الیکشن میں دینی جماعتوں کی صورتحال او رہماری ذمہ داری

   
جامعہ اسلامیہ محمدیہ، فیصل آباد
۳ جنوری ۲۰۲۴ء

۳ جنوری ۲۰۲۴ء کو جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد میں پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی نائب امیر حضرت مولانا عبد الرزاق کی زیرصدارت علماء کرام کے اجتماع سے خطاب کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ملک میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے، تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے، مختلف جماعتیں میدان میں ہیں اور انتخابی مہم شروع ہو گئی ہے۔اس ماحول میں ملک کی دینی جماعتوں اور دینی حلقوں کو کیا کرنا چاہیے، اس کے بار ےمیں چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔

پہلی بات یہ ہے کہ دینی حلقوں، دینی جماعتوں اور علماء کرام کا انتخابی سیاست سے کیا تعلق ہے، یہ انتخابی عمل میں کیوں شریک ہوتے ہیں؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ پاکستان پون صدی پہلے اس نعرہ پر وجود میں آیا تھا کہ ہم مسلمان ہندوؤں سے الگ تہذیب رکھتے ہیں، وہ چونکہ برصغیر میں اکثریت میں ہیں اس لیے اگر ہم ان کے ساتھ رہیں گے تو ان کی تہذیب کے اثرات غلبہ پائیں گے، لہٰذا ہمیں اپنا الگ آزاد ملک چاہیے تاکہ ہم اپنے دین، مذہب، شرعی احکام اور تہذیب و ثقافت پر قائم رہ سکیں۔ تحریکِ پاکستان کے قائدین بالخصوص قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہم اللہ تعالیٰ اور دیگر مرکزی قیادت جن کی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا، ان کا یہ صاف کہنا تھا کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ تہذیبی اور مذہبی حوالے سے اکٹھے نہیں رہ سکتے اس لیے ہمیں الگ ملک چاہیے جہاں ہم شرعی قوانین کا نفاذ کریں گے، اسلامی تہذیب اور ثقافت کو باقی رکھیں گے، اور مسلم تہذیب کو ہندو تہذیب میں گڈمڈ نہیں ہونے دیں گے۔

یہ وہی معرکہ ہے جو حضرت مجدد الف ثانیؒ کو درپیش تھا، جب اکبر بادشاہ نے سب کچھ خلط ملط کر دیا تھا، کچھ ہندوؤں کی باتیں، کچھ عیسائیوں کی، کچھ مسلمانوں کی اور کچھ بدھوں کی باتیں اکٹھی کر کے ’’دینِ الٰہی‘‘ تشکیل دیا تھا اور اسے عملاً‌ نافذ بھی کر دیا تھا۔ اس کا مقابلہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کی قیادت میں اہلِ حق نے کیا تھا اور عملاً‌ جدوجہد کر کے بتایا تھا کہ ہماری تہذیب و ثقافت اور عقائد الگ ہیں، ان پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد اسی کا تسلسل تھا۔ تحریکِ پاکستان کے قائدین نے قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں دوٹوک بات کی کہ ہم ملک میں شرعی قوانین کے مطابق نظام چاہتے ہیں، لیکن قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ہمارا رخ مڑ گیا۔ ملک کے دستور میں تو لکھا ہوا ہے کہ حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اور ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہے، اور یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتی، لیکن عملاً‌ پچھتر سال میں اس رخ پر کوئی کام نہیں ہوا۔

چنانچہ اس رخ اور ٹریک پر قوم کو قائم رکھنا اہلِ دین کی ذمہ داری ہے، پاکستان بننے کے بعد سے دینی جماعتیں اسی بنیاد پر کام کر رہی ہیں کہ ہم نے پاکستان کو اس کے مقصدِ قیام کے مطابق ایک اسلامی ریاست بنانا ہے، اور اس کے لیے علماء کرام کا قومی سیاست میں ایک مؤثر قوت کے طور پر موجود رہنا ضروری ہے۔

دوسری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارا پچھتر سال کا تجربہ ہے کہ جب بھی ہم نے دین، شریعت اور تہذیب کی کوئی بات اکٹھے ہو کر کی ہے تو اس سے کوئی انکار نہیں کر سکا۔ لیکن یہی بات جب ہم اپنے طور پر کرتے ہیں تو کوئی نہیں سنتا، بریلوی اپنی جگہ کرتے ہیں، اہلِ حدیث اپنی جگہ، دیوبندی اپنی جگہ، اور جماعت اسلامی اپنی جگہ کرتی ہے۔ تقریباً‌ نصف صدی سے تو میں بھی ان تحریکات کا متحرک حصہ ہوں، الحمد للہ۔ جب اپنی اپنی جگہ بات کرتے ہیں تو کوئی نہیں سنتا لیکن جب اکٹھے ہو کر بات کرتے ہیں تو سنی جاتی ہے۔ یہی صورتحال الیکشن کی بھی ہے کہ جس الیکشن میں بھی ہم نے اجتماعی کردار ادا کیا ہے تو بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی تحریک پورے ملک کا رخ موڑنے والی تحریک تھی جس میں سب شریک تھے۔ پھر ایک دور آیا جب ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ نے انتخابات میں خاصی سیٹیں جیت کر ایک فیصلہ کن قوت حاصل کی۔

اس لیے پاکستان کے قیام کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے اور پاکستان کو لادینی ریاست ہونے سے بچانے کے لیے دینی جماعتوں کو اکٹھے ہو کر یہ الیکشن لڑنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ کیوں نہیں ہو سکا، یہ الگ داستان ہے لیکن واقعہ یہی ہے کہ الیکشن لڑنے کے لیے دینی حلقے اکٹھے نہیں ہو سکے۔ اس موقع پر مجھے ۱۹۷۰ء کے انتخابات یاد آ رہے ہیں جس میں گوجرانوالہ کی تین چار سیٹوں کی انتخابی مہم کا میں انچارج تھا۔ صرف ایک تجربہ کے حوالے سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ گوجرانوالہ شہر کی قومی اسمبلی سیٹ پر علمائے دیوبند کی طرف سے مولانا مفتی عبد الواحدؒ، بریلوی علماء میں سے مولانا ابو داؤد صادقؒ، اہلِ حدیث علماء میں سے مولانا محمد عبد اللہ اور جماعت اسلامی کے چودھری محمد اسلم کھڑے تھے۔چار مذہبی جماعتیں جو نفاذِ اسلام کی بات کرتی ہیں، ہر ایک کا اپنا امیدوار کھڑا تھا، سب نے دس دس ہزار کے لگ بھگ ووٹ حاصل کیے۔ جبکہ اسی گوجرانوالہ میں ہم نے متحدہ مجلس عمل کے تحت ۲۰۰۲ء میں الیکشن لڑا تو مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ قومی اسمبلی کی سیٹ جیتے جبکہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ مولانا مفتی غلام فرید رضوی جیتے جو بریلوی حضرات کے بڑے عالم تھے۔ میں صرف مثال کے طور پر عرض کر رہا ہوں کہ جب الگ الگ لڑے تو کچھ بھی نہیں ملا اور جب اکٹھے ہو کر لڑے تو کامیاب ہوئے۔

اس دفعہ کے الیکشن ۲۰۲۴ء میں ہم اتحاد نہیں کر سکے، اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں۔ بریلویوں کی اپنی تنظیمیں ہیں، دیوبندیوں کی اپنی، اہلِ حدیث کی اپنی، کوئی کسی پارٹی میں ہے اور کوئی کسی پارٹی میں۔ پچھلے تجربات بتاتے ہیں کہ سب تکلف ہی کر رہے ہیں۔ بہرحال جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا، صحیح ہوا یا غلط ہوا۔ اب اس موجودہ فضا میں ہم نے کیا کرنا ہے؟ میں سب دینی حلقوں سے خواہ وہ کسی بھی مکتبِ فکر کے ہوں، دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث اور جماعت اسلامی، جو بھی اسلام کی بات کرتا ہے اور اسلام کے حوالے سے سیاست کی بات کرتا ہے، میں تین گزارشات کرنا چاہتا ہوں:

  1. ہر حلقہ میں اہلِ دین کو اجتماعی طور پر مشاورت کے ساتھ اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ان کی طرف سے ایسا آدمی آگے آئے جو کم از کم مشترکہ دینی معاملات میں دین کی بات کر سکے۔ وہ اس کا حوصلہ بھی رکھتا ہو اور علم بھی۔ صرف حوصلہ کچھ نہیں کرتا اور صرف علم بھی کچھ نہیں کرتا۔ چنانچہ پہلا دائرہ یہ ہے اور موجودہ صورتحال میں ہم یہی کر سکتے ہیں کہ اپنے حلقے میں جو بھی چار پانچ امیدوار ہیں، ان میں دیکھیں کہ ملک اور اسلامی نظام کے لیے حوصلہ و صلاحیت اور علمی اعتبار سے کون سب سے موزوں ہے، اور سب باہمی مشاورت کے ساتھ اس ایک امیدوار کو سپورٹ کریں۔
  2. جس امیدوار کو آپ نے سپورٹ کرنا ہے اس سے تحریری وعدہ لیں۔ حلقہ کے سو دو سو با اثر لوگ اکٹھے ہو کر اپنے امیدوار کو ساتھ بٹھائیں اور اس سے درج ذیل باتوں کا حلف لے لیں کہ ہم اس وعدہ پر آپ کو ووٹ دیں گے:

    ’’میں منتخب ہو کر پاکستان کے دستور کی وفاداری کروں گا۔ دستوِر پاکستان کی اسلامی دفعات کا تحفظ کروں گا۔ ملک کے دستور کے خلاف کوئی کام نہیں ہونے دوں گا۔ دستور اور قانون میں شریعت کے جو قوانین ہیں ان میں سے کسی کو منسوخ یا غیر مؤثر بنانے کی حمایت نہیں کروں گا۔ شریعتِ اسلامیہ کے خلاف کسی بل کی حمایت نہیں کروں گا۔ شریعت کے نفاذ کی کوشش کروں گا۔ ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالت کے قوانین کی پوری طرح پاسداری کروں گا۔ جب بھی شریعت کے لیے کسی قانون کے نفاذ کی بات ہو گی تو میرا ووٹ شریعت کو ہو گا۔ کسی بھی دینی اور قومی مسئلہ میں، قومی خودمختاری یا ملکی آزادی کے معاملہ میں میرا ووٹ ملکی وحدت، قومی خودمختاری اور آزادی کے ساتھ ہو گا۔‘‘

    یہ کام تو ہر حلقہ کے لوگوں کو کرنا چاہیے، آپ جس پارٹی کو یا جس امیدوار کو بھی ووٹ دیں، اس سے اس حلف نامہ پر ضرور دستخط لیں۔ اس سے کچھ نہ کچھ فرق ضرور پڑے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

  3. بہت سے حلقوں میں مختلف دینی جماعتوں کے علماء کرام آمنے سامنے انتخابات لڑ رہے ہیں۔ مختلف مسالک کے تو ایک دوسرے کے مقابلے پر ہیں ہی، بعض جگہ پر ایک مسلک کے علماء بھی باہم ایک دوسرے کے مقابلے پر ہیں۔ اگر کہیں ایک حلقے میں علماء کی دو جماعتیں ہوں تو وہاں کم از کم اتمامِ حجت کے لیے کوشش کریں اور ان سے گزارش کریں کہ آپ میں سے ایک اس دفعہ الیکشن لڑ لے، اور دوسرے سے عرض کریں کہ آپ اگلی دفعہ الیکشن لڑنا، لیکن مہربانی کریں کہ آمنا سامنا نہ کریں۔ دینی حلقوں اور دینی امیدواروں کا آپس میں آمنا سامنا ہمیں خاموشی سے ہضم نہیں کر لینا چاہیے بلکہ اسے کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

یہ میری تین گزارشات ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ پاک ہمیں ہدایت دیں اور صحیح رخ پر صحیح کام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ پاکستان شریعت کونسل خود انتخابات میں شریک نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو اس کا ٹائٹل استعمال کرنے کی اجازت ہے، البتہ ہم ملک بھر کے عوام اور دینی کارکنوں سے گزارش کر رہے ہیں کہ (۱) امیدواروں میں سے جو شریعت کے زیادہ قریب ہے اسے منتخب کریں (۲) جس امیدوار کو ووٹ دیں اس سے حلف نامہ لیں (۳) جہاں دینی حلقے، جماعتیں اور علماء آپس میں مقابلے پر ہیں وہاں اپنی پوری کوشش کریں کہ ایک امیدوار سامنے آئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter