وفاقی شرعی عدالت کا قیام دستورِ پاکستان کے تحت اس لیے عمل میں لایا گیا تھا کہ ملک میں رائج جو قوانین اور ضابطے قرآن و سنت کے منافی ہیں ان کا تعین کر کے انہیں اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالا جائے۔ اور وفاقی شرعی عدالت نے اس سلسلہ میں اب تک بہت سے اہم فیصلے صادر کیے ہیں جن میں سودی قوانین کو خلافِ اسلام قرار دینے کا تاریخی فیصلہ بھی شامل ہے۔ مگر گزشتہ دنوں وفاقی شرعی عدالت کے دو ایسے فیصلے سامنے آئے ہیں جو اسلامی تعلیمات کی رو سے قابلِ قبول نہیں ہیں، اور بادی النظر میں مروجہ غیر اسلامی قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کی بجائے قرآنی ضابطوں کو مروجہ عالمی قوانین و روایات کے مطابق تبدیل کرنے کے کسی عمل کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔
ایک فیصلہ یتیم پوتے کی وراثت کے بارے میں ہے جو روزنامہ نوائے وقت لاہور ۶ جنوری ۲۰۰۰ء کے مطابق یوں ہے کہ
’’وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس میاں محبوب احمد، جسٹس فدا احمد اور جسٹس اعجاز یوسف پر مشتمل تین رکنی فل بنچ نے مسلم فیملی لاز آرڈیننس مجریہ ۱۹۶۱ء کی دفعہ ۴ کو اسلام کے منافی قرار دیتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ ۳۱ مارچ تک آئین میں یہ بات شامل کرائے کہ یتیم پوتے کو جائیداد میں حصہ دیا جائے، چاہے دادا نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو۔‘‘
اس بارے میں شرعی حکم یہ ہے، جس کا ذکر امام بخاریؒ نے بخاری شریف میں وراثت کے احکام میں حضرت زید بن ثابتؓ کے فتویٰ کی صورت میں کیا ہے، اور اس پر تمام صحابہ کرامؓ کا اجماع ہے کہ کسی شخص کی وفات کے وقت اگر اس کا کوئی بیٹا زندہ ہے تو اس کی زندگی میں فوت ہو جانے والے اس کے کسی بیٹے کی اولاد کو اس کی وراثت میں حصہ نہیں ملے گا۔ کیونکہ وراثت کا مسلّمہ اصول ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور کا رشتہ دار وراثت سے محروم ہو جاتا ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص کسی ایسے عزیز کو اپنی جائیداد میں سے حصہ دینا چاہتا ہے جو شرعاً وارثوں میں شمار نہیں ہوتا، تو وہ اپنی کل جائیداد کے تیسرے حصے تک اس کے لیے وصیت کر سکتا ہے، اس کے بغیر کوئی وارث شخص جائیداد میں حصہ دار نہیں ہو سکتا۔
۱۹۶۱ء میں صدر محمد ایوب کے دور میں جب عائلی قوانین نافذ کیے گئے تو ان میں یتیم پوتے کو دادا کی وصیت کے بغیر اس کی وراثت کا حقدار قرار دیا گیا تھا، جس کی تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے مخالفت کی اور اسے شرعی اصولوں کے منافی قرار دیا۔ مگر اب وفاقی شرعی عدالت نے پھر اسے آئین میں شامل کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔
دوسرا مسئلہ نکاح کا ہے جس کے بارے میں روزنامہ جنگ لاہور ۲۰ جنوری ۲۰۰۰ء کی خبر کے مطابق:
’’فیڈرل شریعت کورٹ نے خفیہ نکاح کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بچی کو جائز اولاد قرار دے دیا ہے۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے ڈویژن بنچ نے، جو چیف جسٹس میاں محبوب احمد اور جسٹس اعجاز یوسف پر مشتمل تھا، ’’عالم زیب بنام سرکار‘‘ میں ملزمان کے خفیہ باہمی نکاح کے اقرار کو تسلیم کرتے ہوئے قرار دیا کہ نکاح کے لیے میاں بیوی کا باہمی اقرار یعنی ’’تصادقِ زوجین‘‘ ہی کافی ہے، اس کے لیے گواہوں کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ عدالت نے اس اصول سے اتفاق کرتے ہوئے ملزمان کے باہمی نکاح کو تسلیم کر کے انہیں ماتحت عدالت کی طرف سے دی گئی سزا سے بری کر دیا اور ڈیڑھ سالہ بچی کنیزا کو جائز قرار دے دیا۔‘‘
اس سلسلہ میں ۲۲ جنوری ۲۰۰۰ء کے جنگ میں وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے ایک وضاحت شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ فیصلہ میں نکاح کے گواہوں کی عدالت میں طلبی کو غیر ضروری قرار دیا گیا ہے۔ مگر ہمارے نزدیک یہ وضاحت ناکافی اور غیر تسلی بخش ہے:
- اولاً اس لیے کہ خفیہ نکاح سرے سے اسلام میں قابلِ قبول نہیں ہے، اور قرآن کریم نے ’’ولا متخذات اخدان‘‘ کے الفاظ کے ساتھ اس کی نفی کی ہے۔
- اور ثانیاً اس لیے کہ جو نکاح خود زوجین کے قول کے مطابق خفیہ ہو اور اسے عدالت میں چیلنج بھی کر دیا گیا ہو، اس کے عدالتی جواز کے لیے صرف تصادقِ زوجین کافی نہیں ہے بلکہ ایسی صورت میں نکاح کا ثبوت عدالت میں پیش ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اور کسی ثبوت کے بغیر محض تصادقِ زوجین کی بنیاد پر نکاح کو جائز قرار دینا بالخصوص موجودہ معروضی حالات میں جس فتنہ خیزی کا باعث بن سکتا ہے وہ وفاقی شرعی عدالت کے فاضل جج صاحبان کی نظروں سے یقیناً اوجھل نہیں ہو گی۔
اس لیے ہم وفاقی شرعی عدالت کے معزز جج صاحبان سے گزارش کریں گے کہ وہ اپنے ان فیصلوں پر نظرثانی کریں، نیز کوئی فیصلہ صادر کرنے سے پہلے معاملہ کے تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لے لیا کریں، تاکہ وفاقی شرعی عدالت کا مقصد غیر اسلامی قوانین کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنا ہی رہے، اسلامی قوانین کو غیر اسلامی روایات کے مطابق تبدیل کرنا نہ بن جائے۔