انسانی حقوق: اسلامی اور مغربی نقطہ ہائے نظر کے پانچ بنیادی فرق

   
صفہ اکیڈمی، گوجرانوالہ
۲۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء

صفہ اکیڈمی گوجرانوالہ رمضان المبارک کے دوران روزانہ نماز فجر کے بعد ’’ہدی الناس کورس‘‘ کے عنوان سے مختلف موضوعات پر لیکچرز کا اہتمام کرتی ہے، جس میں حضرات و خواتین کی ایک بڑی تعداد اہتمام کے ساتھ شریک ہوتی ہے اور مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور اربابِ دانش اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ ۲۸ اکتوبر کو ’’انسانی حقوق اور اسلامی تعلیمات‘‘ کے عنوان پر راقم الحروف کو کچھ گزارشات پیش کرنے کی دعوت دی گئی، اس موقع پر جو معروضات پیش کیں ان کا خلاصہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ انسانی حقوق آج کی دنیا کا ایک اہم موضوع ہے جس پر غالباً سب سے زیادہ گفتگو ہوتی ہے، اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے انسانی حقوق پر گفتگو کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جن پر گفتگو ضروری ہے۔ مگر آج کی مجلس میں صرف ایک پہلو پر کچھ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا، وہ یہ کہ انسانی حقوق کے آج کے فلسفہ اور حقوقِ انسانی کے اسلامی فلسفہ میں کیا فرق ہے۔

جہاں تک انسانی حقوق کا تعلق ہے، قرآن کریم نے بھی اس کے متعدد پہلوؤں پر گفتگو کی ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیسیوں پہلوؤں کی وضاحت فرمائی ہے، لیکن آج کے دور کے انسانی حقوق کے فلسفہ اور اس سلسلہ میں قرآن و سنت کی تعلیمات میں چند بنیادی اور اصولی فرق ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔

(۱) اس ضمن میں پہلا فرق تو اصطلاح کا ہے کہ انسانوں کے باہمی حقوق جن کو آج کے جدید فلسفہ میں ’’انسانی حقوق‘‘ اور ’’ہیومن رائٹس‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، اسلام نے ان کا ذکر ’’حقوق العباد‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے حوالے سے قرآن کریم اور سنتِ نبویؐ میں ہدایات و احکام کا ایک وسیع سلسلہ موجود ہے، اور وہ ایسا منظم اور مربوط ہے کہ شاید ہی کوئی اور سسٹم حقوقِ انسانی کی وہ تفصیلات اور ترجیحات بیان کرتا ہو جن کی نشاندہی قرآن و سنت نے کی ہے۔

(۲) دوسرا فرق یہ ہے کہ آج کا فلسفہ حقوق کی فہرست کو صرف انسانی سوسائٹی تک محدود رکھتا ہے، اور انسان کو پیدا کرنے والے، رزق دینے والے، اور بے شمار نعمتوں سے نوازنے والے خالق و مالک کے حقوق سے کوئی بحث نہیں کرتا۔ اسے اس بات سے سرے سے کوئی غرض ہی نہیں ہے کہ خدا کا کوئی وجود ہے بھی یا نہیں؟ اس پر ایمان لانا ضروری ہے یا نہیں؟ اور خالق و مالک کی حیثیت سے اس کا اپنے بندوں پر کوئی حق ہے یا نہیں؟ جبکہ اسلام اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کے نہ صرف وجود پر ایمان کو ضروری قرار دیتا ہے بلکہ اس کی توحید اور پھر اس کے حقوق کے اقرار کو بھی ناگزیر سمجھتا ہے۔ اس لیے اسلام حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی بات کرتا ہے اور ان دونوں کے درمیان توازن کو دین کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ اسلام نے اس سلسلہ میں دونوں انتہاؤں کی نفی کی ہے:

ایک طرف یہ انتہا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی میں ہی مصروف رہا جائے اور انسانوں کے حقوق کی طرف کوئی توجہ نہ دی جائے۔ اسے اسلام نے ’’رہبانیت‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور قرآن کریم نے اس کی صاف طور پر نفی کر دی ہے۔

جبکہ دوسری طرف یہ انتہا ہے کہ صرف بندوں کے حقوق اور انسانوں کے ساتھ معاملات پر ہی ساری توجہ صَرف کر دی جائے، اور اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت کو غیر ضروری تصور کر لیا جائے۔ اسلام نے اسے دنیا پرستی قرار دیا ہے اور اس کی نفی بھی کی ہے۔ اسلام کی تعلیم اس سلسلہ میں واضح ہے کہ خالق و مالک کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ پر ایمان، اس کے رسولوں کی تعلیمات کی پیروی، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار، اور اس کی بندگی اور اطاعت بھی ضروری ہے، اور انسانی سوسائٹی میں اپنے ساتھ رہنے والے انسانوں کے حقوق کی پاسداری بھی ضروری ہے۔

قرآن و سنت نے ان کے درمیان توازن اور ترجیحات کا ایک مربوط نظام پیش کیا ہے، اور اس سلسلہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا وہ ارشاد اصولی بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے جو انہوں نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا اور بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق و توثیق فرما دی تھی کہ

’’تیرے رب کا تجھ پر حق ہے، تیری جان کا تجھ پر حق ہے، تیری آنکھوں کا تجھ پر حق ہے، تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے، اور تیرے مسلمان بھائی کا تجھ پر حق ہے، اس لیے (دین اس کا نام ہے کہ) ہر حق والے کو اس کا حق ادا کرو۔‘‘

(۳) انسانی حقوق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات اور آج کے فلسفہ میں تیسرا بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلام میں حقوق کا تعین آسمانی تعلیمات اور وحئ الٰہی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ جبکہ جدید فلسفہ کے پاس اس کے تعین کی بنیاد صرف انسانی سوسائٹی کی خواہشات ہیں۔ انسانی سوسائٹی کی اکثریت جس بات کو حق قرار دے وہ حقوق کی فہرست میں شامل ہو جائے گی، اور جسے وہ حقوق کی فہرست سے نکال دے وہ خارج ہو جائے گی۔ جمہوریت اور ووٹنگ انسانی سوسائٹی کی خواہش معلوم کرنے کا طریقہ ہے، اصل بنیاد انسانی سوسائٹی کی خواہشات پر ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ چونکہ انسانی سوسائٹی کی خواہشات کو کہیں قرار نہیں ہے اور انہیں کسی جگہ بریک نہیں لگتی، اس لیے حقوق کی یہ فہرست ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک کام جو ایک زمانے میں جرائم کی فہرست میں شمار ہوا کرتا تھا، دوسرے دور میں وہ جرائم کی فہرست سے نکل کر حقوق کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے۔ میں دو مثالوں سے یہ بات واضح کرنا چاہوں گا:

  • ایک یہ کہ مرد اور عورت کا بغیر شادی کے اکٹھے رہنا، جنسی تعلق قائم کرنا اور بچے پیدا کرنا ایک دور میں جرم سمجھا جاتا تھا۔ بائبل کے نزدیک آج بھی وہ جرم ہے، لیکن آج کے دور میں اس عمل کو نہ صرف یہ کہ جرائم کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے بلکہ متعدد قوانین کے ذریعے مغربی ممالک نے اس کے جواز کو تسلیم کرتے ہوئے اسے حقوق کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔
  • اسی طرح ہم جنس پرستی کچھ عرصہ پہلے تک جرم تصور ہوتی تھی اور اس کی مذمت کے ساتھ ساتھ اس پر سنگین سزا کی آیات آج بھی بائبل میں موجود ہیں۔ لیکن سوسائٹی کی اجتماعی سوچ بدلنے کے ساتھ ہی اسے جرائم کی فہرست سے نکال کر حقوق کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے، اور مغربی ممالک کی اسمبلیاں اس حوالے سے مسلسل قانون سازی کر رہی ہیں۔ جبکہ اسلام اس کو تسلیم نہیں کرتا اور اس کا موقف یہ ہے کہ اس سلسلہ میں وحئ الٰہی اور آسمانی تعلیمات میں جو اصول طے کر دیے گئے ہیں اور جو دائرے حقوق و معاملات اور حرام و حلال کے حوالے سے قطعی طور پر متعین کر دیے ہیں، انسانی سوسائٹی کو انہیں کراس کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، ا ور اسے ان حدود کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی اپنے معاملات طے کرنے کا اختیار ہے۔ اسی طرح اسلام ان امور کو انسانی حقوق کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جنہیں انسانی سوسائٹی نے وحئ الٰہی اور آسمانی تعلیمات کو کراس کرتے ہوئے حقوق تصور کر لیا ہے۔

(۴) انسانی حقوق کے بارے میں اسلامی تعلیمات اور آج کے جدید فلسفہ میں چوتھا اہم فرق یہ ہے کہ اسلام دوسروں کے حقوق ادا کرنے پر زیادہ زور دیتا ہے اور ایک لمبی فہرست بیان کرتا ہے کہ تم پر خدا کا یہ حق ہے، رسول کا یہ حق ہے، ماں باپ کا یہ حق ہے، بیوی اور بچوں کا یہ حق ہے، رشتہ داروں کا یہ حق ہے، پڑوسیوں کا یہ حق ہے، وغیر ذٰلک۔ اور اسلامی تعلیمات کا زیادہ تر رجحان اس طرف ہوتا ہے کہ تم دوسروں کے حق ادا کرو گے تو تمہارے حقوق خودبخود ادا ہو جائیں گے۔ جبکہ جدید فلسفہ و نظام کا رجحان اور اسلوب یہ نظر آتا ہے کہ دوسروں کے ذمے تمہارے حقوق یہ ہیں، وہ ایک انسان کے سامنے اس کے حقوق کی ایک فہرست پیش کرتا ہے اور اسے تلقین کرتا ہے کہ وہ اپنے یہ حقوق حاصل کرے۔

ان دونوں میں نتیجے کے اعتبار سے جو فرق ہے وہ اہلِ دانش پر مخفی نہیں۔ جب یہ انسان دوسروں کے حقوق ادا کرنے پر آ جائے گا تو اس کے حقوق بھی اسے ملیں گے، اور اس کے ساتھ ساتھ سوسائٹی میں باہمی محبت، اعتماد اور بھائی چارے کی فضا پیدا ہو گی۔ لیکن جب ہر شخص دوسروں سے اپنے حقوق حاصل کرنے کی فکر میں ہو گا تو باہمی کشمکش کی ایسی فضا قائم ہو گی کہ نفسا نفسی کا ماحول پیدا ہو جائے گا اور باہمی ربط و محبت کی وہ فضا قائم نہیں ہو سکے گی جو ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے ضروری ہے۔

انسانی حقوق اور اسلامی تعلیمات کے بہت سے پہلوؤں پر گفتگو کی گنجائش اور ضرورت ہے لیکن وقت کے اختصار کے باعث چند اصولی باتوں پر اکتفا کر رہا ہوں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق سے نوازیں، آمین ثم آمین۔

(روزنامہ پاکستان، لاہور ۔ ۳۱ اکتوبر ۲۰۰۵ء)
2016ء سے
Flag Counter