ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کا مغربی پس منظر

   
مجلس صوت الاسلام پاکستان
۳۱ اکتوبر ۲۰۱۵ء

(آن لائن تربیتِ خطباء کورس کی ایک نشست سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مذہب اور ریاست کا آپس میں کوئی تعلق ہے یا نہیں ہے، اس حوالے سے مغرب کا کہنا یہ ہے اور اقوام متحدہ کی تشکیل اسی بنیاد پر ہوئی ہے کہ مذہب کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، مذہب فرد کا انفرادی معاملہ ہے اور مذہب کا دائرہ معاشرت تک نہیں بلکہ شخص اور فرد تک ہے۔ وہ مذہب سے انکار نہیں کرتے لیکن مذہب ان کے نزدیک تین چیزوں کا نام ہے:

  • کسی شخص کا عقیدہ کیا ہے؟
  • وہ کس کی عبادت کرتا ہے اور کیسے کرتا ہے؟
  • مذہب کی روایات اور اخلاقیات کیا ہیں؟

مغرب کے ہاں یہ تینوں دائرے شخصی ہیں۔ کوئی آدمی عقیدہ رکھتا ہے یا نہیں رکھتا اس کی مرضی ہے، کسی کی عبادت کرتا ہے یا نہیں کرتا اس کی مرضی ہے، وہ کس طریقے سے عبادت کرتا ہے اس کی مرضی ہے، کوئی مذہبی رسومات، روایات اور اخلاقیات اس کی زندگی میں ہیں یا نہیں ہیں یہ بھی اس کی مرضی ہے۔ لیکن ان کے ہاں ان ساری باتوں کا تعلق ایک فرد سے ہے، سوسائٹی سے نہیں ہے۔ اسی لیے جب مسلمان کسی معاشرے، سوسائٹی یا کسی نظم یا حکومت اور ریاست کے لیے مذہب کی بات کریں گے، یا کسی مذہبی روایت کو بنیاد بنائیں گے تو آج کے عالمی نظام کو اعتراض ہوگا اور وہ کہیں گے کہ یہ مذہب کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں۔

انقلابِ فرانس ۱۷۹۰ء میں آیا، اس کے بعد سے یعنی آج سے تقریباً سوا دو سو سال سے یہ بات بطور فکر کے نہیں، بطور عقیدہ کے سمجھی جا رہی ہے کہ کسی ریاست اور حکومت کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ اس کو سیکولرازم کہتے ہیں کہ مذہب کی مکمل نفی کی جائےکہ کسی بھی ریاستی، معاشرتی اور اجتماعی نظام کے ساتھ مذہب کا کوئی حوالہ نہ ہو بلکہ سوسائٹی اپنے مشورے، اپنی رائے اور اپنی عقل سے جو نظام طے کر لے، جو تبدیلی اور ترمیم کر لے، سوسائٹی کو اس کا مکمل طور پر اختیار ہے۔ سوسائٹی کسی بھی ذریعے سے، ووٹ کے ذریعے، ریفرنڈم کے ذریعے سول سوسائٹی کی رائے کے اظہار کی صورت میں جو تبدیلی چاہے کر سکتی ہے، جو نظم چاہے اختیار کر سکتی ہے، اس میں مذہب کو دخل نہیں دینا چاہیے۔ یہ انقلابِ فرانس کی بنیاد تھی اور اس میں انقلابِ فرانس سے پہلے جو یورپ کے حکومتی اور ریاستی معاملات میں چرچ اور پوپ کا کردار ہوتا تھا، اصل میں اس کی نفی کی گئی ہے۔

اس بات کو گہرائی کے ساتھ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مغرب نے مذہب سے بغاوت کیوں کی؟ اس کے اسباب اور وجوہات سمجھنا ضروری ہیں کہ صدیوں تک مغرب میں مذہب کی حکومت رہی ہے۔ فرانس، برطانیہ، اٹلی اور یونان میں چرچ ہی حکومت کرتا رہا ہے، یا چرچ کو بادشاہ گر کی حیثیت حاصل رہی ہے، وہی نگران تھا۔ لیکن یہ جو بغاوت پیدا ہوئی اور مغرب نے مذہب کے معاشرتی کردار کی بالکل نفی کر دی، اس کے اسباب کیا ہیں؟ ان اسباب اور عوامل کو سمجھیں گے تو ہمیں مذہب سے مغرب کی نفرت سمجھ میں آئے گی اور اس کی روشنی میں کوئی لائحہ عمل طے کر سکیں گے۔

معاشرے کی مذہب سے بغاوت کے دو بنیادی عوامل تھے جو بنیادی وجہیں بنی ہیں:

  1. ایک یہ کہ جب سائنسی ترقی شروع ہوئی، سائنسدان آگے بڑھنا شروع ہوئے اور انہوں نے کائنات کے مشاہدہ اور تجربات کی روشنی میں نئی نئی باتیں کہنا شروع کیں تو اسے چرچ نے مذہب سے بغاوت قرار دیا کہ یہ خدائی نظام میں مداخلت ہے۔ سائنس یہی ہے، کائنات میں موجود اشیا کا مشاہدہ، تجزیہ اور تجربہ وغیرہ۔ اسے خدائی نظام میں مداخلت قرار دے کر چرچ نے اس کو ارتداد کے قائم مقام قرار دے دیا کہ یہ الحاد ہے۔ چنانچہ سائنسدانوں کے خلاف چرچ نے مقدمات کیے، سزائیں دیں اور ایک بڑی مہم شروع کی۔ کسی بھی سائنسدان کو کسی سائنسی تجربے کی بنیاد پر، سائنسی حقیقت کے انکشاف کی بنیاد پر، یا کوئی فارمولہ پیش کرنے پر عدالت میں طلب کیا جاتا تھا، سرسری سماعت کے بعد اسے مجرم قرار دیا جاتا اور اس کو موت کی سزا سنا دی جاتی تھی۔ سینکڑوں سائنسدانوں کو اس پر موت کی سزائیں دی گئیں۔ میں نے آکسفورڈ میں وہ مقامات دیکھے ہیں جہاں سرسری عدالت لگتی تھی، کوئی پادری صاحب بیٹھتے تھے، کسی سائنسدان کو پیش کیا جاتا تھا، دو تین سوال جواب کے بعد اسے مرتد قرار دے کر قتل کر دیا جاتا تھا۔ تو یہ بات مذہب سے نفرت کا باعث بنی۔

    اس پر لطیفے کی بات یہ ہے کہ گلیلیو جو بہت بڑا سائنسدان گزرا ہے، اس کا شمار جدید فلکیات کے بانیوں میں ہوتا ہے، اس نے یہ کہا کہ زمین کائنات کا مدار نہیں ہے، بلکہ سورج کائنات کا مدار ہے۔ کائنات زمین کے گرد گھوم رہی ہے یا زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے؟ اس پر اس نے اپنا ایک فارمولہ پیش کیا، جس پر چرچ نے اسے بلا کر سزا سنائی اور مجبور کیا کہ توبہ کرو کیونکہ تم ملحد ہو گئے ہو۔ وہ ساری زندگی سزا بھگتتے بھگتتے بالآخر فوت ہو گیا۔ اس بات کو تین چار صدیاں گزر گئی ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ نے کم و بیش چار صدیوں کے بعد یہ بیان جاری کیا ہے کہ گلیلیو کو ہم نے سزا دے کر غلطی کی تھی، میں اس پر معافی مانگتا ہوں۔

    یہ میں نے صرف ایک جھلکی آپ کو بتائی ہے۔ سائنسی انکشافات کی بات کر رہا ہوں تو میں ایک اور بات بھی واضح کرنا چاہوں گا کہ مغرب نے جتنی سائنسی ترقی کی ہے، اس کی جو عمارت کھڑی کی ہے، ان سب کی بنیادیں مسلمانوں نے فراہم کی ہیں۔ تمام سائنسی ترقی کی بنیاد اندلس پر ہے جہاں مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی تھی۔ علمی، تہذیبی، فکری اور تحقیقی کام کی بنیادیں ان مسلمان اہلِ علم نے سائنسدانوں کو فراہم کیں۔ ہوا یوں کہ جب مسلمان سائنسدان اپنے سائنسی تجربات، فکر اور عقل کی روشنی میں ایک بنیاد فراہم کر چکے تو ہمیں اسپین میں شکست ہو گئی، ہمیں وہ خطہ چھوڑنا پڑا اور ہم ادھر ادھر بکھر گئے۔ اس کے بعد ہماری جگہ آنے والوں نے ان بنیادوں پر اپنی عمارت کھڑی کر لی۔ یہ امرِ واقعہ ہے کہ بنیادیں ہماری ہیں لیکن ہم عمارت تعمیر نہیں کر سکے۔ یہ بات یورپ کے حقیقت پسند مورخ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مغرب کی تہذیبی ترقی اور سائنسی ارتقا دونوں کی بنیاد مسلم اندلس پر ہے۔

    اسی دور میں امریکہ دریافت ہوا تھا۔ معروف سیاح کولمبس کو ملکہ ازابیلا نے خرچہ دے کر انڈیا کی تلاش میں بھیجا تھا جس ملکہ ازابیلا نے اسپین پر قبضہ کیا تھا، لیکن کولمبس امریکہ جا پہنچا، یوں امریکہ ایک نیا براعظم دریافت ہو گیا۔ وہاں آبادی موجود تھی، اس کا جو انہوں نے حشر کیا وہ ایک مستقل تاریخ ہے۔ اصل میں عجیب قصہ یہ ہوا کہ اس وقت دنیا ہند کی تلاش میں تھی، اس زمانے میں اس کی بڑی شہرت تھی تو دنیا کے بحری سیاح ہند کی تلاش میں مہم پر جاتے تھے۔ واسکوڈے گاما بھی ایک سیاح تھا جو ہند کی طرف نکلا اور ہم تک آ پہنچا، اور کولمبس بھی ہند کی تلاش میں نکلا تھا لیکن وہ دوسری سمت چلا گیا اور امریکہ جا پہنچا۔ امریکہ میں ایک آبادی تھی جن کو یہ لوگ ریڈ انڈین کہتے ہیں، اسی مناسبت سے کہ ہند کی تلاش میں گئے تھے، انہوں نے ریڈ انڈینز کا مار مار کر برا حشر کر دیا اور براعظم پر زبردستی قبضہ کر لیا۔

    یہ ایک الگ داستان ہے میں اس بحث کو نہیں چھیڑ رہا، میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اسی وقت امریکہ دریافت ہو گیا تھا اور وہی وقت تھا جب ہم میدان سے ہٹ گئے تھے۔اور ان لوگوں کو

    • سائنسی بنیادیں فراہم ہو گئیں،
    • ایک نیا براعظم مل گیا،
    • اور مسلمانوں پر غلبہ ہو گیا

    تو وہ نشے میں مست آگے بڑھنا شروع ہو گئے، تجربات مشاہدات کی بنیاد پر اس کی عمارت کھڑی کی اور آج وہ بلاشرکت غیرے سائنس کے مالک ہیں۔ خیر میں یہ بات کر رہا تھا کہ مذہب کے خلاف بغاوت کے اسباب میں ایک طرف سائنسی ارتقا جاری تھا، مشاہدات جاری تھے، نئی نئی سہولتیں آ رہی تھیں، تو چرچ اس کے مقابلے پر کھڑا ہو گیا کہ یہ الحاد، زندقہ اور ارتداد ہے۔ اس سے چرچ کے خلاف نفرت پیدا ہو گئی۔

    بدقسمتی سے آج بھی جب یہ سوال کھڑا کیا جاتا ہے تو ہمیں بھی چرچ کی طرح سائنس کا مخالف سمجھا جاتا ہے کہ مذہب اور سائنس متصادم ہیں۔ مغرب اور یورپ کے تناظر میں کہ چرچ اور سائنسدان آمنے سامنے تھے تو ہمارے بارے میں بھی یہی تصور قائم کیا جا رہا ہے یا قائم کرنے کی کوشش ہے۔ اس پر میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ نہیں! اسلام اور سائنس میں کوئی لڑائی نہیں ہے۔ فلسفے سے ہماری لڑائی تھی، ہم نے فلسفے سے جنگ کی تھی۔ لیکن سائنس کے ساتھ ہماری جنگ نہ پہلے تھی، نہ آج ہے اور نہ آئندہ ہوگی۔ سائنس مشاہدات اور تجربات کی بات ہے اس میں عقلیات کا دخل نہیں ہے۔ مشاہدہ و تجربہ اور اس کے نتائج، یہ سائنس ہے۔ اس سے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے بلکہ ہم خود سائنس کی بنیادیں فراہم کرنے والے ہیں۔

    مغرب کی مذہب سے نفرت کی ایک وجہ میں نے یہ بتائی کہ سائنس اور مذہب کو متصادم سمجھ لیا گیا۔ چرچ نے سائنس کی مخالفت شروع کر دی اور عوام میں نفرت پیدا ہونا شروع ہو گئی کہ چرچ ضدی اور بے لچک ہے۔

  2. عوام میں مذہب سے منافرت پیدا ہونے کا دوسرا سبب کیا تھا؟ آپ یورپ کی اس دور کی تاریخ پڑھیں۔ انڈیا میں ہمارے ایک بزرگ گزرے ہیں مولانا محمد تقی امینیؒ، ان کا رسالہ ہے ”مغرب کے لادینی دور کا تاریخی پس منظر“ اس میں انہوں نے اجمالاً یہ ساری باتیں ذکر کی ہیں اور حوالے دیے ہیں۔ اس دور میں مغرب میں تین اداروں کی حکومت تھی جبکہ عام آدمی جانوروں کی طرح زندگی گزارتا تھا بلکہ جانوروں سے بھی بدتر غلاموں کی سی زندگی تھی۔
    • ایک بادشاہ
    • دوسرا جاگیردار زمیندار طبقہ جس کو لارڈز کہتے ہیں
    • اور تیسرا چرچ۔

    یہ تین ادارے تھے جن کی حکومت تھی۔ ان تینوں کی آپس میں انڈرسٹینڈنگ تھی، وہ ایک دوسرے کا تحفظ اور دفاع کرتے اور ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے تھے۔ جبکہ باقی نوے فیصد عوام ان کے سامنے بے بسی کی زندگی بسر کرتے تھے، ان کے کوئی حقوق نہیں تھے۔ ’’میگنا کارٹا‘‘ جسے حقوق کی پہلی دستاویز کہا جاتا ہے، یہ عوام کے حقوق کی دستاویز نہیں ہے بلکہ جاگیرداروں اور بادشاہوں میں تنازع پیدا ہو گیا تھا تو انہوں نے آپس میں اختیارات کی تقسیم کی تھی کہ جاگیردار کا یہ اختیار ہے اور بادشاہ کا یہ اختیار ہے، اس میں ایک آدھ بات عوام کی بھی آ گئی تھی۔

    یہ جو سہ فریقی جبر تھا اس کے خلاف آہستہ اہستہ نفرت پکتی گئی۔ عوام کا احتجاج بادشاہ اور جاگیردار کے جبر کے خلاف تھا لیکن اس جبر میں چرچ بھی بادشاہ اور جاگیردار کی پشت پر آ کر کھڑا ہو گیا۔ پوپ صاحبان بادشاہ اور جاگیردار کے حق میں فتوے دیتے تھے، ان کو دفاع مہیا کرتے تھے اور ان کی وکالت کرتے تھے جس کی وجہ سے عوام بے بس ہو گئے۔ جب بے بسی کی انتہا ہو گئی تو عوام نے بغاوت کر دی۔ جب بغاوت اٹھی تو وہ ان تینوں کے خلاف تھی۔ جاگیرداروں اور بادشاہ کے خلاف، اور چرچ بھی چونکہ ان کے ساتھ کھڑا تھا تو چرچ کے خلاف بھی بغاوت ہو گئی۔

    میں اس پر کہا کرتا ہوں کہ ہماری یعنی مسلمانوں کی تاریخ یہ نہیں ہے۔ میں افراد کی بات نہیں کر رہا لیکن علماء بحیثیت طبقہ اور بحیثیت ادارہ ابتدا سے آج تک عوام کے ساتھ ہیں۔ جب بھی ظالم اور مظلوم کی کشمکش ہوئی ہے تو دینی طبقہ عوام کے ساتھ رہا۔ یہ ہماری تاریخ ہے۔ امام مالکؒ نے کوڑے کھائے، امام ابو حنیفہؒ کا جنازہ جیل سے نکلا۔ ہم تو عوام میں رہے ہیں، میں اس کی دو مثالیں دیا کرتا ہوں۔

    ایک یہ کہ ہمارے ائمہ کرام بادشاہ اور خلیفہ کی پرواہ کیے بغیر آزادانہ فتویٰ دیتے تھے ۔ اور دوسری مثال میں دیا کرتا ہوں کہ گزشتہ تین سو سال میں جب بھی کسی مسلمان ملک پر کسی استعماری قوت نے قبضہ کیا تو سب سے پہلے مزاحمت مولوی نے کی۔ انڈونیشیا ہو یا الجزائر یا ہندوستان ہر جگہ سب سے پہلے مزاحمت مولوی نے کی اور اپنی عوام اور قوم کی آزادی کے لیے کھڑا ہوا۔ یہ تاریخ صرف یہاں کی نہیں بلکہ الجزائر اور انڈونیشیا کی تاریخ بھی پڑھ لیں۔

    میں اس پر ایک چھوٹا سا واقعہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مجھے جنوبی افریقہ جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہاں جو مسلمان آباد ہیں ان میں یا انڈین ہیں یا انڈونیشین ہیں۔ میں وجہ تلاش کیا کرتا ہوں کہ یہ لوگ یہاں کیوں آئے تھے؟ وہاں نسل در نسل انڈونیشی شوافع علماء آباد ہیں تو میں نے پوچھا کہ انڈونیشی علماء کا جنوبی افریقہ میں کیا کام؟ تو مجھے بتایا گیا کہ انڈونیشیا پر جب ہالینڈ نے قبضہ کیا تھا تو وہاں مزاحمت میں علماء سامنے آئے تھے۔ انڈونیشیا پر ہالینڈ کے حملے کے مقابلے میں سب سے پہلی مزاحمت ایک بڑے عالم نے کی تھی جو لوگوں کو منظم کر کے سامنے آئے مقابلہ کیا جس پر انہیں گرفتار کر کے اس لیے انڈونیشیا سے جنوبی افریقہ بھیجا گیا کہ وہاں ان کا کوئی والی وارث نہیں ہوگا تو گمنامی کی زندگی گزارنے کے بعد ان کا معاملہ ختم ہو جائے گا۔ ان کو جنوبی افریقہ میں نظربند کر دیا گیا کہ اپنے وطن واپس نہیں جا سکتے۔ لیکن مولوی جہاں رہے وہ صرف رہتا نہیں ہے۔ اس ایک عالم کی محنت ہے کہ جنوبی افریقہ کی ایک بہت بڑی آبادی مسلمان ہوئی۔ اب وہاں علماء ہیں، مدارس اور مکاتب ہیں اور انڈونیشی علماء کا ایک پورا طبقہ ہے۔

    اس پر میں نے ان کو اپنا قصہ سنایاکہ ہمارے ہاں بھی اس طرح کا معاملہ ہو چکا ہے۔ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ ایک نو مسلم خاندان کے فرد تھے، ان کے باپ سکھ سے مسلمان ہوئے تھے۔ گکھڑ منڈی کے ساتھ جلال نام کے ایک گاؤں کے رہنے والے تھے۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک کے آدمی تھے، آزادی کی تحریک کے قائدین میں سے تھے، دلی میں ان کا مرکز تھا، ان کو دہلی سے گرفتار کیا گیا اور لاہور میں لا کر اس خیال سے نظر بند کر دیا گیا کہ یہاں ان کا کوئی والی وارث کوئی پرسان حال نہیں ہو گا، ان کا کوئی حلقہ اور کوئی جماعت نہیں ہے، یہ باقی زندگی یہیں گزاریں گے، زندگی گزار کر یہیں فوت ہو جائیں گے اور معاملہ ختم ہو جائے گا۔ کچھ عرصہ لاہور جیل میں نظر بند رہے، پھر ان سے کوئی ضامن طلب کیا گیا جو اس بات کی ضمانت دے کہ وہ یہاں بغاوت نہیں کریں گے۔ گوجرانوالہ کی مشہور شخصیات میں سے ملک لال خان تھے، نوشہرہ روڈ پر مسجد لال خان انہی کی ہے، یہاں کے علماء کے مشورے سے ملک لال خان نے لاہور جا کر حضرت لاہوریؒ کی ضمانت دی تھی کہ اب یہ بغاوت نہیں کرے گا، اس کو آزادی سے کام کرنے دو۔ اس کے بعد مولانا احمد علی لاہوریؒ نے شیرانوالہ گیٹ میں پولیس لائن کی مسجد سبحان خان میں ڈیرہ لگا لیا۔ چھوٹی سی مسجد تھی جہاں انہوں نے کام شروع کیا۔ جب انہیں یہاں لایا گیا تھا تو کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوگا لیکن جب ان کا جنازہ اٹھا تو لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا اور دنیا میں مجھے جہاں جہاں جانے کا اتفاق ہوا ہے الحمدللہ کوئی ایسا ملک نہیں ملا جہاں حضرت لاہوریؒ کا بالواسطہ یا بلا واسطہ شاگرد کام نہ کر رہا ہو۔

بات بہت دور نکل گئی ہے، میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہمارے بارے میں یہ دونوں باتیں یورپی پس منظر کے حوالے سے کہی جاتی ہیں کہ مذہب اور سائنس دشمن ہیں، یا مذہبی لوگ سائنس کے مخالف ہیں۔ یہ پس منظر مغرب کا ہے، ہمارا نہیں ہے۔ اور ان کا دوسرا پس منظر یہ ہے کہ مذہب کا نمائندہ ہمیشہ ظالم اور جابر کا ساتھ دیتا ہے، جاگیردار اور حکمران کا ساتھ دیتا ہے۔ یہ پس منظر بھی مغرب کا ہے، ہمارا نہیں ہے۔ اس لیے میں ان سے کہا کرتا ہوں کہ جو بھی تمہارا پس منظر ہے اسے اپنے پاس رکھو، ہم پر کیوں مسلط کرتے ہو؟ ہمارا یہ پس منظر نہیں ہے، ہم تو جیلوں کے لوگ ہیں، قید و بند اور گرفتاریوں کے لوگ ہیں، ہم تو شروع سے ہی آزاد منش لوگ ہیں، تابعینؒ سے حضرت حسن بصریؒ سے لے کر آج تک آزاد منشی ہمارا مزاج ہے اور عوام کا ساتھ اور ہمدردی ہمارا کام ہے۔

میں نے عرض کیا کہ مغرب کے مذہب سے بغاوت کے دو سبب بنے۔ ایک سائنس کی مخالفت اور دوسرا جاگیردار اور بادشاہ کی حمایت۔ تو اس کے بدلے میں بادشاہت بھی ختم کر دی گئی، جاگیرداری بھی ختم کر دی گئی، اور پاپائے روم کی اجارہ داری بھی ختم کر دی گئی۔ چنانچہ یورپ اور مغرب میں چرچ اور پوپ کی اس اتھارٹی کو چیلنج کر دیا گیا کہ پوپ بائبل کا واحد شارح ہے کہ وہ بائبل کا جو معنیٰ اور مفہوم طے کر دے وہی حتمی ہے۔ چرچ کے اس رویے کے خلاف کہ وہ اپنے آپ کو بائبل کی تشریح میں فائنل اتھارٹی کہتا ہے اور جو بات کر دیتا ہے اس کے خلاف کوئی بات نہیں سنی جاتی، اس کے خلاف مارٹن لوتھر نے بغاوت کر دی اور پروٹسٹنٹ فرقہ وجود میں آیا کہ ہم چرچ کو بائبل کی تشریح میں اتھارٹی نہیں مانتے۔ مارٹن لوتھر جرمن پادری تھا، اس نے کہا کہ ہم چرچ کی یہ اتھارٹی نہیں مانتے کہ بائبل کی شرح میں جو وہ کہہ دے وہی حرف آخر ہے۔ وہ دوسری انتہا پر چلا گیا ۔ اسی بنیاد پر عیسائی دو حصوں میں تقسیم ہو گئے، پروٹسٹنٹ اور کیتھولک۔ پروٹسٹنٹ احتجاج کرنے والے تھے، چرچ کی اتھارٹی پر، پوپ کے رویے پر، اور مذہب کے اس وقت کے کردار پر ان کا احتجاج تھا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ چرچ اور پوپ کی اجارہ داری ختم ہونی چاہیے، ہم چرچ اور پوپ کو بائبل کا واحد شارح اور اتھارٹی تسلیم نہیں کرتے بلکہ ہم بائبل کی تشریح کامن سینس اور عقل عام پر کریں گے، یعنی جو ہماری سمجھ میں آئے گا وہی ٹھیک ہے۔

بدقسمتی سے اس کی نقل بھی ہمارے ہاں ہو رہی ہے، ہمارے ہاں جو یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہم مولوی کو شارح نہیں مانتے، مولوی مذہب کا اجارہ دار نہیں ہے، اتھارٹی نہیں ہے، قرآن کی تشریح کامن سینس پر ہوگی، اور حدیث کو اگر مانتے ہیں تو حدیث کی تشریح بھی کامن سینس پر ہوگی، اس کا اصل بیک گراؤنڈ بھی وہی مغرب کا ہے۔ وہاں چرچ کی اتھارٹی، پاپائے روم کی طرف سے بادشاہ اور جاگیردار کی حمایت، اور سائنس کی مخالفت، یہ سب مذہب سے بغاوت کی بنیاد بنے، جس کے نتیجے میں مذہب اور سوسائٹی میں منافرت پیدا ہوئی۔

ایک اصطلاح ہے بلیورز اور نان بلیورز کی۔ ماننے والے، اور نہ ماننے والے۔ خدا اور قیامت کو ماننے والے بلیورز کہلاتے ہیں اور خدا اور قیامت پر یقین نہ رکھنے والے نان بلیورز کہلاتے ہیں۔ یورپ میں اکثریت نسلی عیسائی ہیں، عقیدے کے عیسائی بہت کم ہوں گے، وہاں آج بھی نان بلیورز کی اکثریت ہے۔ ایک بڑی تعداد نے مذہب سے ہی بغاوت کر دی ہے کہ خدا اور رسول کوئی شے نہیں ہے۔ لیکن جو لوگ مذہب کو مانتے ہیں وہ بھی مذہب کے معاشرتی کردار کو نہیں مانتے بلکہ کہتے ہیں کہ بائبل کے احکام کا سیاست، تجارت اور عدالت میں کوئی دخل نہیں ہے، یہ شخصی معاملہ ہے کوئی کرے یا نہ کرے اس کی مرضی ہے، مذہب کا معاشرت، اجتماعیت اور سوسائٹی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو بائبل کو ماننے والے ہیں وہ بھی اس درجے میں مانتے ہیں۔

یہ مغرب کا ماحول ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ مغرب اپنا ماحول ہم پر بھی مسلط کرنے کے درپے ہے۔ آج ریاست و مذہب اور مذہب و معاشرت کے حوالے سے ہماری مغرب کے ساتھ کشمکش یہی ہے کہ مغرب اپنے عوامل اور اپنے پس منظر کے حوالے سے مذہب سے انکاری ہے، یا مذہب کے معاشرتی کردار سے انکاری ہے اور ہمیں بھی اس اسٹیج پر لانا چاہتا ہے۔ مغرب کے سارے وسائل اس پر خرچ ہو رہے ہیں کہ ہم مسلمان بھی اسی مقام پر آ جائیں کہ یا تو مذہب چھوڑ دیں، یا مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبردار ہو جائیں۔ آج کی ساری فکری و تہذیبی جنگ اسی بنیاد پر ہے۔ مغربی قوتیں، لابیاں اور میڈیا، ان کے تمام اسباب اس مقصد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں کہ عالم اسلام اور امت مسلمہ کو مذہب سے الگ کر دیا جائے۔ اور اگر یہ مذہب سے الگ نہیں ہوتے تو کم از کم مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبردار کرا لیا جائے۔ گزشتہ دو سو سال سے اس کے لیے محنت ہو رہی ہے۔

مجھے اس سے انکار نہیں ہے کہ کچھ طبقات اس پر تیار ہوئے ہیں، مسلمان ممالک کے بیشتر حکمران طبقات اسی ذہن کے حامل ہیں اور دانشوروں کے بھی حلقے قائم ہو گئے ہیں۔ قرآن پاک اور حدیث شریف کی تشریح اس بنیاد پر کرنے والے بے شمار لوگ ہیں۔ ایسے فکری حلقے عالم اسلام میں بکھرے پڑے ہیں جو یہ بولی بول رہے ہیں۔ لیکن الحمدللہ دنیا میں عام مسلمان آبادی کہیں بھی ایسی نہیں ہے، انڈونیشیا کے عوام ہوں یا مراکش کے، پاکستان کے ہوں یا بنگلہ دیش یا الجزائر کے، مذہب سے دستبرداری اور مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبرداری کو آج تک انہوں نے قبول نہیں کیا اور ان شاءاللہ قبول نہیں کریں گے۔

دو سو سال کی محنت کیوں نتیجہ نہیں دے رہی، اس پر مغرب کو غصہ ہے۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ مغرب کو اس بات پر کتنا غصہ ہے کہ دو سو سال کی محنت کے باوجود مولوی بھی وہیں کھڑا ہے اور عام مسلمان بھی اسی جگہ کھڑا ہے، اور یہ غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ لیکن اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ اصل میں تو ایک ہی وجہ ہے لیکن اس کے دو پہلو ہیں۔

  1. میں جب مغرب سے بات کرتا ہوں تو کہتا ہوں کہ مردہ مذہب اور زندہ مذہب میں فرق ہوتا ہے۔ مسیحیت ایک زمانے میں زندہ مذہب تھی، وہ اپنے دور میں حق مذہب اور روشن مذہب تھی، لیکن مسیحیت کا حلیہ خود چرچ اور پادریوں نے تحریفات کر کے بگاڑ دیا ہے اور اب وہ مذہب نہیں رہا۔ مسیحیت کے پاس دونوں حوالوں سے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ ایک اس حوالے سے کہ آج دنیا میں کسی عیسائی سے پوچھ لیں کہ بائبل کے کسی نسخے پر ہاتھ رکھ کر کہے کہ یہ وہ انجیل ہے جو حضرت عیسٰی علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی تو وہ اس کا حوصلہ نہیں کر سکے گا۔ آپ کسی یہودی سے کہیں کہ وہ تورات کے کسی نسخے پر ہاتھ رکھ کر کہے کہ یہ وہ تورات ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی تو وہ یہ حوصلہ نہیں کر سکے گا۔ دوسری بنیاد حضرت عیسٰی علیہ السلام کی سیرت اور ان کے ارشادات ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کی شہادت کے مطابق وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے دو تین واقعات کے سوا ان کی سیرت کا کوئی مستند مواد ہمارے پاس نہیں ہے۔ میں ان سے کہا کرتا ہوں کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو ہم تم سے زیادہ جانتے ہیں۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کون تھے، کہاں پیدا ہوئے، انہوں نے کیا کیا اور آئندہ کیا کریں گے؟ ہمارے پاس زیادہ مستند مواد موجود ہے۔ ان کے پاس نہ پیغمبر کی سیرت ہے اور نہ پیغمبر کی تعلیمات، دونوں چیزیں ان کے پاس نہیں ہیں، نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اور نہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی۔ یہ لمبی بات ہے، میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ایک سبب یہ ہے کہ مغرب کے پاس اپنی آسمانی تعلیمات کا کوئی محفوظ مواد نہیں ہے، نہ کتاب کے حوالے سے اور نہ صاحبِ کتاب کے حوالے سے۔ میں نے یہ بتایا ہے کہ مغرب مذہب سے دستبردار ہوا تو اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مذہب اس کے پاس نہیں ہے۔ جبکہ ہمارے پاس الحمدللہ قرآن مجید پوری دنیا کی مسلّمہ ضمانت کے ساتھ آج بھی موجود ہے اور کسی عجائب گھر میں نہیں بلکہ ہر مسلمان کے گھر میں اور ہر مسجد میں سینکڑوں نسخے موجود ہیں، بلکہ ہمارے لیے تو یہ مسئلہ بن جاتا ہے کہ قرآن مجید کے پرانے نسخوں کو کیسے سنبھالیں۔

    حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحبؒ ہمارے بڑے باذوق بزرگ تھے۔ مجھے ان کے ساتھ لندن کے انڈیا آفس لائبریری میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں مصحفِ عثمانی کا ایک نسخہ رکھا ہوا ہے۔ سیدنا حضرت عثمانؓ نے قرآن مجید کے جو نسخے لکھوائے تھے ان میں سے ایک اصل نسخہ وہاں موجود ہے، میں نے وہ ہاتھوں میں اٹھا کر دیکھا ہے، اس پر بادشاہوں کی مہریں دیکھی ہیں۔ سلطان سلیم اول، سلطان صفوی، جہانگیر اور شاہجہان کی مہریں دیکھیں اور میں نے اس پر یہ لکھا ہوا خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ’’کتبہ عثمان بن عفان‘‘۔ وہ اصل نسخہ لندن میں انڈیا آفس لائبریری میں رکھا ہوا ہے۔ اللہ کی قدرت کہ جب وہ نسخہ میرے ہاتھوں میں تھا تو میں نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا یا اللہ! تو کتنا بے نیاز ہےکہ قرآن مجید کے اوریجنل نسخے کی حفاظت کہاں کروا رہا ہے اور کن سے کروا رہا ہے؟ یہ حفاظت شاید ہم سے نہ ہو سکتی کہ ہمارا نظام اس اعتبار کا نہیں ہے۔ اور صرف حفاظت نہیں بلکہ اگلی بات دیکھیں کہ جہاں قرآن مجید کا وہ نسخہ رکھا ہوا ہے اس کے اوپر ایک تختی لگی ہوئی ہے جس میں پوری سند لکھی ہوئی ہے کہ یہ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ اوتومان نے لکھا، وہاں سے فلاں جگہ گیا، پھر فلاں جگہ گیا، اور فلاں فلاں ذرائع سے ہوتا ہوا ہم تک پہنچا۔ میں نے کہا یا اللہ! تو اس نسخے کی حفاظت بھی کروا رہا ہے اور اس کے اوریجنل ہونے کی گارنٹی بھی کن سے دلوا رہا ہے!

    قرآن مجید کے اصل ہونے کی ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں کہ کیا کبھی ایسا مسئلہ پیش آیا ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں قرآن شائع ہوا ہو تو کسی نے اس کو مدینہ منورہ بھیجا ہو کہ تصدیق کر دیں کہ یہ اصلی ہے یا اس میں ملاوٹ ہوئی ہے؟ اگر کہیں کسی نے گڑبڑ کی تو وہیں دو چار حافظ نکل آئیں گے اور اسے جا کر کہیں گے کہ تم نے یہ خرابی کی ہے۔ یہ اعتبار آج بھی الحمدللہ عملاً موجود ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں وہاں کسی مسجد کی الماری سے قرآن مجید اٹھا کر پڑھنا شروع کر دیں تو آپ کبھی یہ تسلی نہیں چاہیں گے کہ یہ قرآن ہے بھی یا نہیں۔ ہمارے پاس قرآن مجید موجود ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت موجود ہے، اور ولادت سے وصال تک نہیں بلکہ ولادت سے پہلے اور وصال کے بعد تک ایک ایک تفصیل ریکارڈ پر مستند موجود ہے۔ صرف سیرت نہیں بلکہ نبی اکرمؐ ارشادات احادیث کی شکل میں موجود ہیں، اور آپؐ کے اعمال اور واقعات سنت کی شکل میں الگ موجود ہیں۔ یہ تین دائرے الگ الگ ہیں۔ حدیث کا دائرہ الگ ہے، سنت و فقہ کا دائرہ الگ ہے، اور اسوہ و سیرت کا دائرہ الگ ہے اور پورے اعتماد اور پوری سند کے ساتھ موجود ہے۔ آپ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے کسی مرحلے کے بارے میں مستند معلومات حاصل کرنا چاہیں تو صرف محنت کی ضرورت ہے، آپ کو مل جائے گا۔

    مغرب ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم مذہب سے یا کم از کم مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبردار ہو جائیں، تو میں ان سے کہتا ہوں کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے، اس لیے کہ مذہب کی دونوں بنیادیں ہمارے پاس موجود اور محفوظ ہیں۔ یہ میں نے ایک سبب بیان کیا ہے۔

  2. دوسرا سبب جس پر مغرب کو بڑا غصہ آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث صرف موجود اور محفوظ ہی نہیں بلکہ پڑھا پڑھایا بھی جا رہا ہے، مدارس ان کو اگلی نسل تک منتقل بھی کر رہے ہیں۔ اگر اس نسل میں اَسی لوگوں کے پاس ہے تو اگلی نسل میں دو سو کے پاس ہوگا، یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ کتاب اور صاحبِ کتاب کی تشریحات نہ صرف موجود اور محفوظ ہیں بلکہ مسلسل پڑھی پڑھائی جا رہی ہیں، لکھی لکھائی جا رہی ہیں، پھیلی پھیلائی جا رہی ہیں اور ہر آن اس کا دائرہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اس لیے کون اس امت کو مذہب سے دستبردار کروا سکتا ہے؟ دیکھیں! بے عملی الگ چیز ہے کہ ہم عمل نہ کریں، بد عملی بھی ہو جاتی ہے، جبکہ دستبرداری الگ چیز ہے۔ مسلمان قرآن مجید اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے۔

میں نے یہ بات ذکر کی ہے کہ مغرب کے نزدیک مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہےاور اس کا معاشرے سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ مغرب نے خود رشتے توڑ دیے ہیں اور ہم سے بھی تڑوانا چاہتا ہے لیکن ہم اس کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہ توڑ سکتے ہیں۔ میں نے اس کے اسباب و عوامل ذکر کیے ہیں ۔ یہ کشمکش دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور اس کے مختلف مظاہر ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔ یہ آج کے دور میں ہماری بڑی کشمکش ہے، ہم چاہے زندہ قوم ہیں یا نہیں، لیکن اسلام ایک زندہ مذہب ہے، قرآن مجید ایک زندہ کتاب ہے، سیرت اور حدیث ایک زندہ موضوع ہے، اس کشمکش میں اسلام ہی سرخرو ہوگا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

2016ء سے
Flag Counter