے ہیں، مگر فلسطین میں تو اتنا بھی نہیں ہو رہا کہ عالمی سطح پر ان کا کوئی نمائندہ نہیں ہے۔ یہ جنگ سعودی عرب، پاکستان، ترکی اور مصر کو لڑنی چاہیے کہ یہ چاروں اس پوزیشن میں ہیں۔
  • تیسرا محاذ عوامی ہے اور ہم تیسرے محاذ کے لوگ ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ’’فان لم یستطع فبلسانہ‘‘ جو ہاتھ سےمنکر کو نہیں مٹا سکتا وہ زبان کے ذریعے اپنا فرض ادا کریں۔ ہم جذبات کا اظہار تو کریں، اپنے فلسطینی بھائیوں کی حمایت تو کریں، ان کو حوصلہ تو دلائیں۔ حماس کے نمائندے ڈاکٹر خالد صاحب، جو فلسطینی ہیں، ان کا ایک پیغام آیا ہے کہ آپ لوگ جب سڑکوں پر آتے ہیں تو ہمیں حوصلہ ہوتا ہے کہ لاہور ہمارے ساتھ ہے، جکارتہ ہمارے ساتھ ہے، ڈھاکہ ہمارے ساتھ ہے ۔ یہ حوصلہ دلانا ہماری ذمہ داری ہے۔

اس لیے میں دو گزارشات کروں گا۔ ایک گزارش علماء کرام سے ہے کہ عوام میں آگاہی پیدا کریں، بیداری پیدا کریں اور لوگوں کو اس کام کے لیے تیار کریں۔ دوسری گزارش آپ سے ہے کہ فلسطین کی حمایت کے حوالے سے مذہبی ، سیاسی یا سماجی جو پارٹی بھی جو کام بھی کر رہی ہے اس کے ساتھ شریک ہوں۔ اور باہمی اختلافات چھوڑ دیں کیونکہ جب مکان کو آگ لگی ہوئی ہو تو پانی ڈالنے والوں سے یہ نہیں پوچھا کرتے کہ تم کون ہو؟ اس لیے اس وقت کوئی تفریق پیدا نہ کریں، جو بھی فلسطین کی حمایت کرتا ہے اس کا ساتھ دیں، اس وقت ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ فلسطینیوں کو حوصلہ دلانے کے لیےاور ان کو کھڑا رکھنے کے لیے ہم جو کچھ بھی کر سکتے ہیں کرگزریں۔ اللہ رب العزت مجھے اور آپ سب کو توفیق عطا فرمائیں، اللہ رب العزت فلسطینیوں کی غیبی نصرت و مدد فرمائیں اور ان کو اس جہاد میں کامیابی سے ہمکنار فرمائیں۔ آمین یا ارحم الراحمین۔

2016ء سے
Flag Counter