قابلِ تشویش سیاسی منظر نامہ اور پاکستان شریعت کونسل کی قراردادیں

   
۲۷ فروری ۲۰۱۶ء

پاکستان شریعت کونسل سندھ کا صوبائی مشاورتی اجلاس ۲۵ فروری ۲۰۱۶ء کو جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن کراچی میں امیر مرکزیہ مولانا فداء الرحمن درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں مولانا حافظ اقبال اللہ، مولانا عبد الرحمن خطیب، محمد اسلم شیخ ایڈووکیٹ، مولانا رشید احمد درخواستی، مولانا عبد المجید نعمانی، مفتی حبیب احمد درخواستی، اور حافظ محمد بلال فاروقی سمیت متعدد سرکردہ علماء کرام اور راہ نماؤں نے شرکت کی۔ اجلاس میں راقم الحروف نے پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل کے طور پر ملک کی عمومی صورت حال کا جائزہ پیش کیا اور مختلف امور پر بحث و تمحیص کے بعد مندرجہ ذیل قراردادیں منظور کی گئیں۔

یہ اجتماع ملک کی عمومی صورت حال کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے اس پر مختلف حوالوں سے تشویش و اضطراب کا اظہار ضروری سمجھتا ہے:

  • ملک کے نظریاتی تشخص اور دستور کی اسلامی بنیادوں کے خلاف عالمی سیکولر لابیوں کی مہم اور دباؤ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے جبکہ ریاستی ادارے اس کے بارے میں مسلسل تغافل اور بے پروائی کا شکار ہیں جو اس مہم کی بالواسطہ حمایت اور خاموش معاونت کے مترادف ہے۔ اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی عقائد و تہذیب کو کمزور کرنے کی کوئی بھی کوشش قیام پاکستان کے تہذیبی اور نظریاتی مقاصد اور پس منظر کی نفی ہے۔ یہ اجتماع حکومت پاکستان کی موجودہ پالیسیوں کو اس صورت حال کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ دستور پاکستان پر عملدرآمد اور خاص طور پر اسلامی احکام و قوانین کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں اور تمام ریاستی اداروں کو دستور کے مطابق ان پر عملدرآمد کا پابند بنایا جائے۔
  • یہ اجتماع اس عزم کا ایک بار پھر اظہار ضروری سمجھتا ہے کہ پاکستان کو اسلامی تشخص سے محروم کرنے، دستور کی اسلامی بنیادوں کو کمزور کرنے اور پاکستانی قوم کو اسلامی و مشرقی ثقافتی اقدار و روایات کے ماحول سے نکال کر مغربی و ہندووانہ ثقافت کو فروغ دینے کی ہر کوشش کا مقابلہ کیا جائے گا۔ اور پاکستانی قوم متحد ہو کر اپنے عقائد و اقدار کا تحفظ کرتے ہوئے اسلام کے معاشرتی کردار کے خلاف عالمی و ملکی سیکولر لابیوں کی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
  • یہ اجتماع مشرق وسطیٰ میں تیزی سے بڑھتی ہوئی سنی شیعہ کشیدگی اور سعودی عرب اور ایران کے درمیان تنازعات کی موجودہ صورت حال کو انتہائی تشویش و اضطراب کا باعث قرار دیتا ہے اور اسے کم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی اپیل اور پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مساعی کا خیر مقدم کرتا ہے۔
    اس اجتماع کی رائے میں سنی شیعہ کشمکش اور سعودی عرب و ایران کے باہمی تنازعہ کی موجودہ صورت حال کے اسباب و عوامل کا جائزہ لینا اور ان کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں دور کرنے کی سنجیدہ محنت انتہائی ضروری ہے جس کے لیے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کو مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ او آئی سی کا فوری طور پر سربراہی اجلاس بلایا جائے اور عالمی سطح پر سنجیدہ علمی و سیاسی شخصیات پر مشتمل کمیشن قائم کیا جائے جو سعودی عرب اور ایران کی باہمی کشمکش کے اسباب و عوامل کی نشاندہی کرے اور ان کے سدباب کے لیے عملی اقدامات تجویز کرے۔ یہ اجتماع اس سلسلہ میں میاں محمد نواز شریف سے مؤثر کردار ادا کرنے کی اپیل کرتا ہے۔
  • یہ اجتماع ملک میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے نیشنل ایکشن پلان کی مکمل حمایت کرتے ہوئے دہشت گردی کی ہمہ نوع کاروائیوں کے خلاف فوج اور دیگر ریاستی اداروں کی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے اور اس کی صحیح معنوں میں کامیابی کے لیے دعاگو ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اس رائے کا اظہار بھی ضروری سمجھتا ہے کہ بعض مخصوص عناصر اور لابیاں نیشنل ایکشن پلان کو مذہبی حلقوں، دینی مدارس اور علماء کرام کے خلاف استعمال کر کے ریاستی اداروں بالخصوص فوج اور دینی حلقوں کے درمیان عدم اعتماد اور محاذ آرائی کی فضا قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جو ملک و قوم کے خلاف مکروہ سازش ہے۔ ملک کی سلامتی، قومی وحدت، دستور کی بالادستی، حکومتی رٹ اور امن و امان کے لیے نیشنل ایکشن پلان کا کردار وقت کی اہم ضرورت ہے، لیکن اسے سیکولر مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور دینی تعلیم و ثقافت کے خلاف کاروائیوں کا بہانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جبکہ موجودہ صورت حال میں ان معاملات کو گڈمڈ کر کے فکری خلفشار کا ماحول قائم کر دیا گیا ہے جسے ریاستی اداروں کے اندر چھپے ہوئے سیکولر عناصر اپنے مذموم ایجنڈے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
    یہ اجتماع ملک کی سیاسی و فوجی قیادت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ان تحفظات کا ازسرِنو جائزہ لے اور نیشنل ایکشن پلان کو اس کے قومی مقاصد کی طرف صحیح طور پر آگے بڑھانے کے لیے ان تحفظات کو دور کرنے کا اہتمام کرے تاکہ وطن عزیز دہشت گردی سے نجات حاصل کر کے امن عامہ اور داخلی استحکام کے ساتھ ساتھ ایک صحیح اسلامی معاشرہ اور فلاحی ریاست کی ملی و دستوری منزل کی طرف پیش رفت کر سکے۔
  • یہ اجتماع ملک کی عمومی صورت حال اور ملک کی نظریاتی شناخت کو درپیش حقیقی خطرات کے تناظر میں دینی جماعتوں کے موجودہ قومی کردار کو غیر تسلی بخش بلکہ مایوس کن قرار دیتا ہے۔ ان حالات میں جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مغربی اور ہندووانہ ثقافت کے فروغ، اسلامی اقدار و روایات کو مٹانے، دستور کی اسلامی بنیادوں کو کمزور کرنے اور دینی حلقوں کو قومی و معاشرتی کردار سے الگ کرنے کے لیے ہر سطح پر اور ہر قسم کی مہم جاری ہے، دینی جماعتوں کا اپنے معروضی کردار پر قناعت کرتے ہوئے دین اور ملک و قوم کو درپیش خطرات کا سامنا کرنے کے لیے کسی اجتماعی جدوجہد کی ضرورت سے مسلسل صرف نظر کرتے جانا انتہائی تشویشناک اور اضطراب انگیز امر ہے۔ موجودہ حالات میں سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف دینی قوتیں بلکہ ملک کی اسلامی شناخت اور مسلم تہذیب و ثقافت پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتیں بھی ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرز پر متحد ہو کر اجتماعی جدوجہد کا اہتمام کریں۔ ورنہ وہ عند اللہ اور عند الناس کسی طرح بھی سرخرو نہیں ہو سکیں گی اور نہ ہی امت مسلمہ کی مستقبل کی تاریخ انہیں معاف کرے گی۔
  • یہ اجتماع ملک میں قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو تشویشناک قرار دیتا ہے اور انہیں ملت اسلامیہ کے اجماعی عقائد اور ملک کے دستور و قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے تمام ریاستی اداروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ملت اسلامیہ کے اجماعی موقف سے منحرف اور دستور پاکستان سے بغاوت کرنے والے اس گروہ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا نوٹس لیں اور اپنا دستوری کردار ادا کریں۔
   
2016ء سے
Flag Counter